قربانی دین متین کی عظیم عبادت ہے۔ایام قربانی میں لاکھوں مسلمان دنیا بھر میں اس اہم فریضہ کو بجا لاتے ہیں اور حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے لاکھوں جانور اللہ تبارک وتعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطرذبح کیئے جاتے ہیں،قربانی کا عمل بندے کا اللہ سبحانہ وتعالی کے ساتھ الفت و محبت کا مظہر ہے ہونایہ چاہیئے تھا کہ بندہ بذات خود اللہ تبارک وتعالی کی رضا حاصل کرنے کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا لیکن اللہ سبحانہ وتعالی کی رحمت ہے کہ اللہ تبارک وتعالی نے جانوروں کو ذبح کرنا اس کے قائم مقام قراردے دیا اور جس شخص کو بھی اللہ تبارک وتعالی نے مالی وسعت عطاکی ہے وہ شخص قربانی کرنا اہم ترین دینی فریضہ سمجھتا ہے اور انتہائی بدنصیب ہے وہ آدمی جو باوجود مالی حیثیت کے اس اہم ترین عبادت سے محروم رہے آقا علیہ السلام نے اسے عیدگاہ آنے سے منع فرمایا، بارگاہ الہی میں قربانی دینے کاسلسلہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ ہی سے چلا آرہا ہے، چونچہ اللہ پاک نے قرآن مجید کی سورہ المائدہ میں حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کا قصہ بیان فرمایا ہے کہ دونوں نے اللہ پاک کی بارگاہ میں قربانی پیش کی، ہابیل نے عمدہ دنبہ قربان کیا اور قابیل نے غلہ پیش کیا۔اس وقت قربانی قبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ آسمان سے سفید آگ آکر قربانی کو کھالیتی ،چونچہ ہابیل کی قربانی کو آگ نے آکر کھا لیا اور قابیل کی قربانی وہیں پڑھی رہ گئی یوں وہ قبولیت سے محروم ہوگئ۔ قربانی کا عمل ہر امت میں مقرر کیا گیا۔البتہ اس کے طریقہ کار اور صورت میں کچھ فرق ضرور رہا ہے۔انہیں میں سے قربانی کی ایک عظیم الشان صورت وہ ہے جو اللہ پاک نے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عیدالاضحی کی قربانی کی صورت میں عطافرمائی ہے جوکہ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یادگار ہے۔احادیث طیبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے فضائل بہت زیادہ اہمیت کے ساتھ بیان فرمائے ہیں ۔چونچہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ قربانیاں کیاہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے عرض کیا اس میں ہمارے لیئے کیا ثواب ہے؟ آقا علیہ السلام نے فرمایا ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے عرض کیااون میں؟ آقا علیہ السلام نے فرمایااس کے بھی ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے۔حدیث شریف میں ہے آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا، ایام قربانی میں انسان کا کوئی بھی عمل اللہ تبارک وتعالی کی بارگاہ میں قربانی کے جانور کا خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے،اور بروز قیامت قربانی کا یہ جانور اللہ تبارک وتعالی کی بارگاہ میں اپنے سینگوں، بالوں، اور کھروں سمیت حاضر ہوگا، اور بلاشبہ قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے خالق حقیقی کی بارگاہ میں قبولیت کا درجہ پالیتا ہے، تو اے مومنوں خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔ایک اور روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پیاری بیٹی سیدہ کائنات حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا سے ارشاد فرمایا:اے فاطمہ اٹھو اپنی قربانی کے جانور کے پاس جاوں اور اسے لیکر آوں کیونکہ اس کے خون کا پہلا قطرہ گرنے پر تمہارے پیچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ انعام ہم اہلبیت اطہار کے ساتھ خاص ہے یا ہمارے اور تمام مسلمانوں کیلئے عام ہے؟تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بلکہ ہمارے اور تمام مسلمانوں کیلئے عام ہے ۔ایک اورحدیث شریف میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کے پاس وسعت ہو اور قربانی نہ کریوہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دس سال مدینہ منورہ میں مقیم رہے ہر سال قربانی فرماتے تھے۔اورصحیح بخاری شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیاہ اور سفید رنگت والے اور بڑے سینگوں والے دو مینڈھوں کی قربانی فرمایا کرتے تھے اور اپنے پاوں کو ان کی گردن کے پاس رکھ دیا کرتے تھے اور اپنے دست مبارک سے ذبح فرماتے تھے۔
0 33 3 minutes read