
پاکستان میں تقریبا 98 لاکھ افراد تھیلیسمیا کا شکار ہیں جبکہ ہر برس نو ہزار بچے اس بیماری کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ صورتحال بلوچ اور پختون اکثریتی علاقوں میں زیادہ سنگین ہے، جہاں خاندان سے باہر شادیاں نہیں کی جاتیں۔
دنیا بھر میں تقریبا 300 ملین افراد تھیلیسیمیا کا شکار ہیں، جن میں 100ملین کو ہر ماہ ایک یا دو مرتبہ خون چڑھانا ضروری ہوتا ہے۔ 2022 میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں تقریبا 9.8 ملین افراد تھیلیسیمیا کا شکار ہیں، جو کل آبادی کا 11 فیصد بنتے ہیں۔
اسی تحقیق کے مصنف ڈاکٹر عنایت الرحمان کے مطابق پاکستان میں ہر برس نو ہزار بچے بیٹا تھیلیسیمیا کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں، جس کی بڑی وجہ خاندان میں شادیاں ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ بچوں میں تھیلیسیمیا کی جین منتقلی کے لیے ضروری ہے کہ ماں اور باپ دونوں یا دونوں میں سے کوئی ایک تھیلیسیمیا کیریئر ہو۔
آغا خان یونیورسٹی کے پیڈیاٹرک اینڈ چائلڈ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق تھیلیسیمیا خون کی خرابی کا ایک موروثی مرض ہے، جس میں انسانی جسم خون کے سرخ خلیوں کے لیے ناکافی ہیموگلوبن بنانے لگتا ہے۔ اس طرح جسم میں سرخ خلیوں کی تعداد کم ہونے لگتی ہے اور مریض کو ہر ماہ ایک یا دو مرتبہ خون چڑھانا ضروری ہوتا ہے۔
اس کی دو بڑی اقسام ایلفا اور بیٹا تھیلیسیمیا ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر کیسز بیٹا تھیلیسیمیا کے ہیں جسے میجر اور مائنر کی سب کیٹیگری میں تقسیم کیا گیا ہے۔
مائنر تھیلسیمیا: آغا خان یونیورسٹی کے مطابق والدین میں سے کوئی ایک تھیلیسیمیا کیریئر ہو تو پیدا ہونے والا بچہ تھیلیسیمیا مائنر کا شکار ہو گا۔ یہ قسم زیادہ خطرناک نہیں ہوتی۔
میجر تھیلیسیمیا: والدین آپس میں قریبی رشتہ دار اور تھیلیسیمیا کیریئر ہوں تو ان کے بچے میجر تھیلیسیمیا کا شکار ہوں گے۔ یہ خطرناک مرض ہے، جس میں بچوں کو ہر ماہ ایک سے دو مرتبہ خون چڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں ایسے بچوں کی اوسط عمر 10 سے 12 سال ہے۔