زوناش ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ زوناش اپنے بوڑھے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی۔ زوناش کے والد ایک نجی اسکول میں درس و تدریس کا کام کرتے تھے۔ وہ اپنے والدین کے کھلتا ہوا واحد پھول تھی۔ اگر چہ اس کے والدین غریب تھے مگر زوناش کی ہر خواہش پوری کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیتھے۔ ایسے ہی ہنستے کھیلتے یہ چھوٹا سا غریب گھرانہ اپنے زندگی کے دن خوشی سے بسر کر رہا تھا۔ رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔چند روزے گزرنے کے بعد زوناش نے بھی اپنا پہلا روزہ رکھا۔اس روز اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔زوناش اپنے والدین کی راہ نمائی میں تمام عبادات کے ساتھ اپنا پہلا روزہ مکمل ہونے کے آخری مراحل میں داخل ہو رہی تھی کہ جانے کس حاسد کی نظر اس گھرانے کی خوشیوں کو کھا گئی۔ عصر کے نماز کے بعد زوناش کے والد جیب خالی ہونے کے باوجود افطاری کا کچھ سامان لینے بازار کی طرف نکلے کیوں کہ ان کے خیال میں ان کی اکلوتی لاڈلی بیٹی کا پہلا روزہ تھا اور اس کی افطاری میں وہ کسی قسم کی کمی نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔گھر کی دہلیز پار کرنے کے بعد بازار تک اور بازار سے واپسی پر وہ یہی سوچتے رہے کہ جس سے افطاری کا سامان ادھار لیا ہے اسے یہ ادھار واپس کیسے کرنا ہے۔ رمضان کے بعد عید کے اخراجات مزید بڑھتے جا رہے تھے۔مہنگائی آئے روز زور پکڑتی جا رہی تھی۔زوناش کے والد ابھی انہی سوچوں میں مصروف پیدل چلنے والے راستے پر آہستہ آہستہ چل رہے تھے اور ابھی تک کوئی خیال مکمل طور پر ترتیب دے بھی نہ پائے تھے کہ ان سب مسائل سے کیسے نمٹنا ہے کہ سنسان سڑک ہونے کی وجہ سے اور بڑھتے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک تیز رفتار کار بھاگتی ہوئی آئی اور زوناش کے والد کو کچلتی ہوئی دوسری طرف نکل گئی۔ کم ظرف امیر والدین کی امیر بگڑی ہوئی اولاد نے اس قدر نشہ کر رکھا تھا کہ اتنا تک نہ سوچا کہ اس کے ہاتھوں کسی کے ساتھ حادثہ رونما ہو گیا ہے بروقت طبعی امداد مہیا کی جائے یا پھر قریبی کسی ہسپتال لے جایا جائے مگر افسوس۔۔۔۔ اندھیرا پھیل رہا تھا۔ سنسان سڑک کے درمیان میں نیم بے ہوش خون آلود جسم کے چند گز فاصلے پر چند پھل اور دیگر کھانے کا تھوڑا سا سامان بکھرا پڑا تھا۔۔۔۔۔افطاری میں چند منٹ باقی تھے کہ وہی دکان دار جس سے زوناش کے والد نیابھی چند ساعتیں قبل افطاری کا سامان ادھار لیا تھا اپنی دکان بند کر کہ گھر کی طرف دوڑا ہی تھا کہ ہلکی روشنی میں اسے سڑک پر بے جان انسانی وجود پڑا نظر آیا۔بھاگتا ہوا اس مقام پر پہنچا تو دیکھا کہ وجود کے جسم سے حرکت بند ہو چکی تھی۔ شور مچایا اور اپنے ارد گرد گھروں میں آوازیں لگا کر لوگوں کو جمع کیا۔ زخمی وجود کو اٹھایا اور قریبی کلینک میں پہنچایا۔مگر افسوس وجود دم توڑ چکا تھا۔۔۔۔
