
ضلع اوکاڑا کے مشہور شہر حجرہ شاہ مقیم سے شہر منڈی احمد آباد کی طرف جائیں تو حجرہ شاہ مقیم سے بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک گاؤں ”جسو کے شیلر” آتا ہے۔ جسے بھٹی نگر بھی کہا جاتا ہے مگر یہ نام زیادہ معروف نہیں ہو سکا۔ اس گاؤں کی بنیاد قریباً پچاس سال پہلے پڑی تھی جب مشہور بیوروکریٹ محمد خلیل بھٹی نے برلبِ سڑک ایک رائس مل قائم کی تھی جسے مقامی زبان میں ”شیلر” کہا جاتا ہے۔ سڑک سے مغرب کی طرف ایک پرانا گاؤں ”جسو کے گوردتہ” واقع ہے۔ اسی مناسبت سے اس جگہ کا نام ”جسو کے شیلر” پڑ گیا۔ جسوکے شیلر سے مشرق کی طرف ایک اور بہت پرانا گاؤں جیٹھ پور واقع ہے۔ اس علاقے نے بڑے مشہور لوگوں کو جنم دیا ہے جن میں محکمہ ایجوکیشن کے آفیسران جناب گلزار احمد بھٹی، جناب ڈاکٹر نیاز احمد عازم، جناب ڈاکٹر محمد شفیق طاہر اور بیوروکریٹ جناب جمیل ناصر شامل ہیں۔ گاؤں جسوکے شیلر جو اب گاؤں کی بجائے چھوٹے سے قصبے کا روپ دھار چکا ہے وہاں کی تمام برادریوں کے سرکردہ اور متحرک لوگوں کا گزشتہ دنوں ایک اکٹھ ہوا جس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ گاؤں میں فوتگی ہونے کی صورت میں فوتگی والے گھر سے گاؤں کا کوئی بھی فرد کھانا نہیں کھائے گا۔ صرف باہر سے آنے والے مہمان اور فوتگی والے گھر کے رشتہ دار کھانا کھائیں گے۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ اگر گاؤں کا کوئی فرد فوتگی والے گھر سے کھانا کھاتا ہوا پایا گیا تو اس کی ”مناسب گوشمالی” کی جائے گی اور اس سے مبلغ پانچ ہزار روپے جرمانہ وصول کیا جائے گا۔ اس گاؤں کے لوگ حقیقت میں خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔ یہ ایک اچھی روایت قائم کی گئی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پورے ملک کے لوگ اس فیصلے کی تائید میں آگے بڑھیں اور اسے ملک گیر مہم بنا دیں۔
ہمارے ہاں دیہات میں یہ روایت رہی ہے کہ اگر کسی گھر میں فوتگی ہو جاتی تو پورے گائوں کے کسی بھی گھر میں تب تک آگ نہیں جلتی تھی جب تک مرنے والے کو دفنایا نہیں جاتا تھا یعنی پورا گائوں مردے کے دفنانے تک سوگ میں بھوکا رہتا تھا۔ فوتگی والے گھر میں تین دن تک کھانا نہیں پکتا تھا،رشتہ دار یا ہمسائے روزانہ تینوں وقت کا کھانا اس گھر میں پہنچا دیا کرتے تھے۔ یہ عمل نہ صرف جذبہ خیر سگالی اور سوگواروں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی و یکجہتی کے لیے انجام دیا جاتا تھا بلکہ اسلامی تعلیمات بھی یہی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری زندگی میں نئے نئے فیشن اور نئے نئے رواج داخل ہوتے گئے۔ اب شادی پر ہی نہیں بلکہ فوتگی پر بھی نمود و نمائش اور بے جا اخراجات کا رواج چل نکلا ہے جس کی زد میں آ کر سفید پوش طبقے کا برا حال ہے مگر دنیاداری نبھانے کے لیے اسے مرنے والے کے ساتھ ہی معاشی طور پر مقتول ہونا پڑتا ہے۔ مرنے والا اکیلا نہیں مرتا غریب گھروں میں اپنے لواحقین کو بھی مار ڈالتا فوتگی والے دن سے لے کر پورے تین دن تک مہمانوں کی تواضع مشروبات اور کھانوں سے کرنا فرض بنا دیا گیا ہے۔ جس گھر میں تین دن تک چولہا نہ جلتا تھا اور دوسروں کے گھروں سے کھانا آتا تھا اب اس گھر میں مسلسل تین روز دیگیں چڑھی رہتی ہیں۔ ایک دن بریانی پکتی ہے تو اگلے روز مرغ اور نان کا کھانامہمانوں کو پیش کیا جاتا ہے۔ تیسرے دن تو فوتگی والے گھر میں جشن کا سماں ہوتا ہے۔ سینکڑوں مہمان بلاتکلف چلے آتے ہیں، فوتگی سے زیادہ شادی کا ماحول بنا ہوتا ہے اور سوگوار خاندان جو مرنے والے کے غم میں نڈھال ہوتا ہے اشکبار آنکھوں سے مہمانوں کی تواضع میں لگا ہوتا ہے۔