مغل شہزادے جہانگیر نے ایک دن اپنی نجی محفل میں ایک خواجہ سرا کو فارسی میں گدھا کہہ دیا۔ بادشاہ تک بات پہنچنے پر شہزادے کی دربار میں طلبی ہوئی۔ تو اس نے اپنے جرم کو تسلیم کرتے ہوئے زبان پھسلنے کا عذر پیش کیا۔ بادشاہ نے کہا کہ بادشاہ اور کمہار میں فرق ہونا چاہیے۔ اگر آپ کو اپنی دو تولے کی زبان پر قابو نہیں ہے۔ تو لاکھ کوس وسیع سلطنت پر کیسے قابو رکھو گے؟ بادشاہت زبان سے شروع ہوتی ہے۔ اور زبان پر ہی ختم ہوتی ہے۔کہتے ہیں کہ زبان کا نشتر لوہے کے تیز تلوار سے زیادہ گہرا زخم کرتا ہے۔ کیونکہ تلوار کا زخم تو بھر سکتا ہے، مگر زبان کا زخم کبھی بھی نہیں بھرتا اور نہ کبھی بھولتا بھی ہے۔ کسی نے کہا جب میں کوئی لفظ زبان سے نکالتا ہوں تو اس کے اختیار میں ہو جاتا ہوں پھر وہ میرے اختیار میں نہیں رہتا، اور جب تک وہ لفظ زبان سے نہیں نکالتا۔ اس وقت تک وہ میرے اختیار میں رہتا ہے۔ زبان انسان کا راز فاش کرتا ہے۔ جب ایک انسان کسی سے مخاطب ہوتا ہے، تو وہ حقیقت میں اس سے نہیں، بلکہ اس کے ذہن سے مخاطب ہوتا ہے۔ اور ساتھ اپنی ذھنیت بھی بتا رہا ہوتا ہے۔ یہ زبان ہی شخصیت کی پہچان کرانے میں بہتر راہنمائی بھی کرتی ہے۔ اسی لیے یہ بھی کہا جاتا ہے۔ کہ زبان میں الفاظ ہی اہم نہیں ہوتے، بلکہ لہجہ اور بولنے کا انداز بھی بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ زبان اتنی اہم ہے کہ ایک فقرہ انسان کا خاندان اسکی پوری تاریخ تعلیم تربیت اور تہذیب کو بیان کر دیتا ہے۔ اسی لیے حضرت علی نے فرمایا۔ کہ ” کلام کر تاکہ پہچانا جائے۔” انہوں نے ہی کہا، کہ آدمی کی قابلیت زبان کے نیچے پوشیدہ ہے– کہا گیا اور لکھا گیا ہر لفظ انسان کے علم، کم علمی یا جہالت کا ثبوت مہیا کرتا ہے۔ اس کے مہذب یا غیر مہذب ہونے کی شہادت فراہم کرتا ہے۔ اس کی محبت اور اس کی نفرت کو بیان کرتا ہے۔ اس کے تعلق اور بے تعلقی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کی امیدوں اور اس کی مایوسیوں کو آشکار کرتا ہے۔ چنانچہ علم رکھنے والے ایک فقرے سے بھی انسان کو پہچان جاتے ہیں۔انسان کی جانوروں پر سب سے بڑی فضیلت یہ ہے۔ کہ وہ زبان کا استعمال کرتا ہے، انسان اسی زبان کی وجہ سے حیوان پر فضیلت رکھتا ہے۔انسان اور جانور میں یہی فرق ہے ۔انسان اپنے دماغ کا استعمال کرکے اپنی زبان چلا سکتا ہے۔ اگر ہم وہ بھی نہیں کر سکتے ناں تو ہم نے اپنے آپ کو جانور مان لینا چاہیے ۔ زبان اللہ تعالی کی عظیم نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے۔ مگر اِسکو سنبھال کے استمال کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ زبان وہ عضو ہے جس کے ذریعہ انسان اپنی سوچ اپنے احساسات و جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس کے ذریعے اپنے جذبات و خیالات اپنے ساتھیوں تک پہنچاتا ہے۔ یعنی زبان خیال کے ساتھ ساتھ جذبے کی بھی ترسیل کرتی ہے۔ انسان کی لسانی اہلیت صرف شعر و ادب یا فکر و فلسفے کو سمجھنے کے حوالے ہی سے اہم نہیں۔ بلکہ اخلاق سے تمیز سے بات کرنے کا طریقہ بھی آنا چاہے۔ کیونکہ زبان صرف الفاظ کے برسات بولنے کا نام نہیں، بلکہ شائستگی اور معنوی اعتبار سے الفاظ کی اہمیت بھی معلوم ہو۔ اور بولنے کا انداز بھی معلوم ہو۔ دنیا میں لاکھوں خطیب یا مقرر موجود ہیں۔ اور جب کہ اصل خطیب وہ ہے۔ جسکی بات دل میں اتر جائے۔ انسان اسی زبان کی وجہ سے باعزت مانا جاتا ہے۔ اور اسی کی وجہ سے ذلت و رسوائی کا مستحق بھی ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ غلطیاں انسان زبان سے ہی کرتا ہے۔ لہذا عقلمند لوگ اپنی زبان کو سوچ سمجھ کر اور اچھے طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ زبان کو غلط اور بری باتوں سے بچا کر اچھے طریقے سے استعمال کرنا زبان کی حفاظت کہلاتا ہے۔ ہمارے دین اسلام میں زبان کی حفاظت کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے، کہ ” لوگوں سے اچھے طریقے سے بات کرنا۔ ” (سور البقر، آیت نمبر 83)۔ ارشاد باری تعالی ہے : بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے۔ ( مومنون )۔۔ نبی ۖ نے فرمایا۔ "بد زبانی” دوزخ کی راہ دکھاتی ہے۔حضرت سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم ۖ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کی:مجھے کوئی مختصر نصیحت فرمائیے۔ سرورِ کونین ۖ نے فرمایا- جب تم اپنی نماز کے لئے کھڑے ہو تو رخصت ہونے والے کی سی نماز پڑھو، اور کوئی ایسی بات نہ کرو، جس کے بارے میں بعد میں معذرت کرنی پڑے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ نیکی ایک آسان عمل ہے اور وہ یہ کہ خندہ پیشانی سے پیش آ اور نرم گفتگو کرو۔ زبان قلوب و اذہان کی ترجمان ہے، اس کا صحیح استمال حصول ثواب کا ذریعہ اور کامیابی کا سبب ہے۔ ایک کامل مومن مسلمان کی اہم صفات میں سے ایک یہ ہے، کہ وہ رب العالمین اور اس کے محبوبِ کریم خاتم النبیین ۖ کی محبت اپنے دِل میں سماتے ہوئے ہر وقت اور ہر ہر لمحہ اپنی زبان کو ذکر ِ خیر سے تر و تازہ رکھتا ہے۔ انسان کی خوبیاں و خامیاں اس کے اندازِ کلام میں چھپی ہوئی ہیں۔ زبان چونکہ ایک عظیم نعمت ِ خداوندی ہے اور قاعدہ ہے کہ تمام نعمتوں کو اسی طرح استعمال کرنا ضروری ہے جس طرح اِستعمال کرنے کا طریقہ اللہ تعالی نے بتلایا ہے، ورنہ نعمت کا غلط استعمال، نعمت کی ناقدری اور ناشکری کے زمرے میں آتا ہے جو عذابِ شدید کا موجب ہے۔ زبان کی حفاظت کے حوالے سے رسول کریم خاتم النبیین ۖ کا یہ فرمان بڑی اہمیت کا حامل ہے، ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ خیر بھلائی کی بات کہے ورنہ خاموش رہے۔یہ بھی ارشاد فرمایا :مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں”۔ اِس حدیث مبارکہ میں زبان کو ہاتھ پر مقدم اِس لیے رکھا گیا کہ اتنی اذیت کے کام ہاتھ سے نہیں ہوتے جتنے زبان سے ہوتے ہیں۔ سرکشی، بے دریغی اور سب سے زیادہ فساد و نقصان اِسی عضو زبان سے رونما ہوتے ہیں۔ لہذا زبان کی حفاظت بہت ضروری ہے، اور اس پر کنڑول کرنے کے لیے بڑی کوشش اور جدوجہد کی ضرورت ہے۔ زبان کی حفاظت اور اس کا صحیح استعمال یہ ہے کہ جو لفظ بھی زبان سے نکالیں، اس کے انجام پر نظر رکھتے ہوئے، خوب سوچ سمجھ کر نکالیں، بات کہیں تو سچی اور اچھی کہیں، ورنہ کچھ نہ کہنا ہی بہتر ہے۔ زبان کی حفاظت، جنت کی ضمانت ہے۔ آدمی کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہوسکتا۔ جب تک اس کا دِل سیدھا نہ ہو اور دِل اس وقت تک سیدھا نہیں ہوتا جب تک زبان سیدھی نہ ہوجائے ۔حفاظت زبان سے اعمال صالحہ کی حفاظت ہوتی ہے۔ زبان کی حفاظت کرنے والا دنیاوی آفات اوراخروی عذاب سے محفوظ رہتا ہے۔ بدزبانی بہت دفعہ بڑے بڑے فتنوں اور فساد کا ذریعہ بنتی ہے اور اِن کا خمیازہ بعض اوقات دنیا میں ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ عارفین کے ہاں ایک کہاوت معروف ہے کہ جب نیک کام میں مشغولیت ہو تو گناہ خود بخود ختم ہوجاتے ہیں۔ ۔۔۔ تو زبان کے بھی ایسے نیک اعمال و مشاغل ہیں جن میں مشغول ہونے سے زبان آفات سے محفوظ ہوجاتی ہے، اِن میں سے چار بڑے اعمال یہ ہیں- 1۔ اللہ تعالی کا ذکر، 3- اللہ تعالی کا شکر، 3- تلاوتِ قرآن، 4۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر ۔ نیز زبان کی شر و آفات سے بچنے کے لیے خاموشی سے بہتر کوئی چیز نہیں اور یہ عقل مندی کی نشانی بھی ہے۔ کیوں کہ عقل مند سوچتا زیادہ اور بولتا کم ہے۔
0 46 5 minutes read