مشہور کہاوت ہے ”ضرورت” تو فقیر کی بھی پوری ہوجاتی ہے لیکن ”خواہش”بادشاہ کی بھی پوری نہیں ہو پاتی۔سننے میں آیا ہے کہ شہباز شریف نے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنائی ہے جو کفایت شعاری کے اقدامات پر سفارشات دے گی اور اسی نے آئندہ بجٹ کے حصے کے طور پر اعلان اقدامات کے ایک سیٹ کا اعلان کیا ہے۔مرکز میں 70 ہزار آسامیاں ختم کرکے تقریباً 80 وفاقی محکوں کو باہم انضمام کردیا جائے گا یا ان کی تشکیل نو ہوگی یا بند کردی جائیں گی تاکہ رقم بچائی جاسکے اس سے قبل بھی وزیراعظم شہبازشریف نے کفایت شعاری کے نام پر پندرہ رکنی کمیٹی بنائی تھی جس کاابھی تک کوئی اتاپتہ نہیں جبکہ موجودہ کمیٹی سات رکنی ہے۔اگر شہبازشریف صاحب اپنی پہلی اصلاحات پر عملدرآمد کروالیتے توملک کو اس کا دس کھرب کافائدہ ملتایعنی اتنی رقم بچائی جاسکتی تھی۔ حکمرانوں کی کفایت شعاری یہ ہے کہ اربوں روپے سے عوام کے دکھ درد میں شریک ہونے کے لیے خریدے گئے ہیلی کاپٹر استعمال ہوتے ہیں ایک راشن کا بیگ دینے کے لیے ہیلی کاپٹر کااستعمال کفایت شعاری ہے۔ موجودہ وقتوں میں ملک میں کوئی ایک شعبہ ایسا نظرنہیں آتا جس میں ترقی کی آواز سنائی دے رہی ہو۔ حالات یہ ہیں کہ لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہو چکا ہے۔مہنگائی کا طوفان ہے تو دوسری طرف اس کا اثر برآمدات پر پڑ رہا ہے۔شہباز شریف صاحب اس ملک کے وزیراعظم ہیں جو اپنا ہردوسرا جملہ کفایت شعاری کا نکالتے ہیں خود سیر ہوکر مرغ مسلم کھاتے ہیں اور غریب کوایک روٹی کے چارحصے کرنے کا کہتے ہیں یعنی گھروں کو سب جیل قراردینے کی کوشش کرتے ہیں ان کی کفایت شعاری یہ ہے کہ شہبازشریف کی حکومت نے اسسٹنٹ کمشنرز کو نئے ڈبل کیبن خرید کر دیے تھے۔ تحصیل دار اس وقت 1990 ماڈلز کی جیپ استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے لیے نئی گاڑیوں کی ضرورت کو سمجھا جا سکتا ہے لیکن ان کی آڑ میں کمشنر سے لے کر تمام اسسٹنٹ کمشنرز کو نئی گاڑیاں خرید کر دینا کوئی کفائت شعاری کہلاتاہے وفاقی حکومت کی جانب سے ملک بھر میں یوم تکبیر منانے کے اعلان کے بعد چھٹی کا اعلان ہوا اس موقع پر پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے دن 28 مئی یوم تکبیر کو سرکاری چھٹی قرار دیا گیا۔ ہم نے دیکھا کہ اس اچانک عام تعطیل کے باعث ملک بھر کے صوبائی حکام نے ایک بار پھر امتحانات کو ملتوی کیا جبکہ اس ضمن میں کراچی میں منگل کو ہونے والے میٹرک کے امتحانات ملتوی کر دیے تو دوسری جانب گزشتہ روز تمام سرکاری محکمے، بینک، پاکستان اسٹاک ایکسچینج، عدالتیں اور تمام تعلیمی ادارے بھی اس طرح بند رہے جس نے ملک کا پہیہ مکمل بند کردیاتھا۔ یہ تو سب ہی جانتے ہونگے کہ مہنگائی بے روزگاری اور لاقانونیت کے شکار وطن عزیز میں ہر سال پہلے ہی 120 عام تعطیلات ہوتی ہیں اور اس پر اس اچانک چھٹی نے عام آدمی کا چولہا بری طرح متاثرکیا ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت کو اس قسم کا شوق پالنے اور کسی کارنامے کاکریڈٹ لینے سے قبل غریبوں اور دیہاڑی دار مزدوروں کے گھروں میں کم ازکم ایک دن کاراشن توضروردیناچاہیے، ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ ایک حاجت مند حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دروازے پر غروب آفتاب کے بعد آیا۔ ابھی اس نے دستک نہ دی تھی کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔ وہ اپنی اہلیہ سے شکایت کررہے تھے کہ ”چراغ کی بتی موٹی ہے جو تیل زیادہ استعمال کرنے کا باعث بن رہی ہے۔” حاجت مند نے جو سنا تو وہ سوچتا ہی رہ گیا کہ وہ ایسے شخص سے حاجت برآری کی کیا توقع کرے، جو تیل کے معمول سے زیادہ خرچ پر سرزنش کررہا ہے۔ حاجت مند نے ہچکچاتے ہوئے دستک دی اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے باہر آنے پر مدد کی اپیل کی، جس پر صحابی رسول ۖ نے اس کی حاجت سے زائد عطا کردیا،اس شخص نے کہا ”اے حضرت! ایک بات بتائیے، چراغ کی بتی قدرے موٹی ہوجانے پر آپ اپنی زوجہ محترمہ کو سرزنش کررہے تھے حالانکہ چراغ اس قدر روشنی رکھنے میں شاید صرف ایک درہم کا تیل استعمال بھی استعمال نہ ہوتا۔ وہ تو آپ کو گوارا نہ ہوا اور یہاں وزیروں مشیروں اور مداح سراہوں کا پورا پورا کنبہ سرکاری ہوائی جہازوں میں دنیابھرکی سیر کرتاہے اور ملک میں رہے توسرکاری پروٹوکول اوررہائش گاہوں کے مزے، یہ کہاں کا انصاف ہے وزیر وں اور مشیر وں کے لئے وسائل اور خزانوں کا منہ کھول دیئے اور کفایت شعاری کا بل غریب اور مساکین کی جیبوں سے اداکیاجائے، خیریہ توبات ہوگئی عام آدمی کی جبکہ ملکی معیشت کا حال دیکھیں توایک دن کی چھٹی کی وجہ سے ملکی جی ڈی پی کو 1 سے 2 فیصد کے نقصان کا سامنا ہوتا ہے جوکہ 100 ارب روپے سے زیادہ کی رقم بنتی ہے۔ یعنی سیدھے لفظوں میں ایک عام تعطیل سے ملکی خزانے کو 1.1 سے 1.3 بلین ڈالر کا فرق پڑتا ہے تاہم اچانک اگر کسی چلتے پہیے کو روک دیاجائے توجھٹکا تو پھر لگتاہی ہے نا یعنی اچانک چھٹی ایک بڑا اور برااثر ڈالتی ہے۔اگر ایساہو کہ چھٹی کاعلم ہو تو ملک میں چلنے والے متعدد کاروبار، انڈسٹریز کارپوریشنز پہلے ہی اپنے اگلے دن کی منصوبہ بندی کر لیتی جبکہ اچانک چھٹی سے ان اداروں کو اپنی سرگرمیاں چوپٹ کرنا پڑجاتی ہیں جس سے کاروبار کو ایک بڑاجھٹکا سہنا پڑتاہے۔ میرا خیال ہے کہ وزیر اعظم کفایت شعاری کی تبلیع کا آغازاپنے گھر اور مداح سراہ وزیروں مشیروں سے کریں توزیادہ اچھاہوگا۔ اپنے من پسند سرکاری افسران کا پروٹول ختم کرکے ان سے پروٹوکول میں استعمال ہونے والی سیکڑوں گاڑیوں کو واپس لے کر دکھائیں اور سب سے بڑھ کرقوم کویہ بھی بتائیں ان کی بھتیجی مریم نواز صاحبہ جو کہ اس وقت وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں کی بلٹ پروف کار کے ٹائر کی خریداری کے لیے پونے3 کروڑ روپے کی گرانٹ کی منظوری کفایت شعاری ہے یاان پرسات خون معاف ہیں۔m
0 47 4 minutes read