
پاکستان کو آزاد ہوئے 77 سال ہو چکے مگر بدقسمتی سے ہم خاطر خواہ شرح خواندگی کا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ایک اقتصادی سروے کے مطابق اس وقت پاکستان کی شرح خواندگی 60 فیصد ہے اور گزشتہ نو سال کے دوران شرح خواندگی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔
اگر دیکھا جائے تو شرح خواندگی میں ہم معکوس ترقی کر رہے ہیں جو پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ مگر زیاں کا افسوس تو وہاں ہوتا ہے جہاں احساسِ زیاں ہو۔ ڈنگ ٹپائو پالیسیوں کا نفاذ کر کے قوم کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیلا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے تعلیم کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہی۔ سالانہ بجٹ میں قلیل رقم تعلیم کے شعبے کے لیے مختص کی جاتی ہے۔اور مزید بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے بچوں کی تعلیم اور اساتذہ کی تربیت پر زیادہ تر سرمایہ غیر ملکی فنڈنگ اور این جی اوز کی امداد سے مہیا کیا جاتا ہے۔ ایسے میں فنڈز مہیا کرنے والے ممالک اور این جی اوز کی شرائط کو بھی پورا کیا جاتا ہے جو ظاہر ہے ان کے اپنے مفاد میں ہوتی ہیں۔ ایک گزشتہ حکومت تو باقاعدہ اس بات پر فخر کا اظہار کرتی رہی ہے کہ ہم نے تعلیم کے فلاں منصوبے پر اتنے ارب کی بچت کی ہے اور فلاں منصوبے پر اتنے کروڑ بچائے ہیں۔ اس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تعلیم کے شعبے کی ترقی کے لیے حکومتیں کتنی سنجیدہ ہیں۔دوسری طرف اگر ہمارے تعلیمی معیار کو دیکھا جائے تو بڑی بڑی جامعات بھی عالمی رینکنگ میں کہیں نظرنہیں آتیں۔ جامعات میں قابلِ قدر تحقیقی کام بھی حوصلہ افزا نہیں ہے۔ اگر سکولوں کی سطح پر دیکھا جائے تو سب سے بڑا بلنڈر ہمیں امتحانی سسٹم میں نظر آتا ہے۔ ایگزامینیشن کمیشن کے تحت منعقدہ امتحانات سرمائے کے ضیاع کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ بڑی تعداد میں کثیرالانتخابی اور مختصر جوابی سوالات کا مطلب یہی ہے کہ کوئی بالکل ان پڑھ بچہ بھی پاس ہو سکتا ہے۔ اوپر سے اساتذہ پر پابندی لگا دی گئی ہے کہ وہ مڈل کلاسز تک کسی طالب علم کو فیل نہیں کر سکتے خواہ طالب علم پورا سال سکول نہ آیا ہو اور بے شک پیپر بھی اس نے خالی دیا ہو مگر اسے ہر حال میں پاس کرنا ہے۔ ایسے طلبہ میٹرک میں جس پرفارمنس کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔دوسری طرف میٹرک میں ہمارے امتحانی سسٹم میں رٹا لگانے کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ہمارے معیارِ تعلیم کا یہ عالم ہے کہ میٹرک میں 95 فیصد نمبر لینے والے طالب علم کو نصاب سے ہٹ کر کوئی درخواست یا خط لکھنے کو کہا جائے تو وہ ایسا کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ معیار پر مقدار کو ترجیح دے دی گئی ہے۔ ہمارے ہاں ایک اور بڑا مسئلہ تعلیم کی سمت کا تعین نہ ہونا بھی ہے۔ میٹرک تک طلبہ کی اکثریت کو یہی پتا نہیں ہوتا کہ انہوں نے میٹرک کے بعد آگے کیا پڑھنا ہے یا کون سے شعبے میں جانا ہے۔ دیہات میں رہنے والے میٹرک پاس طلبہ کی اکثریت آگے پڑھنے کی بجائے نوکری کے حصول میں لگ جاتی ہے۔ ایسے ”تعلیم یافتہ” نوجوان کھیتوں میں اپنے والدین کا ہاتھ نہیں بٹاتے، جانوروں کو چارہ نہیں ڈالتے کہ یہ کام ان کے شایانِ شان نہیں ہوتا۔دیگر پیشوں سے وابستہ افراد مثلا” نائی، موچی، کمہار، مستری وغیرہ کے بیٹے اپنا آبائی پیشہ اختیار کرنے سے کتراتے ہیں کہ اگر یہی کرنا ہے تو تعلیم حاصل کرنے کا کیا فائدہ؟ وہ تصور میں اپنے آپ کو سرکاری ملازم اور ریلوالونگ چیئر پر بیٹھا محسوس کرتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور تعلیم یافتہ بیروزگاروں کی تازہ کھیپ کو دیکھ کر بالآخر انہیں صبر آ جاتا ہے۔ پھر وہ کسی فیکٹری میں مزدوری کرنے لگتے ہیں، بعض اپنا آبائی پیشہ اختیار کر لیتے ہیں۔ کچھ فروٹ و سبزی وغیرہ کی ریڑھی لگا لیتے ہیں اور باقی ماندہ کوئی اور محنت مزدوری شروع کر دیتے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو ان کے دس بارہ سال ضائع ہو گئے جوانہوں نے تعلیم حاصل کرنے میں صرف کر دیے۔ ہر تعلیم یافتہ نوجوان کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے سرکاری ملازمت مل جائے۔ اکثر والدین بھی اپنے بچوں کو اسی مقصد کے حصول کے لیے تعلیم دلاتے ہیں مگر حکومت کے لیے اتنی زیادہ مقدار میں نوکریاں پیدا کرنا ممکن نہیں۔ اس طرح غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہر سال پڑھے لکھے بیروزگاروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ بیروزگاری ان نوجوانوں کو فرسٹریشن اور ڈپریشن کا شکار کر دیتی ہے جس کی وجہ سے وہ بے راہروی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ وہ جرائم کی دلدل میں اتر کر معاشرے میں بدامنی اور بے چینی پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔ اس روز افزوں بڑھتی ہوئی بیروزگاری کا ایک ہی حل ہے کہ ہمیں اپنا تعلیمی نظام ازسرِ نو تشکیل دینا چاہیے۔ یورپ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی طرح پرائمری کلاسز سے ہی بچے کے ذہنی رجحان کو دیکھتے ہوئے اس کے مستقبل کی سمت کا تعین کر لینا چاہیے۔ ایلیمنٹری کلاسز میں اسے مستقبل کے ٹارگٹ کے حصول کے لیے تیار کرنے پر عمل شروع کر دینا چاہیے۔ ایلیمنٹری کلاسز میں اردو،انگریزی، روزمرہ ریاضی اور اسلامیات کے علاوہ باقی مضامین مہارتوں پر مبنی آپشنل ہونے چاہییں جن میں سے طالب علم کسی ایک مضمون کا انتخاب کرے۔ ان آپشنل مضامین میں وُڈ ورکس، زراعت،کمپیوٹر، بجلی کا کام، ریڈیو اور ٹی وی مکینکس، فرنیچر سازی اور دوسرے سکلڈ بیس (عملی مہارتوں پر
مشتمل) مضامین شامل کیے جائیں۔ ان مضامین کو سکولوں میں پڑھایا جائے اور ان کے عملی تجربات کروائے جائیں۔ ہر طالب علم کے لیے دو گھنٹے ورکشاپ میں گزارنا لازمی ہو جہاں وہ عملی مہارتیں سیکھے۔سائنس کا مضمون صرف ان طلبہ کو پڑھایا جائے جن کا ذہنی رجحان اس طرف ہو، اگر کوئی طالب علم کسی شعبے میں بہتر کارکردگی نہ دکھا پا رہا ہو تو ابتدائی دو ماہ میں ہی اس کا شعبہ تبدیل کر کے مناسب شعبے میں بھیج دیا جائے۔ اس طرح سے جب کوئی طالب علم میٹرک پاس کر لے گا تو وہ عملی زندگی کے لیے تیار ہو کر معاشرے کا مفید شہری بن چکا ہو گا۔ میٹرک کے بعد سائنس کے طلبہ ایف ایس سی میں چلے جائیں جبکہ دوسرے طلبہ اگر اپنے شعبے میں مزید مہارت حاصل کرنا چاہتے ہوں تو ایف اے میں داخلہ لے لیں۔ بصورتِ دیگر اپنا ذاتی کام شروع کر دیں یا بطور کاریگر اپنی خدمات کسی ادارے کے سپرد کر دیں۔
ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم کے مقصد کے حصول کے لیے تمام ایلیمنٹری اور ہائی و ہائر سیکنڈری سکولز کو ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل سکولوں میں تبدیل کر دیا جائے جہاں پر اپنے اپنے شعبے کے ماہر اساتذہ کا تقرر کیا جائے۔ ان اداروں سے فارغ التحصیل طلبہ معاشرے پر بوجھ نہیں ہوں گے بلکہ معاشرے کا بوجھ اٹھانے میں اپنا حصہ ڈالنے کے قابل ہوں گے۔ معاشی آسودگی کے سبب جرائم کی شرح میں خاطر خواہ کمی ہو گی اور نوجوانوں کے پاس منفی سرگرمیوں کے لیے وقت ہی نہیں ہو گا نہ ہی ان کا اس طرف رجحان ہو گا۔ سب سے اچھی بات یہ ہو گی کہ گروتھ ریٹ میں اضافہ ہو گا اورملک جلد ہی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوجا گا۔