پارلیمانی نظام میں چیف ملک کا چیف ایگزیکٹو وزیراعظم کہلاتا ہے۔ جناب چیف جسٹس آف پاکستان اور جناب چیف آف آرمی سٹاف گویا یہ کالم تینوں چیف صاحبان کے نام ہے۔ وطن عزیز کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ معیشت کی بحالی اور مہنگائی میں کمی کے ساتھ روزگار، انصاف اور تحفظ کے احساس کی فراہمی ہے۔ چاہے آئی ایم ایف ہر روز پروگرام دے، سعودیہ تیل مفت کر دے، ورلڈ بنک گھر گھر دستک دے کر مدد اور ادھار دے۔ من و سلوی اتر آئے جب تک قومی خزانے میں پڑے ہوئے شگاف بند نہیں ہوتے سب بے سود بے کار ہے۔ گزشتہ دنوں ایف بی آر کے اعلی افسران کے تبادلے ہوئے جن میں 12کو او ایس ڈی بنا دیا گیا۔ ضلعی، صوبائی اور وفاقی سطح پر سرکاری افسران او ایس ڈی بنتے رہتے ہیں لیکن میڈیا نے ان او ایس ڈیز کو کرپٹ لکھ کر زیادتی کی البتہ وزیراعظم کا ورلڈ اکنامک فورم پر کہنا کہ ہم نے سمگلنگ میں ملوث افسران کو او ایس ڈی بنا دیا ہے دنیا کو ایک پیغام تھا کہ کاروبار، قرضہ، مدد، انوسٹمنٹ کے لئے ملک قابل بھروسہ ہے۔ اب دیکھا جائے تو صوبائی محکمے جن میں پولیس، ایکسائز، انہار، جنگلات، جیل خانہ جات، محکمہ مال غرضیکہ کوئی بھی محکمہ دیکھ لیں کرپشن روزگار ہے۔ مگراب یہ وطن عزیز میں بالکل ہی ناقابل قبول ہے جس میں ایک طرف لوگ بھوک سے تنگ خودکشی کر رہے ہوں، کفن کے بغیر دفن ہو رہے ہوں۔ دوسری جانب کرپشن ہزاروں نہیں لاکھوں نہیں کروڑوں اور اربوں میں ہو۔ مافیاز جن میں تعلیم، میڈیا، ادویات، لینڈ مافیا، ادارہ جاتی مافیاز، مذہبی مافیاز، سمگلرز، ناجائز فروش ایسے گھل مل چکے ہوں کہ سرا ڈھونڈنا ناممکن ہو جائے تو سمجھیں کہ تنزلی پورے زور و شور سے جاری ہے۔ کسٹم افسران کے تبادلوں کی وجہ اعداد و شمار بنے کہ 5 بلین سے زیادہ حکومتی خزانہ مقدمات کی صورت میں پھنسا ہوا ہے۔ بڑے بڑے نامور تجزیہ کار میدان میں اتر آئے کہ یہ مقدمات ماتحت عدلیہ میں محکمہ ہار چکا ہے۔ بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ماتحت عدالتیں، عدالتیں نہیں کاروباری مراکز ہیں۔ مالیاتی مقدمات سننے والے ٹربیونلز کے 90فیصد فیصلے ہائیکورٹ سے ریمانڈ ہو جاتے ہیں جبکہ ہائی کورٹس کو چاہئے کہ ریمانڈ کے بجائے فیصلہ کریں۔ ایک موٹرسائیکل کے پارٹس بنانے والی کمپنی کی سات اپیلوں میں مجھے بطور وکیل ذمہ داری دی گئی۔ اپیلز لاہور کسٹم ٹربیونل میں تھیں۔ ان اپیلز کو 3 سے زائد بینچ نے سنا، فیصلہ محفوظ کیا مگر لکھا نہ جاری کیا۔ وجہ ان ممبران اور ادارے کو معلوم ہے۔ اچانک ایک انوکھا بینچ بنا دیا گیا۔ جس میں ڈائریکٹر پوسٹ کلیئرنس آڈٹ لاہور کی درخواست کہ اپیلز کے لئے لارجر بنچ بنایا جائے کیونکہ اس کو تقریبا تمام ممبرز سن چکے ہیں یا پھر کچھ سننے سے انکاری ہیں۔ مقدمہ کے میرٹ پر بات نہیں کروں گا کہ ابھی زیر سماعت ہے۔ ان اپیلز میں میرے تین سال گزرے۔ ایک دن ممبر جوڈیشنل نے ڈائریکٹر کو طلب فرمایا اور حکم دیا کہ اپنا وکیل بدلیں۔ انہوں نے لمحہ بھر میں مجھے اور میرے ساتھ ایک بیرسٹر کو بدل کر ممبر صاحب کے حکم کی تعمیل کر دی اور نیا وکیل مقرر کر دیا۔ کیا تجزیہ کار اس بات کا جواب دیں گے کہ ماتحت عدالت کی وکیل تبدیل کرانے کی وجہ کیا تھی؟ ماتحت عدالتیں تو وکیل بدلنے کا حکم ایسی دیتی ہیں جیسے ملک میں کوئی قانون نہیں۔ میں نے اس پر بنام چیف جسٹس آف پاکستان کالم بھی لکھا۔ جناب چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی خط میں لکھا۔ اتنی روداد کا مقصد یہ ہے کہ ایف بی آر میں پہلے متعلقہ محکمہ کا ممبر لیگل اپیل سنا کرتا تھا اب ٹریبونل سنتا ہے جس میں وکلا کو تین سال کے لیے مقرر کیا جاتا ہے۔ دوسرا محکمے کا گریڈ 20/21 کا آفیسر ہوتا ہے۔ ٹربیونل قوانین میں تبدیل کرکے پہلی ایڈجوڈیکشن ہی عدالتی آفیسر سے ہونا چاہئے اور ریفرنس کے بجائے ہائی کورٹ میں اپیل کا حق ہونا چاہئے یا تو اہلیت رکھنے والے وکلا کو ہی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بنا دیں یا پھر ان کی جگہ ہر حاضر سروس ججز ہونے چاہئیں۔ عدالتی ڈیکورم ہوتا ہے اور نہ ہی فیصلوں میں کوئی قانون کی پاسداری۔ کسٹم ٹریبونلز خالصتا سیاسی لوگوں کو تعینات کیا جاتا ہے۔ یہ شگاف بند ہونا چاہئے، کسٹم سٹیشن پر رشوت لینے والے افسران کی نشاندہی، ایکسائز میں رشوت دلالوں کی بیخ کنی کرنا مشکل نہیں۔ اسی طرح باقی تمام اداروں میں یہ کام مشکل نہیں مگر نیپوٹزم کا کیا کریں۔ جب تک زیرو ٹالرنس نہیں ہو گی ممکن نہیں۔ اسسمنٹ ہونے کے بعد Randomly کنٹینرز روک کر ان کی دوبارہ پڑتال کر لی جائے تو لاہور کے سات کنٹینروں کی طرح حساب برابر ہو جائے گا۔ ایکسپورٹنگ کنٹری یعنی جس ملک خصوصا دوبئی اور چائنہ سے آنے والی کنسائنمنٹ انوائس کی تصدیق کر لی جائے۔ ڈیوٹی ٹیکسز کی رسیدوں اور متفرق خرچ کا فرق دیکھ لیا جائے زیادہ سے دس کنٹینرز یا کنسائنمنٹ کے ساتھ ایسا ہو گا تو پورے ملک میں کسٹم پورٹوں کے ذریعے سمگلنگ بند ہو جائے گی لیکن اگر کلکٹر کسٹم کسی ایجنٹ سے کہہ کر تعیناتی کرائیں تو پھر وہ ایجنٹ اتنا بدنام کرے گا کہ وہی حال ہوگا جو لاہور میں ہوا۔ اگر کلکٹر کاپی اے آگے اس کے لئے کلیکشن کرے تو پھر ایجنسیوں کی رپورٹ کا غصہ نہیں کرنا چاہئے۔ وزیراعظم کو دیگر محکموں کی کارکردگی کا جائزہ لینا ہوگا۔ چیف جسٹس صاحب کو چھوٹی عدالتوں کی کارکردگی کا نظام وضع کرنا چاہئے۔ ججز میں سادگی اور پروٹوکول کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ امریکہ میں کسی جج کا کوئی پروٹوکول نہیں۔ جن لوگوں کا خیال ہے کہ وزیراعظم کرپشن پر سمجھوتہ کر لیں گے یا چیف جسٹس صاحب آئین اور قانون کو نظر انداز کر دیں گے یا حافظ سید عاصم منیر شاہ سپہ سالار پاکستان کسی بازاری ہتھکنڈے سے مرعوب ہو جائیں گے وہ احمقوں کے میلے میں دھمال ڈال رہے ہیں۔
میری اس تحریر کے ذریعے چیف صاحبان سے درخواست ہے کہ ایک طرف روزانہ کروڑوں رشوت اکٹھی کرنے والے ہیں اور دوسری طرف سارا دن چوک میں کھڑے مزدوری کی تلاش میں تھک کر واپس گھر کو لوٹنے والے ہیں۔ اس غیر مساوی غیر قانونی صورتحال کا ازالہ کیجئے۔ جب تک چار کے ٹولے، دس کے کے ٹولے، مذہبی ٹچ والے ٹولے کو جیدے جی دار JJ جو سرغنی کی حیثیت سے سہولت کار کے طور پر موجود ہیں، بظاہر نیکو کار لیکن کسی کے پیسے سے لبرٹی شاپنگ کرتے ہیں، کرپشن پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔
0 50 4 minutes read