
ایک زمانہ تھا جب گاؤں کے بچے اسکول پیدل پڑھنے جایا کرتے تھے۔ آتے جاتے راستے میں ملنے والے بزرگوں کو سلام کیا کرتے تھے اور ادب سے چاچا اور خالہ کہہ کر بلایا کرتے تھے۔بلکہ بعض دفعہ ان کے چھوٹے موٹے کام بھی کر دیا کرتے تھے۔ پھر زمانے نے ترقی کی ،گاؤں والے شہر آ کر آباد ہو گئے ، بچوں کو کچے سکولوں کی جگہ پکے اسکول اور اسکول جانے کے لئے گاڑیاں مل گئیں۔ آہستہ آہستہ زمانہ ترقی کرتا گیا ، لوگوں کے میل ملاپ میں فرق آ گیا۔ دولت اور پیسے نے اپنی شناخت بنا لی۔ پیار، محبت اور احترام کم ہونے لگا۔ ہر شخص اپنی سوچ میں محدود ہو کر رہ گیا۔ پہلے انسان تعلیم حاصل کرکے شعور حاصل کرتا تھا۔ آجکل شعور ہوتے ہوئے بھی بد اخلاق ہو گیا ہے۔کسی کو دیکھنا اور برداشت کرنا نہیں چاہتا۔اس کے اندر میں اور انا کے بت نے اس کو اتنا خود سر بنا دیا کہ وہ اخلاقیات کے سارے ادب آداب بھول گیا۔ پہلے جو دُعا سلام لینا اور خیریت معلوم کرنا ، وہ سب ہماری خود غرضی کی بھینٹ چڑھ گیا۔آج کل ایک لفظ عام بولا جاتا ہے اپنے کام سے کام رکھو، دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی مت کرو، ہمیں کیا خود بھگتے گا وغیرہ وغیرہ جائز اور ناجائز دولت کا حصول انسان کا مقصد حیات بن گیا۔امیر دولت مند با اخلاق اور معزز غریب متوسط ، مڈل کلاس کے لوگ بد اخلاق اور جاہل کہلاتے ہیں۔کیونکہ ساری تہذیب معزز بڑے امیر طبقے میں ہے۔کوئی شخص ذرا سی بھی سیڑھی چڑھتا ہے وہ اپنے سے نیچے والوں کو انسان سمجھنا بھول جاتا ہے۔خاندان میں اگر رشتوں کی بات چلے تو کہا جاتا ہے کہ وہ ہمارے معیار کے نہیں۔ اسی وجہ سے ہزاروں غریب لڑکیوں کے رشتے نہیں ہو رہے۔ دوسری وجہ ہمارے اندر ماڈرن کلچر کا داخل ہونا ہے۔ یہ دقیانوسی خیالات کے لوگ ہیں، ان کو کپڑے پہننے کی تمیز نہیں۔ آجکل لڑکیاں بھی مردوں جیسے لباس پہننا پسند کرتی ہیں کیونکہ اس میں نہ حجاب ، نہ دوپٹے کا چکر ہوتا ہے۔ اگر حجاب کھلے سر اور تنگ کپڑے پہن کر گھومنا اور اپنے چہرے اور جسم کی نمائش کرنا ماڈرن ازم کہلاتا ہے تو میرے خیال میں جانوروں سے ماڈرن تو کوئی بھی نہ ہوا۔فیشن کی دلدادہ مائیںبھی اس چیز پر فخر کرتی ہیں، ہماری بیٹی ماڈرن ہے۔ مغرب کی تہذیب کے طور طریقے جانتی ہیں۔ پھر اس کی یہ عادت پختہ ہو جاتی ہے۔ گھریلو کام کاج ، کھانا پکانا بھی نہیں سیکھ پاتی۔ اگر ان کو کوئی آزادخیال لڑکا مل جائے تو شادی کر لیتی ہیں اور پھر جلدی طلاق بھی لے لیتی ہیں کیونکہ ماڈرن بننا آسان نہیں ہوتا۔بے پردگی اور بے حیائی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اگر ایسی لڑکیوں کی شادی ہو بھی جائے تو وہ سارے خاندان کو اپنے پیچھے لگائے رکھتی ہیں۔ گھر کا کام کاج ان کو آتا نہیں، سارے کام نوکر کرتے ہیں پھر وہ جیسا بھی پکائیں، کھانا پڑتا ہے۔کھانوں میں ذائقہ بھی نہیں ہوتا۔ گھر کا کام کاج نہ کرنے کی وجہ سے موٹاپا، بلڈ پریشر، ٹینشن جیسی بیماریاں لگ جاتی ہیں، مہمان بھی شوق سے نہیں آتے۔ مہمان کے آنے سے جو برکتیں ملتی تھیں، وہ بھی نہیں ملتیں۔اب تو سارے کام باہر سے ہی ہوتے ہیں۔ دولہا دلہن پارلر سے تیار ہو کر شادی ہال میں آتے ہیں۔ مہمان بھی سیدھے ادہر ہی پہنچ جاتے ہیں۔ مہمان کھانا کھا کر اپنے گھر اور دولہا دولہن اپنے گھر ،نہ دُعائیں نہ نصیحتیں، سب اچھاہے۔ پھر کچھ دنوں کے بعد نئی نویلی دولہن کو گھر میں پرانی چیزی بری لگتی ہیں۔ حتیٰ کہ اپنے ساس سسر بھی۔وہ یہ سوچتی ہے کہ کب یہ دنیا سے جائیں گے یا مجھے انہیں اولڈ ایج ہوم بھیجنا پڑے گا۔ایسے ماڈرن کلچر نے ہمیں رشتوں کی تمیز ہی بھلا دی ہے۔اب بچے بڑوں کی موجودگی اپنے لئے ٹینشن سمجھتے ہیں۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی موجودگی میں اپنی مرضی سے نہ کھا سکتے ہیں، نہ پہن سکتے ہیں۔ ایسے ماڈرن زمانے نے ہمارا اسلامی حلیہ ہی تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔اب بچے اسلامی کم اور ولایتی زیادہ نظر آتے ہیں۔اچھا کھانا اور اچھا پہننا اچھی چیز ہے لیکن کارٹون بننا اور جوکر بن کے دکھانا الگ چیز ہے۔ اس طرح ترقی کرنے سے معیشت مضبوط ہوتی تو سب کے حالات بدل جاتے۔ پھر سبھی نیکر اور بنیان میں آ جاتے۔ کلچر بدلنے سے اخلاق بھی بدل جاتا ہے۔ لہٰذا اپنا کلچر کبھی نہ بدلیں۔ہم مسلمان ہیں ،مسلمان کی طرز پر زندگی گزارنی چاہیے۔ یورپ تو ویسے ہیں مدر پدر کی پابندیوں سے آزاد ہے۔ جبھی تو وہاں عورت کی کوئی عزت نہیں۔ایک ٹی وی پروگرام میں بڑے دُکھ کے ساتھ ڈرامہ رائٹر قمر خلیل صاحب نے یہ بتایا تھا ،یورپ میں عورت کو Bitch کہتے ہیں، ہمارے ہاں یہ گالی سے بھی بد تر جملہ ہے۔ اسلام نے جو عزت عورت کو دی ہے ،وہ آپ کو کہیں نہیں ملے گی۔ ہم پڑھ لکھ کر کتنے ہی قابل بن جائیں، ہماری پہچان ہمارے والدین ہیں۔ ہمیں ہر حال میں ان کا احترام کرنا چاہئے