ہمارے ہاں یہ محب وطن کا لفظ جو استعمال ہوتا ہے اس کے معنی کیا ہیں بعض دفعہ یہی محسوس ہوتا ہے کہ آیا ہم میں سے کون ہے جو واقعی میں وطن کے ساتھ محبت کرنے والا ہے کیونکہ آج کل ہر کوئی اپنے ملک سے یہی پوچھتا ہے کہ اے میرے وطن تو نے میرے لیے کیا کیا ہے لیکن کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اس نے ملک کے لیے کیا کیا ہے ۔ وطن نے آپ کو آزادی میں سانس لینا سکھایا وہ تمام تر نعمتیں اور آسائشیں فراہم کیں ۔ صرف تصور کرے اگر وہ آج آپ کے ساتھ نہ ہوتی آپ کس جگہ ہوتے ۔ تو پھر اگر ہم اس مقدس لفظ پر آئے ، تو محب وطن ایک مقدس لفظ ہے ایک ایسا لفظ کہ جس میں بہت سے معنی چھپے ہوئے ہیں۔ یعنی کہ جو بندہ اپنے ملک کے ساتھ محبت رکھے گا تو ظاہر سی بات ہے کہ وہ اپنے وطن پر کبھی بھی احسان نہیں جتاے گا ۔ بلکہ وہ ہر طرح ہر حال میں ہر حالت میں اپنے وطن کی فکر کرے گا وہ ہر حالت میں اپنے وطن کو آگے لے جانے کی سوچے گا ، اپنے ہم وطنوں کو آگے لے جانے کی سوچے گا تو ان تمام تر حالات میں جب ہم لفظ محب وطن کو دیکھتے ہیں تو پھر اس لفظ کے متعلق آپ خود اندازہ لگالے کہ آیا میں، آپ اور ہم سب پاکستانی کیا واقعی میں محبت وطن ہیں؟
پاکستانی قوم دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک حصہ محب وطنوں کا ہے، دوسرا غداروں کا۔ محب وطن وہ لوگ ہیں جو آئین توڑتے ہیں غیر جمہوری کام کرتے ہیں، جمہوریت کو پسند نہیں کرتے ایک شخص کی حکومت چاہتے ہیں سوال کرنے کی بجائے جواب دیتے ہیں، پروپیگنڈے کرتے ہیں ان سیاستدانوں کو پسند کرتے ہیں جو بظاہر تو جمہوریت کے حق میں بات کرتے ہیں لیکن اصل میں جمہوریت سے نفرت کرتے ہیں۔ یہ لوگ ترقی بھی کر رہے ہیں غیرقانونی طریقوں سے پیسے بھی کما رہے ہیں اور ان سے پوچھنے والا بھی کوئی نہیں ہے ، کیونکہ یہ لوگ محب وطن پاکستانی ہے اور ستر سال سے یہ لوگ اپنا کاروبار چلا رہے ہیں۔
بقول عاطف توقیر
دیس میں بسنے والا ہر اک سچ پسند
ظلم و وحشت سے دوری پر ہر کار بند
سانس لینے کا حق مانگنے والا ہر نوجواں
زندگی کی رمق کھوجنے والا ہر خانداں
سارے غدار ہیں
سارے جاسوس ہیں
ان محب وطنوں میں وہ صحافی بھی شامل ہیں جو اپنے محب وطن لیڈر کے حق میں ٹی وی پر آ کے تبصرے کرتے ہیں ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو محب وطن لیڈر کو سپورٹ کرتے ہیں ان کے حق میں نعرے لگاتے ہیں ان میں سویلین بھی شامل ہیں اور ان میں وہ نوجوان بھی شامل ہے جو تعلیم یافتہ و پڑھے لکھے ہیں۔ تعلیم یافتہ دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جنہیں احساس ہوتا ہے دوسرے وہ جن میں احساس نہیں ہوتا ایسے لوگ پڑھے لکھے جاہل کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں غدار انھیں سمجھا جاتا جنہیں اپنے ملک کے مستقبل کی فکر ہو ۔ جو حاکم وقت سے یہ سوال کرنے کی جرات رکھتا ہو کہ ملک کے اندر یہ حالات کیونکر پیدا ہوئے غدار وہ لوگ ہوتے ہیں جو ملک کے مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں غدار بادشاہ وقت سے سوال کرتا ہے ۔ وہ اس قسم کا سوال نہیں کرتا کہ ملک خطرناک صورتحال سے گزر رہا ہے اس قسم کی بات محب وطن کرتا ہے۔ غدار صرف یہ پوچھتا ہے یا سوال کرتا ہے کہ ملک خطرناک صورتحال سے کیوں گزر رہا ہے؟ وہ یہ نہیں کہتا کہ ملک میں بدامنی ہے بلکہ وہ سوال کرتا ہے کہ ملک میں بدامنی کیوں ہے وجہ کیا ہے کس محکمے کی وجہ سے حالات خراب ہے؟ اور اس کے پیچھے کون سے وجوہات ہیں؟ وہ یہ نہیں کہتا کہ ملک میں آٹے، چینی کا بحران ہے بلکہ وہ سوال کرتا ہے کہ ملک میں بحران کیوں ہے، وجہ کیا ہے ملک سے آٹا کہا جاتا ہے؟وہ یہ نہیں کہتا کہ ملک میں مہنگائی ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ ملک میں مہنگائی کیوں بڑھ رہی ہے وجہ کیا ہے، کن وجوہات کی بنا پر مہنگائی بڑھ رہی ہے، ان وجوہات کو ختم کیوں نہیں کیا جاتا؟ وہ یہ نہیں کہتا کہ ملک میں بے روزگاری ہے بلکہ وہ یہ سوال کرتا ہے کہ بیروزگاری کیوں ہے اس کی وجہ کیا ہے تعلیم کی کمی ہے، تو کمی کیوں ہے؟ لوگوں کے پاس ڈگریاں ہیں ان کو نوکری کیوں نہیں مل رہی اور ایسے بہت سے سوالات وہ پوچھتے ہیں جو حاکم وقت اور اس کے چاہنے والے وزیروں مشیروں کو برے لگتے ہیں۔برے اس لیے بھی لگتے ہیں کیونکہ ان لوگوں کے پاس اس قسم کے سوالات کے جوابات نہیں ہوتے۔ بدقسمتی سے بہت سالوں سے اور روز بروز سوال کم ہوتے جا رہے ہیں اور اس کے مقابلے میں جواب بڑھ رہے ہیں۔ اس لیے بھی جواب کی شرح بڑھ رہی ہے کیونکہ سوال کرنے والے لوگ آج کے دور میں بہت کم ہیں اور جواب دینے والے زیادہ ۔ اگر کوئی سیاستدان ، صحافی یا عام عوام ثبوت کے ساتھ سوال کرتا ہے تو جواب دینے والے محب وطن اس پر ڈائریکٹ الزام لگاتے ہیں کہ یہ تو انڈین کا ایجنٹ ہے یہ تو غدار ہے یہ ملک دشمن ہے وغیرہ وغیرہ۔کیونکہ یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ جہاں پر الفاظ ختم ہو جاتے ہیں تو وہاں پر آواز بلند ہو جاتی ہے۔میں نے سوال کرنے والوں کے لیے غدار کا لفظ اس لیے استعمال کیا کیونکہ یہاں پر ستر سالوں سے یہ رواج چلتا آ رہا ہے کہ جو بھی سوال کرتا ہے تو کچھ مخصوص لوگ ان پر غداری کا فتوی لگاتے ہیں اور ان مخصوص لوگوں نے تقسیم پاک و ہند کے بعد غداری کا یہ سرٹیفکیٹ اتنا عام کیا کہ اب عام عوام کی نظر میں سوال کرنے والے، پارلیمنٹ میں سچ بولنے والے ، بات کرنے والے، سچ لکھنے و بولنے والے صحافی، جمہوریت پسند سیاستدان غدار ہیں ۔
بقول غالب : صادق ہوں اپنے قول کا غالب خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
اور جو جمہوریت پسند نہیں ہے جو کہتے تھے آئین کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے اس کو ڈسٹ بن میں بھی پھینک سکتے ہیں وہ محب وطن ہے ، وہ لوگ بھی محب وطن ہیں جن کو عدالت نے سزائے موت کی سزا سنائی تھی اور سزا اس کو نہیں ملی۔ وہ سیاست دان بھی محب وطن ہے جو الیکشن سے پہلے یہی باتیں جلسوں میں کرتے ہیں کہ میں کرپشن ختم کر دونگا مگر ان افراد کا نام نہیں لیتے کہ فلاں بندے نے اتنی کرپشن کی ہے یہ بھی محب وطن ہے ۔ وہ سیاستدان بھی محب وطن ہے جو جمہوریت کو بدنام کرتے ہیں اور عوام کے ووٹ سے منتخب نہیں ہوتے بلکہ کسی اور جگہ سے اس کی سیلکشن ہوتی ہے۔جب اس طرح کی سلیکشن ہوتی رہی گی تو ملک ترقی کرنے کی بجائے پیچھے کی جانب جاے گا کیونکہ بظاہر تو ہمیں یہ کٹھ پتلیاں حکومت میں نظر آتی ہیں ۔ لیکن جب تک ہم ان کٹھ پتلیوں کے ڈوروں کو کنٹرول کرنے والوں کو بے نقاب نہیں کرتے تب تک ملک میں آنکھ مچولی کا یہ کھیل اسی طرح سے جاری رہے گا ۔ اور اس کے نتائج موجودہ حالات سے بھی زیادہ بھیانک ہونگے۔
0 63 5 minutes read