کالم

خورشید الحسن خورشید اور ثریا خورشید

11مارچ کے ایچ خورشید مرحوم کی برسی تھی۔ خواہش تھی کہ سابق صدر آزادکشمیر اور لبریشن لیگ کے بانی سربراہ پر آرٹیکل لکھوں مگر مصروفیت کے باعث نہ ہو سکا۔ صرف ایک ماہ قبل ماہِ فروری 2024ء مرحوم کی اہلیہ ثریا خورشید بھی وفات پا گئیں۔ اللہ پاک اس عظیم جوڑے کو جنت الفردوس عطا فرمائے۔ انسان دنیا سے چلا جاتا ہے مگر اس کا کردار اور خدمات زندہ رہتی ہیں۔ پاکستان اور آزادکشمیر کے خطے کی آزادی صاف ستھری سیاست اور دیانت اور امانت کے حوالے سے دونوں کی خدمات اچھے الفاظ میں یاد رکھی جائیں گی۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ قائد اعظم کو کشمیر اور کشمیر کی آزادی سے خصوصی دلچسپی تھی۔ قائد اعظم نے لگاؤ اور دلچسپی کے پیشِ نظر قیام پاکستان سے قبل متعدد بار کشمیر کے دورے کئے۔ پہلی بار اپنی وہلیہ رتی جناح کے ہمراہ 1919ء سرینگر تشریف لے گئے۔ دوسری بار 1926ئ، تیسری بار 1936ء اور چوتھی 1944ء سرینگر کا دورہ کیا۔ کشمیری لیڈروں کو متحد کرنے کی بہت کوشش کی مگر بد قسمتی کہ شیخ عبداللہ کانگریسی چالوں میں پھنس چکے تھے اس وقت کشمیر میں تین اہم لیڈر تھے جن میں شیخ عبداللہ، میر واعظ یوسف شاہ اور چوہدری غلام عباس شامل ہیں۔ خود شیخ عبداللہ نے اپنی کتاب آتش چنار میں قائد اعظم کی ان سے ملاقات ہندو عصبیت اور اسلام دشمنی سے متعلق تفصیلات لکھی ہیں اور لکھا ہے کہ قائد اعظم نے مجھ سے کہا کہ ہندو کبھی بھی ہمارے دوست نہیں ہو سکتے۔ ان متعصب لوگوں کے ساتھ رہنا ممکن نہیں مگر شیخ عبداللہ نے قائد کی بات نہ مانی۔ تاریخی غلطی کی جس کی سزا کشمیری قوم گزشتہ 77سالوں بھگت رہی ہے۔ اگر شیخ عبداللہ قائد کی بات مان لیتے تو آج بر صغیر کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔ ریاست کشمیر چار حصوں میں تقسیم نہ ہوتی۔ شیخ عبداللہ 1944ء سے ہی کانگرس کے گیت گانا شروع ہو گئے تھے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ کشمیری شیخ عبداللہ کی ہٹ دھرمی اور غلط فیصلے کی وجہ سے غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ 1944ء میں جب قائد اعظم سرینگر گئے تو 2مئی سے 26جولائی تک مسلسل شیخ عبداللہ کو قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہو سکے۔ اس دوران قائد اعظم کے قیام و طعام وفود کی فہرست بنانا گویا کہ جملہ انتظامات کے ایچ خورشید کے ذمہ تھے۔ کے ایچ خورشید اس وقت مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے مرکزی جنرل سیکرٹری تھے۔ نہایت چاک و چوبند، خوبصورت، معاملہ فہم اور پختہ نظریاتی سو چ کے حامل تھے۔ کے ایچ خورشید کی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر قائد اعظم نے انہیں اپنا پرائیویٹ سیکرٹری بنا لیا۔ 1944ء سے 1947ء تک آپ قائد اعظم کے ساتھ بطور پرائیویٹ سیکرٹری فرائض سر انجام دیتے رہے۔ قیام پاکستان کے وقت آپ سرینگر میں قید کر لئے گئے۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد آپ سرینگر سے رہا ہو کر کراچی پہنچے۔ 1949ء میں کراچی آنے کے بعد فاطمہ جناح نے آپ کو بار ایٹ لاء کی تعلیم کے لئے لندن بھیج دیا۔ کے ایچ خورشید کی شادی اس وقت کشمیر کے ڈائریکٹر ہیلتھ ڈاکٹر نور حسین کی بیٹی ثریا خورشید سے ہوئی تھی۔ یہ شادی 1955ء میں ہوئی تھی۔ شادی کے لئے زیور قائد اعظم نے پہلے خود خریدا تھا۔ محترمہ ثریا خورشید نے پنجاب یونیورسٹی سے پوسٹ گریجوایٹ تک تعلیم حاصل کی پھر فاطمہ جناح نے ٹیچر ٹریننگ کے لئے انہیں برطانیہ لندن بھی بھیجا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ثریا خورشید محکمہ تعلیم کالجز لاہور لیکچرار تعینات ہو گئیں۔ جناب کے ایچ خورشید نے ان کی لیکچرر شپ کی نوکری چھڑوادی۔ ثریا خورشید نے چار کتب لکھی ہیں۔ ان کا خاندان 1947ء میں ہجرت کرکے پاکستان آیا تھا۔ ثریا خورشید اپنی بانیال کے اس پار کتاب میں لکھتی ہیں کہ میری والدہ اپنے گھر وادی کشمیر کے علاقے وادیاں اور لالہ زار یاد کرکے گھنٹوں روتی رہتی تھیں۔ ہجرت کے وقت راستوں میں لاکھوں مسلمانوں کو بیدردی سے شہید کر دیا گیا۔ ثریا خورشید کی والدہ کے مطابق ایک ریل کا ڈبہ لاشوں سے بھرا پڑا تھا۔ درمیان میں ایک زندہ چھوٹا بچہ بیٹھا رو رہا تھا۔ پتہ نہیں اس معصوم زندہ بچ جانے والے بچے کا کیا بنا۔ کے ایچ خورشید اور ثریا خورشید قائد اعظم کے گھرانے کے افراد کی طرح تھے۔ ان کی مکمل تربیت قائد اعظم اور ان کی بہن فاطمہ جناح نے کی۔ کے ایچ خورشید اور ان کی اہلیہ دونوں خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتے تھے مگر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ان کے کرایے کے گھر میں غربت اور افلاس نے مستقل ڈیرے ڈال دئیے۔سفید پوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔ ساری زندگی لاہور کرایے کے گھر میں گزاری۔ قائد اعظم کا سیکرٹری رہنے والا شخص جو آزادکشمیر کا صدر ھی رہا چاہتا تو پاکستان کے ہر شہر میں متروکہ جائیداد اپنے نام کراکے قانونی طور پر ذاتی گھر بنا سکتا تھا۔ یہ ان کا استحقاق تھا مہاجر بن کر آئے تھے۔ نہ آزادکشمیر اور نہ پاکستان میں مرحوم کا کوئی گھر یا پلاٹ تھا۔ آج کے سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں کا جب ہم کے ایچ خورشید سے موازنہ کرتے ہیں تو خوف آتا ہے۔ حالات دے کر بہت دکھ اور افسوس ہوتا ہے۔ آج چاروں طرف لوٹ مار کا سلسلہ ہے۔ سیاستدانوں اور حکمرانوں کی جائیدادیں اور ذرائع آمدن کا جائزہ لے کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ کس خوفناک انداز سے اس ملک میں لوٹ مار کی گئی ہے ملک کو دیوالیہ ہونے تک پہنچا دیا گیا ہے۔ راولاکوٹ پونچھ کے سردار خورشید خان صاحب ریٹائر سیکرٹری جو ایک دور میں کمشنر بحالیات بھی رہے ۔ اپنی سوانح حیات کتاب میں لکھتے ہیں کہ کے ایچ خورشید صدر تھے اور میں نے فیصلہ کیا کہ مہاجرین کشمیر کو متروکہ جائیداد سے پلاٹ الاٹ ہو رہے ہیں۔ کے ایچ خورشید صاحب ان کا نہ کوئی پلاٹ ہے نہ مکان۔ ایک اچھا سا پلاٹ انہیں الاٹ کرتے ہیں۔ جب عملی کام شروع کیا اور خورشید مرحوم کو بتایا کہ آپ نے مجھے ایک دن دفتر بلایا اور شکریہ ادا کرنے کے ساتھ فرمایا کہ ابھی اور کتنے مہاجر سفید پوش ہیں جنہیں پلاٹ اور گھر کی ضرورت ہے۔ میرے حصے کا کسی اور مستحق کو دے دیں۔ بہت کوشش کے باوجود خورشید صاحب مرحوم نہ مانے۔ بیگم ثریا خورشید اپنی کتاب میں لکھتی ہیں جب خورشید صاحب صدر تھے تو ہم مظفرآباد رہتے تھے۔ میں خود ہی گھر کا کام کاج کرتی تھی۔ ایک دن خورشید صاحب سے کہا کہ آپ صدر آزادکشمیر ہیں کوئی گھریلو ملازم مل جائے سہولت رہے گی مگر خورشید صاحب نے کہا کہ ہمارا خاندان چھوٹا سا ہے کوئی زیادہ کام تو ہے نہیں ۔ میرپور سے لاہور جاتے ہوئے جب کے ایچ خورشید حادثے کا شکار ہو کر ہم سے جدا ہو گئے اس وقت آپ عام مسافروں کی وین گاڑی پر سفر کر رہے تھے۔ جب غسل کے وقت کپڑے اتارے گئے تو جیب سے صرف اڑتیس روپے برآمد ہوئے۔ آپ چاہتے تو بینک بیلنس، کوٹھیاں، پلاٹ اور کئی گاڑیوں کے مالک ہوتے مگر آپ نے ناجائز طریقے سے ایک روپیہ بھی حاصل نہیں کیا۔ یہ کردار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔ سیاسی جماعت لبریشن لیگ بنا کر تحریک آزادی کشمیر کو آگے بڑھایا ۔ جہاں قبائل اور برادریوں کی سیاست میں کے ایچ خورشید کو وہ مقام نہیں مل سکا جس کے وہ حقدار تھے۔ آپ کا شاندار اور جاندار نظریہ تھا کہ آزاد حکومت کی حیثیت کو تسلیم کیا جائے۔ 60سال قبل مرحوم بھانپ چکے تھے کہ آنے والے وقتوں میں آزاد حکومت اور یہاں کے سیاستدانوں کاتشخص مر مٹ جائے گا۔ بیس کیمپ کی حیثیت ختم ہو جائے گی یہ بات آج ثابت ہو چکی ہے۔ جب کے ایچ خورشید نے یہ نظریہ پیش کیا تھا تو یہاں کے بڑے اور ذمہ دار لیڈروں نے بڑے ہی بھونڈے طریقے سے ہوس اقتدار میں آکر نہ صرف کے ایچ خورشید کی بھرپور مخالفت کی
بلکہ انہیں غدار قرار دیا ۔ آج یہ لوگ مکافات عمل سے گزر رہے ہیں ۔ ان کی شاطرانہ سیاست ختم ہو چکی ہے۔اب تسلیم کرتے ہیں کہ خورشید مرحوم درست فرماتے تھے۔ ہم محترم کے ایچ خورشید اور ان کی عظیم رفیقہ حیات ثریا خورشید کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ دونوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button