کالم

9مئی کے واقعات پر سیاست

گزشتہ برس ٩مئی کا وہ دن تھا جب پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے احتجاج کیا اور یہ احتجاج ایک پرتشدد احتجاجی مظاہرے میں تبدیل ہو گیا جس میں جلاؤ گھیراؤاورہم عمارتوں کو نقصان پہنچانا فوج اور پولیس کی تنصیبات کو نشانہ بنانا شامل تھا۔ اس احتجاج میں سرکاری املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا جس میں جناح ہاؤس لاہور اور ریڈیوپاکستان کی عمارت کو بھی نذر آتش کر دیا گیا ۔یہ حکومت اور اداروں کے خلاف نفرت کے اظہار کا بدترین طریقہ تھا۔ کارکنوں نے جذبات میں آ کر ایسا کیا یا یہ کوئی سوچی سمجھی سازش تھی بہرحال جو بھی تھا یہ ایک پرتشدد احتجاجی مظاہرہ سمجھا جاتا ہے جسے کوئی رعایت نہیں دی جا سکتیاور نہ ہی اس میں ملوث افراد کو معاف کیا جا سکتا ہے اس کی جتنی مذمت کی جائے اتنی کم ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس ایک واقعہ پر یا اس ایک پرتشدد احتجاج پر قوم کا ایک پورا سال ضائع کر دینا کہیں کی عقلمندی اور دانشمندی نہیں ہے ۔ پورا ایک سال ہو چکا ہے کہ اس پر مذمتیں کی جا رہی ہیں قراردادیں منظور کی جا رہی ہیں اس پر سیاست کی جا رہی ہے۔ سبھی اداروں کے سامنے اپنے نمبر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ قوم کے اصل مسائل کی طرف کسی کی توجہ نہیں بلکہ اسی ایک سانحہ کو لے کر ایک سال گزار دیا گیا ان کے فیصلے ہونے میں بھی کئی کئی ماہ کا عرصہ لگ گیا حالانکہ اتنا بڑا بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا یا اتنے بھی مشکل یا پیچیدہ واقعات نہیں تھے کہ ان کے فیصلے کرنے میں اتنا وقت ضائع کر دیا جائے۔سانحہ٩مئی کے ملزمان کے خلاف جب عدالتی فیصلے آئے تو بہت سوں کی سزائیں بھی تقریبا پوری ہی ہو چکی تھیں یعنی اتنا وقت لگا اس کی تحقیقات کرنے میں۔ یہ ایک پرتشدد احتجاج تھا جو ہوا اور ختم ہو گیا اس کے ملزمان کو گرفتار کر کے اس کے تحقیقات کرنی چاہیے تھیں ، جن کے خلاف الزام ثابت ہو گیا اس کو سزا دے دیں ، یہی طریقہ ہوتا ہے اور یہی ہونا بھی چاہیے اس کے علاوہ اس پر سیاست کرنا قوم کا وقت برباد کرنا ہے ۔ ایک سال پورا ہونے پر اس کے لیے کابینہ کے خصوصی اجلاس ہو رہے ہیں ، اداروں کے الگ سے اجلاس ہو رہے ہیں ، پریس کانفرنس ہو رہی ہیں ایسے واقعات کو اتنا زیادہ اچھالنا یہ کسی طرح بھی ملکی کے مفاد کے لیے سود مند ثابت نہیں ہو سکتا۔پوری دنیا میں عوام احتجاج کرتے ہیں اور وہ احتجاج انتہائی پرتشدد احتجاج میں تبدیل ہو جاتے ہیں جن میں بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے کئی لوگ اس میں ہلاک ہو جاتے ہیں سینکڑوں افراد زخمی ہوتے ہیں اداروں کو بھی نقصان پہنچتا ہے لیکن وہاں اس قسم کی سیاست ان واقعات کو لے کر نہیں کی جاتی جس طرح ہمارے پاس ہو رہی ہے۔ انہیں محض ایک احتجاج کے طور پر ہی لیا جاتا ہے چاہے اس میں کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو جائے ۔ ہمارے ہاں تو یہی متعیننہیں ہو رہا کہ یہ احتجاج تھا یا سازش تھی ، عوام کو ورغلایا گیا یا عوام خود جذبات میں آ کر نکلے ۔ اتنی معمولی سی باتوں کا تعین کرنے میں بھی ہم نے کئی ماہ کا وقت برباد کر دیا اور اس کے بعد جن کے خلاف جرم ثابت ہو گئے ان پر مقدمات چلے اور ان پر بھی اچھا خاصا وقت لگا۔یہ تمام امور چند روز میں بھی ہو سکتے تھے اگر ہمارا نظام درست ہوتا یا کوئی اس ملک کے ساتھ مخلص ہوتا ۔ یہاں ہر معاملے میں نہایت غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور ملک و قوم کا وقت اور پیسہ برباد کیا جاتا ہے ۔ تمام اہم معاملات کو پس پشت ڈال کر حکومتیں اور تمام کے تمام ادارے ٩ مئی کے واقعات کے پیچھے پڑے ہوئے تھے ۔ تمام قومی اور عوامی مسائل ایک طرف رکھ دیے گئے ہیں، عوام پر کیا بیت رہی ہے اس کی کس کو پڑی ہے ؟ روز بروز مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اب بھی یہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی ، روز بروز نئے ٹیکسز عائد کیے جا رہے ہیں ، اور تو اور سولر پینلز لگانے والوں پر بھی ٹیکس عائد کرنے کی خبریں گردش میں ہیں۔ جہاں حکومت اتنے گھٹیا پن پر اتر آئی ہو کہ عوام کو بجلی کے مہنگے بلوں سے بچنے کے لیے سولر پینلز لگانے کا مشورہ دے ، جب لوگ سولر پینلز لگائیں تو حکومت ان پر بھی ٹیکس عائد کر دے وہاں اور کیا کچھ نہیں ہو سکتا۔حکومت نے ٩ مئی کو سانحہ ٩ مئی پر مذمتی قرارداد منظور کرنے کے لیے کابینہ کا خصوصی اجلاس تو طلب کر لیا مگر دیگر عوام و قومی مسائل پر یہ کابینہ کے خصوصی اجلاس طلب نہیں کرتے۔ کیونکہ انہوں نے ٩ مئی پر اپنی سیاست بھی تو چمکانی ہے اور کچھ لوگوں کو خوش بھی کرنا ہے ۔ ٩ مئی کے واقعات کو اس قدر اہمیت دینا اور انہیں اتنا اچھالنا کہ پورا سال ان پر صر ف دینا ۔ ملک پیچھے جاتا ہے تو جائے ، عوام مرتے ہیں تو مریں ، ہم نے تو ٩ مئی کے واقعات پر ہی سیاسی دکانیں چمکانی ہیں۔ جو کسی ملک یا معاشرے میں قابلِ قبول نہیں ہے ، کیونکہ یہ نہایت غیر اخلاقی حرکت ہے ۔ ہمارے نزدیک بھی ٩ مئی کے واقعات نہایت قابل مذمت تھے جنہوں نے ریاست کی ساکھ شدید نقصان پہنچایا لیکن ان واقعات کو لے کر اس قدر سیاست کرنا اور پورا سال اداروں اور حکومت کی طرف سے اسی ایک واقعہ کو لے کر اس قدر پروپیگنڈا کرنا بھی کسی طرح قابل تعریف نہیں ہو سکتا۔ اس پر کام کرنے کے لیے جن اداروں کی ذمہ داری ہے انہیں آزاد چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ اس پر خاموشی سے کام کریں اور دیگر ادارے اور حکومت ملکی و عوامی مسائل کے حل پر توجہ دیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button