سوچتا ہوں کہ اپنے اس مقالے کا آغاز کہاں سے شروع کروں۔جب سے یکم دسمبر 2020 بروز منگل کو ہزارہ ڈویژن کی سب سے بڑی، منظم اور ادبی تنظیم ,,بزم مصنفین ہزارہ,,کا قیام عمل میں لایا گیا ہے یقین جانیے جو بچپن میں سنا کرتے تھے کہ ہزارہ کاالبخارہ یعنی سر زمین ہزارہ علم و ادب میں بخارا کی مثل ہے۔اس پر یقین واثق ہو گیا ہے۔بزم کے قیام کے بعد مجھے ہزارہ کے آٹھ اضلاع کے ان چمکتے ادبی ستاروں سے شناسائی نصیب ہوئی ہے جو شاید اس تنظیم کے بغیر اگر ممکن نہیں تو مشکل ضرور تھی۔
انہی ادبی ستاروں میں ایک نام محترم جناب ریاض ملک صاحب کا ہے۔جن سے کئی بالمشافہ ملاقاتیں کر چکا ہے۔اورہر ملاقات میں ہماری کیفیت کچھ یوں ہوتی ہے کہ
قربان ہوں جس کے حسن پہ سو جنتیں قتیل
آنکھوں کے سامنے وہ نظارا ہے ان دنوں
امسال 2024 میں بھیل انٹرنیشنل ادبی تنظیم ضلع ننکانہ کے زیر اہتمام تقریبا پونے تین سو مصنفین و ملفین و مترجمین اور شعرا و ادبا میں سے صرف 31 مصنفین و ملفین کو جو تاج وقار پہنائے گئے ان میں ہزارہ ڈویژن میں مجھ ناچیز کے علاوہ دوسرا نام ادیب شہیر،رئیس التحریر محترم جناب ریاض ملک صاحب کا تھا ۔ریاض ملک صاحب کا شمار دنیائے علم و ادب کی ان گراں قدراور تاریخی شخصیات میں ہوتا ہے جنہیں تاریخ ہمیشہ سنہری حروف میں یاد رکھے گی،آپ کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں،گزشتہ کئی دہائیوں سے ریاض ملک صاحب آسمان صحافت پر ابھرے ہوئے ستارے کی طرح اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ فگن ہیں، آپ کئی کتابوں کے مصنف و مرتب ہیں ۔جن میں چاندنی راتیں،نسخہ ہائے تبسم،کیسی کیسی صورتیں،سوانح عمری طالب بابا،اور دھنک شامل ہیں،یقین جانیے موصوف کی ہمتوں کو داد دینا پڑے گی کہ نفسی نفسی کے عالم میں جہاں ہر بندہ مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے ،ہر بندہ پریشانی کے عالم میں وقت گزار رہا ہے وہاں موصوف نے بذریعہ قلم معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔بحثیت انسان ریاض ملک صاحب کی تصنیفات وتالیفات اور تخلیقات میں کچھ خامیوں کا ہونا ممکنات میں سے ہے مگر مجموعی طور پر جو کام ریاض ملک نے انجام دیا ہے شاید ہی کسی اور کے بس کا روگ ہوتا۔
قارئین کرام! راقم الحروف کی نظر سے موصوف کی جتنی بھی تحریرات و تصنیفات و تالیفات و تقریظات و تبصرہ جات گزرے ہیں ان میں اخلاص و محبت اور شفقت و عنایت کی ایک کہکشاں بکھری ہوئی نمایاں نظر آتی ہے ۔جس کی جھلک آپ موصوف کی کتاب دھنک میں ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔
آپ سادگی ،شرافت ونجابت ،انکسار ،خوش مزاجی،شفقت و محبت ،انتہائی ملنسار ،مہمان نواز اعلی اخلاق اور اخلاص وعمل کا پیکر ہیں۔اللہ وحدہ لاشریک نے ریاض ملک صاحب کو علم و عمل،شرافت ونجابت اور خلوص و محبت کا بہرہ وافر عطا کر رکھا ہے۔موصوف ادیب بھی ہیں اور شاعر بھی،تاریخ داں بھی ہیں اور محقق بھی۔آپ ایک عظیم قلمکار،افسانہ نگار،سفر نگار،صحافی اور خوش فکر شاعر ہیں۔ موصوف صاحبان علم ودانش اور اہل عشق و فضل کے دلی قدرداں اور مہمان نواز شخصیت ہیں۔بزم مصنفین ہزارہ کا کوئی عہدیدار ہی نہیں بلکہ دنیائے علم و ادب کے کسی ستارے کا لاہور کا سفر ہو اور ریاض ملک صاحب کی پرلطف اور پر تکلف دعوت طعام ومہمان نوازی کا انہیں شرف حاصل نہ ہو یہ ناممکنات میں سے نہیں تو مشکلات میں سے ضرور ہے۔مجھے بھی امسال 2024 آپ کے دولت کدہ پر حاضری کا شرف حاصل ہوا ہے۔جس کی تفصیل میں پھر کھبی حوالہ قلم کریں گے۔ ان شااللہ
قارئین محترم !یہ اظہر من الشمس حقیقت ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں سر زمین ہزارہ کے افراد و اشخاص نے اپنا بھرپور کردار نبھایا اور اپنا لوہا منوایا ہے۔مگر ایک چیز بالعموم دکھ و رنج دیتی ہے وہ یہ کہ ان اساطین علم و فضل اور صاحبان قلم و قرطاس کے احوال مرتب کرنے میں اہل ہزارہ نے ہمیشہ تساہل سے کام لیا ہے۔بلکہ ہمارے معاشرے کا حال یہ ہے کہ یہاں اپنے آپ کو ثابت کرنے اور اپنا لوہا منوانے کے لیے پہلے مرنا پڑتا ہے۔بات تو سچ ہے پر بات ہے رسوائی کی اہل علم و ادب کی خوش نصیبی سمجھیں کہ ادیب شہیر ،رئیس التحریر،عمدہ و بے مثال شاعر محترم جناب ریاض ملک صاحب کی سوانح حیات کو بزم مصنفین ہزارہ کے مرکزی صدر محترم جناب ملک محمد عظیم ناشاد اعوان صاحب نے حوالہ قلم کیا ہے۔یہ خوش آئند اور قابل تقلید عمل ہے کہ اپنے ہیروز کو ان کی زندگی میں ہی خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے۔ان کی ادبی خدمات کو شاندار الفاظ میں بیان کیا جانا چاہیے۔
ہم جناب ملک محمد عظیم ناشاد اعوان صاحب کی اس مساعی پر ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ان کی اس محنت و کوشش کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرماتے ہوئے قارئین کے لیے اس کتاب کو مشعل راہ بنائے۔آمین
گدائے کوئے جاناں
0 43 3 minutes read