لیجیے ایک دوست کی زبانی یہ دلخراش واقعہ بھی سن لیں۔”میرا ایک فوتگی والے گھر جانا ہوا، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک لڑکا بہت ہی زیادہ رو رہا ہے، معلوم کرنے پہ پتہ چلا کہ جو فوت ہوئی ہیں وہ رونے والے کی والدہ تھیں۔ میں ہکا بکا ایک طرف کھڑا ہو کے سوچنے لگا کہ بھرپور جوانی کے وقت اتنا بے رحم دکھ اس نوجوان کو آدھا کر دے گا۔مجھ سے اس کا رونا دیکھا ہی نہیں جا رہا تھا، اس کی چیخیں لگتا تھا قیامت لے آئیں گی۔وہ اکلوتا بیٹا تھا اپنے ماں باپ کا، اچانک ایک بھائی صاحب آگے آتے ہیں، وہ اس سے کھانے کا مینیو پوچھتے ہیں۔ میں حیران ہو جاتا ہوں کہ اس حالت میں وہ کھانا کیسے کھا سکتا ہے، اس سے تو صحیح سے بولا بھی نہیں جا رہا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ ان لوگوں کے کھانے کی بات کر رہے تھے جنہوں نے گھر افسوس کرنے آنا ہے۔ یہ ہو کیا رہا ہے؟،یہ چل کیا رہا ہے؟ ان کے گھر کوئی شادی یا سالگرہ کا فنکشن نہیں ہے بلکہ ایک لڑکے کی جنت اسے چھوڑ کے چلی گئی ہے۔ بجائے اس چیز کے کہ ہم اس گھر کا حوصلہ بنیں اس گھر کے دکھ میں شریک ہو جائیں الٹا وہ لوگ ہماری گندی اور کبھی نہ مٹنے والی بھوک کا بندو بست کرنے میں لگ گئے ہیں۔ کیا ہم اس قدر بے حس اور گھٹیا لوگ ہیں کہ میت والے گھر بھی کھانا پینا نہیں چھوڑتے؟ میرے دماغ میں سوالات کے جھکڑ چل رہے تھے۔
اور پھر جنازے کے بعد گھنائونا کھیل شروع ہوا، ایک ایسا کھیل جسے دیکھ کے کسی غیرت مند کو موت آ جائے مگر ہمیں نہیں آتی۔وہی لڑکا جس کی دنیا لٹ گئی، برباد ھو گئی، ہاں ہاں وہی لڑکا روتی آنکھوں کے ساتھ ان بھوکی ننگی زندہ لاشوں،جن کی عقلوں پہ ماتم کرنا چاہیے ان کو کھانا دے رہا ہے۔ کیا ان کو شرم نہیں آتی، کیوں یہ غیرت سے مر نہیں جاتے؟ میں صدمے سے پاگل ہوا جا رہا تھا۔ تبھی میرے کانوں نے سنا کہ ایک آدمی نے اسی لڑکے کو آواز دے کے کہا کہ بھائی یہ پلیٹ میں لیگ پیس ڈال کے لانا۔اف میرے خدا! یہ کون لوگ ہیں جن
کے پیٹ نہیں بھرتے، ایسے لوگ دنیا میں ہیں ہی کیوں؟ یہ مر کیوں نہیں جاتے۔ شرم نہیں آتی، اسی سے لیگ پیس مانگتے ہیں جس کی ماں مر گئی ہے۔بجائے اس کے کہ تمہارا ہاتھ اس کے کندھے پہ ہو اور حوصلہ دے رہا ہو، تمہارا ہاتھ لیگ پیس کو پڑ رہا ہے۔ ہمیں ترس یا رحم نہیں آتا یہ دیکھ کر بھی کہ لوگ روتے ہوئے کھانا بانٹ رہے ہیں۔ میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو میت والے گھر سے ناراض ھو کے چلے جاتے ہیں کہ ہمیں کھانا نہیں دیا گیا، اور ان لوگوں کی بھی کمی نہیں جو خود پیٹ بھر کر میّت والے گھر سے کھانا کھانے کے بعد بڑی ڈھٹائی کے ساتھ جیب سے شاپر نکالتے ہیں اور اس میں گھر والوں کے لیے بھی کھانا ڈال کر لے جاتے ہیں۔
بعض لوگوں نے اپنی جیب میں چھوٹی سی ڈائری رکھی ہوتی ہے جس میں علاقہ بھر کے فوت شدگان کا اندراج کیا جاتا ہے اور فوتگی کے تیسرے اور چالیسویں دن وہ کھانا کھانے کے لیے ان فوتگی والے گھروں میں پہنچ جاتے ہیں
سوچنے کی بات ہے کہ من حیث القوم ہم کدھر جا رہے ہیں؟۔ یہ صراطِ مستقیم نہیں ہے،نہ ہی یہ اسلامی شعار ہے، یہ ایک رسم ہے، ہمیں مل جل کر اس رسم کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ مُردوں کی گرفت سے زندہ لواحقین کو نکالنا ہو گا۔ یہ شعور اجاگر کرنا ہو گا کہ میت والے گھر سے صرف وہی لوگ کھانا کھائیں جو دوسرے شہروں سے آئے مہمان ہوں۔ مقامی لوگ سوگواروں پر بوجھ نہ بنیں۔
اہلِ جسو کے شیلر بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئے ہیں۔ امید کی جانی چاہئے کہ یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے پورے ملک میں پھیل جائے گا۔
سلام! اہلِ جسو کے شیلر۔