
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ حزب اختلاف کے اراکین کا پارلیمنٹ میں احتجاج کا مقصد این آر او لے کر اپنے پارٹی لیڈران کو رہا کرانا ہے۔
قومی اسمبلی میں صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اپوزیشن اراکین بی بی آصفہ بھٹو زرداری سے خوفزدہ ہیں، اسی وجہ سے انہوں نے ان کے حلف اٹھاتے وقت ایوان میں شور شرابہ کیا، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک نہتی لڑکی سے خوفزدہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کبھی بھی ایسے ہتھکنڈوں سے نہیں گھبراتی اور 3 نسلوں سے ہم نے ان کا مقابلہ کیا ہے اور جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف جیسے ڈکٹیٹروں کو جمہوریت سے شکست دی ہے، ہم ابھی بھی ان کا جمہوری انداز میں سامنا کریں گے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اراکین کے رویے سے ایوان کا وقار مجروح ہو رہا ہے، کل پاکستان پیپلزپارٹی نے تاریخ رقم کی ہے اور صدر زرداری نے کل ساتویں مرتبہ مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ صدر زرداری نے ان مسائل کو اجاگر کیا جو وقت اور پاکستان کی ضرورت ہے، ہمیں اپنے سیاسی اختلافات کی بجائے ملک کا سوچنا چاہیے، ہمیں اس عوام کے متعلق سوچنا چاہیے، صدر زرداری نے کل بھی یہ پیغام دیا کہ پاکستان کے مسائل کے حل کے لیے ہمیں متحدہ ہونا ہوگا، عوامی نمائندوں کو اپنا کردار اور ذمہ داری نبھانی چاہیے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ حزب اختلاف پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا نہیں کرنا چاہتی، ہمیں عوام کے مسائل حل کرنا ہیں لیکن حزب اختلاف کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ اپنے سیاسی مفادات حاصل کریں اور این آر او لے کر اپنے پارٹی لیڈران کو رہا کروائیں، حزب اختلاف کا احتجاج کا انداز جمہوری نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ان کے اس انداز کی وجہ سے اسپیکر اس بات پر مجبور ہوئے کہ حزب اختلاف کے دو اراکین کی قومی اسمبلی کی رکنیت معطل کر دی۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے عمران خان کی حکومت کی پالیسی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کی پالیسیاں تحریک طالبان پاکستان، دہشتگردی اور ہمسایہ ملک کے متعلق غلط تھیں اور جس طرح سے عمران خان کی حکومت نے دہشت گردوں کو رہا کیا اور افغانستان میں موجود دہشت گردوں کو پاکستان میں آکر آباد ہونے کی اجازت دی، وہ غلط تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو اس بارے میں اعتماد میں نہیں لیا گیا اور اس وقت کے صدر دہشت گردوں کو معافی دیتے رہے، یہ عمران خان کی حکومت کی پالیسی تھی جس پر ہم نے اس وقت بھی تنقید کی اور اب ہمیں چاہیے کہ مسائل کو صرف سیاسی مسائل نہ سمجھیں بلکہ قومی سیکیورٹی کا مسئلہ سمجھیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں دوغلی پالیسی نہیں اختیار کرنی چاہیے، کیونکہ ان دہشت گردوں کو ماضی میں ختم کرنے کے لیے فوج، پالیسی سازوں اور عوام نے بے انتہا قربانیاں دی ہیں۔