کالم

منہ چھپانے کو جگہ نہیں ملے گی!

میڈیا میںسابق نگران وزیرِ اعظم انوارالحق کاکڑ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور راولپنڈی سے ممبر قومی اسمبلی حنیف عباسی کے مابین تکرار اور تلخ کلامی کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ ایک ہوٹل میں دونوں کا آمنا سامنا ہوا تو انہوں نے ایک دوسرے پر الزامات لگائے۔ انوارالحق کاکڑ نے حنیف عباسی سے کہا کہ گندم معاملے پر آپ نے انگلی اٹھائی ہے، کیا گرفتار کرنے آئے ہیں۔ حنیف عباسی نے جواب میں کہا کہ میں نے ٹی وی پروگرام میںجو گفتگو کی ہے درست ہے۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپ چور ہیںاور گندم سیکنڈل میں پیسے کھائے ہیں۔ انوارالحق کاکڑ نے جواب دیا کہ فارم 47 پر بات کی تو آپ اور مسلم لیگ (ن) کو منہ چھپانے کو جگہ نہیں ملے گی۔
جناب انوارالحق کاکڑ اور محترم حنیف عباسی کی یہ تکرار یا باہمی تلخ کلامی دلچسپ ہے اور سبق آموز بھی۔ اس سے کچھ ایسا ظاہر ہوتا ہے جیسے کوئی گینگ کے افراد ہوں اور مِل کر کارروائیاں کرتے رہے ہوں۔ پھر مال کی تقسیم پر یا کسی اور وجہ سے ان کے مابین اختلافات پیدا ہوئے ہوں اور انہوں نے ایک دوسرے کے کچے چٹھے کھولنا شروع کر دئیے ہوں۔ جناب حنیف عباسی نے انوارالحق کاکڑ صاحب کو گندم سیکنڈل میں پیسے کھانے والا اور چور کہا تو کاکڑ صاحب نے بھی بالواسطہ انہیں چور ہونے کا طعنہ دیا کہ آپ نے اور آپ کی جماعت نے فارم 47کے ذریعے چوری کر کے انتخابات میں کامیابی حاصل کر رکھی ہے۔ سچی بات ہے کو دونوں نے ایک دوسرے پر جو الزامات لگائے ہیں وہ بڑی حد تک درست ہیں۔ گندم سکینڈل میں جناب انوارالحق کاکڑ کی حکومت نے جو کچھ کیا ، جو بے ضابطگی اور اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔ غیر ضروری طور پر بلا ضرورت بڑی مقدار میں گندم در آمد کرنے کی اجاز ت دی۔ مخصوص مقاصد کے تحت پرائیویٹ سیکٹر کے گندم در آمد کنندگان کو اربوں روپوں کا جو فائدہ پہنچایااور منافع خوری کے ذریعے عوام کی جیبوں پر جو ڈاکہ زنی کی گئی یہ یقینا قومی خزانے کی چوری کی ضمن میں آتا ہے۔ اسی طرح عام انتخابات کے نتائج کو تبدیل کرنے کے لیے فارم 45میں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں اور فارم 47کو سامنے رکھ کر مخصوص امیدواروں جن میں اکثریت مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھتی ہے کی کامیابی کی راہ ہموار کی گئی، یہ سب بھی یقینا جعلسازی اور چوری کے زمرے میں ہی آتا ہے۔پرائیویٹ سیکٹر کے تحت گندم در آمد کرنے کے سیکنڈل یا فارم 47کے ذریعے انتخابی نتائج میں تبدیلی کے معاملات میں جھانکیں تو ہو شر با انکشافات سامنے آتے ہیں۔ پہلے بھاری مقدار میں گندم کی در آمد کو لیتے ہیں۔ پچھلے سال اگست میں میاں شہباز شریف کی سربراہی میں پی ڈی ایم کی حکومت ختم ہونے سے قبل وزیرِ اعظم کو دس لاکھ ٹن (ایک ملین ٹن) گندم امپورٹ کرنے کی سمری پیش کی گئی جسے وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف نے مسترد کر دیا اور گندم امپورٹ کرنے کی اجازت نہ دی۔ جناب انوارالحق کاکڑ کی سربراہی میں نگران حکومت بر سرِ اقتدار آئی تو گندم کی امپورٹ کا ڈول ایک با ر پھر ڈالا گیا۔ نگران وزیرِ اعظم انوارالحق کاکڑ جن کے پاس نیشنل فوڈ سکیورٹی منسٹر کا چارج بھی تھا کی وزارت کی طرف سے گندم کی در آمد کی سمری پیش کی گئی اور کہا گیا کہ ملک میں استعمال کے لیے گندم کی وافر مقدار موجود ہے لیکن سٹریٹیجک ذخائر قائم رکھنے کے لیے ایک لاکھ میٹرک ٹن گندم امپورٹ (در آمد) کی اجازت ہونی چاہیے۔ یہ سمری منظور ہوئی لیکن امپورٹ کی بالائی حد مقرر کرنے کے بجائے نجی شعبے کو گندم در آمد کرنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی۔ جس کے نتیجے میں مارچ 2024 سے قبل نگران دور میں 225 ارب 78 کروڑ 30 لاکھ روپے کی27 لاکھ58 ہزار228 میٹرک ٹن گند م در آمد ہوئی جس کا سلسلہ موجودہ حکومت کی بر سرِ اقتدار آنے کے بعد بھی مارچ 2024میں جاری رہا اور اس دوران 57 ارب19کروڑ 20 لاکھ روپے مالیت کی6 لاکھ 91 ہزار136 میٹرک ٹن مزید گندم بھی در آمد ہوئی۔ نگران دور میں اتنی بڑی مقدار میں گندم کی در آمد کے حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ کابینہ کی اقتصادی کونسل نے گندم کی در آمد کی سمری ابھی منظور نہیں کی تھی کہ ہزاروں ٹن گندم سے لدا جہاز یو کرین سے پاکستان کے لیے روانہ ہو گیا۔ عموما گندم کے جہاز یا کسی اور مال بر دار جہاز کو یوکرین سے پاکستان پہنچنے کے لیے کم از کم چوبیس پچیس دن چاہیے ہوتے ہیں لیکن یہ جہاز سمری کی منظوری کے سات دن بعد کراچی کی بندر گاہ پر لنگر انداز ہو گیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر سے تعلق رکھنے والے بعض مخصوص افراد یا پارٹیوں کو گندم کی در آمد سے کتنی دلچسپی تھی اور نگران کابینہ میں شامل بعض ارکان کی انہیں کتنی حمایت حاصل تھی۔ ایسا کیوں نہ ہوتا جب کہ در آمد کردہ34 لاکھ ٹن گندم کی کل قیمت 283 ارب روپے تھی یعنی یہ درآمد شدہ گندم امپورٹر کو3300 روپے فی من کے لگ بھگ پڑی۔ اس میں مزید171 روپے فی من دیگر اخراجات شامل کر لیں تو گندم پر امپورٹر کا فی من کل خرچ 3500 روپے کے لگ بھگ بنتا ہے۔ کھلی مارکیٹ میں یہ گندم4500 روپے فی من کے حساب سے فروخت ہوئی ۔ اس طرح امپورٹرز نے 34 لاکھ ٹن در آمد شدہ گندم پر کل منافع 85 ارب روپے کمایا ہے۔ یہ85 رب روپے عوام کی جیبوںسے نکل کر بعض مخصوص سرمایہ داروں کے بینک بیلنس میں شامل ہو گئے ہیں۔ میاں شہباز شریف کی حکومت میں دم خم ہے ۔ لوٹ مار کرنے والے کیفرِ کردار کو پہنچیں تو اس کے لیے انہیں ضروری اقداما ت کرنا ہوں گے۔گندم کی امپورٹ کی ہوشر با داستان کو یہیں ختم کرتے ہیں ۔ اب ذرا فارم 47کی طرف آتے ہیں۔ بلا شبہ 8 فروری کے انتخابی نتائج کے حوالے سے فارم 47 کے بہت سارے کمالات سامنے آئے ہیں اور الیکشن ٹریبونلز میں یہ کمالات چیلنج بھی ہو چکے ہیں۔
الیکشن ٹریبونلز کیا فیصلے دیتے ہیں اور کب فیصلے دیتے ہیں ؟ اس سے قطع نظر ایک زبانِ خلق بھی ہوتی ہے جسے نقارہِ خدا سمجھا جاتا ہے اور اس کے ساتھ کچھ زمینی حقائق بھی ہوتے ہیں اور ذاتی معلومات اور مشاہدات بھی ہوتے ہیں ۔ ان سب پہلوئوں کو سامنے رکھ کر بات کی جائے تو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ بعض حلقوں کے فارم 45کے انتخابی نتائج اور فارم 47 کی بنیاد پر اعلان کردہ نتائج میں بڑا فرق پایا جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہوا ؟ اس بارے میں کوئی حتمی بات تو نہیں کی جا سکتی البتہ فارم 47کے تحت اِن حلقوں کے اعلان کردہ انتخابی نتائج کے بارے میں سنتا جا ، شرماتا جا کی پھبتی ضرور کسی جا سکتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button