دوسری جانب زوناش اور اس کی ماں افطاری کے سامان کے انتظار میں خالی برتن دستر خوان پر سجائے بیٹھی تھی کہ مسجد میں آزان کی آواز گونجی۔دونوں نے پانی پی کر روزہ افطار کیا ہی تھا کہ دروازے پر کسی نے دستک دی ساتھ ہی زوناش کی والدہ کو یہ دستک خطرے کی دستک محسوس ہوئی۔اس سے قبل کہ زوناش کی بوڑھی والدہ دروازہ کھولنے کی ہمت کرتی۔زوناش جو کافی دیر سے والد کے آنے کا انتظار کر رہی تھی اس خوشی سے کہ والد نے دروازے پر دستک دی ہے بھاگتی ہوئی گئی اور دروازہ کھول دیا۔ دروازے پر لوگوں کا ہجوم دیکھ کر ایک لحمہ کے لیے زوناش کو بھی اس ہجوم سے خوف محسوس ہوا مگر جلد ہی زوناش نے اپنے والد کی تلاش میں نگاہیں یہاں وہاں گھمائیں۔ والد کو دروازے پر نا پا کر بھاگتے ہوئے گھر داخل ہوئی تو ہجوم بھی اس کے ساتھ ہی کچے گھر کے اندر داخل ہو گیا۔ اتنی کم عمری میں زوناش باپ کے پیار سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ یتیم ہو گئی۔ زوناش نا سمجھ تھی۔چارپائی پر پڑے بے جان والد کے وجود کو دیکھ کر یہی سمجھی کہ والد نیند کی حالت میں ہے۔باربار والدکو جگانے کی کوشش کرتی اور اپنے ساتھ روزہ افطار کرنے کا بولتی مگر بے سود۔باقی تمام الوداعی رسومات کے بعد محلے کے چند نوجوان آگے بڑھے اور میت کو اٹھا کر قبرستان کی طرف چل پڑے۔۔۔۔ اس سارے وقت میں زوناش کبھی اپنی ہم عمر ساتھیوں کے ساتھ پورے گھر میں کھیلتی،بھاگتی دوڑتی اورکبھی اپنی غم گین والدہ کے پہلو میں چھپ کر بیٹھ جاتی۔ ایسے ہی سوگ میں چند روز گزر گئے۔سب کی زندگیاں واپس معمول پر آ گئیں مگر زوناش اورزوناش کی والدہ پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ گیا۔ زوناش کی والدہ گھریلو خاتون تھی جو درزی کا کام جانتی تھی اور لوگوں کے گھروں کے کپڑے سلائی کر کہ ہی وہ اپنا اور اپنی بیٹی کا پیٹ پالنے لگی۔ زوناش کے والد کی قبر کی مٹی خشک ہوئے چند روز ہی گزرے تھے کہ عید آ گئی۔ ہر طرف شور پرپا تھا۔بچے پرجوش تھے۔ عید کی تیاریوں میں بڑھ چڑھ کر مصروف تھے۔مگر ایک گھرانہ ایسا تھا جہاں عید کی آمد کی کوئی خوشی نہیں تھی۔ زوناش کی والدہ ذمہ داریوں کے بوجھ میں دبی ہوئی تھی اور زوناش وقت سے قبل ہی بہت بڑی ہوگئی تھی۔زوناش کی بوڑھی والدہ بیمار تھی اسے دواؤں کی ضرورت تھی اور زوناش ماں کی دوا کے لیے گھر گھر سے ادھار مانگ رہی تھی جہاں اس کی والدہ کام کرتی تھی۔مگر اس کی والدہ کی صحت دیکھ کر اور اس کم عمر بچی کی عمر دیکھ کر کوئی بھی ادھار دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ عید کی ان ڈھیر ساری خوشیوں میں زوناش اداس تھی،اس کی اداسی میں سوائے اس کی بیمار ماں کہ کوئی شریک نہیں تھا۔۔زوناش بے بس تھی، وہ رو رہی تھی،وہ چیخ چیخ کر سب سے شکوہ کر رہی تھی مگر کوئی اس کی آہ و فریاد سننے والا نہیں تھا۔ یہاں زوناش کے لیے پریشانیوں کا ایک اورراستہ ہموار ہو گیا جس راستے پر اسے اکیلے چلنا تھا اور کوئی اس کا ساتھ دینے والا نہ تھا۔۔۔۔۔۔
ضرور ت اس امر کی ہے کہ عید الفطرکے دن ہم اپنی خوشیوں میں دوسروں کو لازمی شریک کریں۔ اپنے اردگرد نظر ضروردوڑائیں اگر کوئی امداد طلب ہے یا پھر زوناش ہے تو اس کی مدد ضرورکریں۔اپنے ساتھ ساتھ اسے بھی اپنی خوشیوں میں شامل کر کہ اس کے غم کو کم کرنے کی کوشش ضرور کریں۔
عید مبارک، فی امان اللہ
0 40 4 minutes read