
اس وقت سوشل میڈیا سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تک سیاسی حلقوں سے پاک وہند کی بیوروکریسی تک ایک موضوع زیر بحث بن گیا ہے کہ علی گیلانی مرحوم کی نواسی حریت لیڈر الطاف شاہ کی بیٹی اور شبیر شاہ کی بیٹی تحریک آزادی کشمیر سے تعلق توڑ کر بھارت سے وفاداری کر گئیں شبیر شاہ کی بیٹی برطانیہ میں ہے اس کا باپ تہاڑ جیل میں قید ہے اس کا کوئی بھائی نہیں دوسری طرف الطاف شاہ کی بیٹی باپ کی بھارت کی حراست میں شہادت کے بعد ایک بڑے سانحہ سے دوچار ہے سچ یہ ہے کہ رداہ الطاف اور سما شبیر ابھی بچیاں ہیں وہ اس ماحول میں بھارت کے قہر کا کس طرح مقابلہ کر پائیں جب کشمیر کا ہر فرد خاص کر آزادی کے نعرے سے جڑے سب ہی قوم پرست جہادی الحاقی کشمیر میں خاموش ہیں وہ پاکستان سے جانے والی فون کال اٹینڈ نہیں کر رہے کہ گرفتار ہو جائیں گے وہاں دو بچیوں پر تنقید قطعی درست نہیں ان پر تنقید کی طرح ان کے اس اقدام کی حمایت کا بھی جوازنہیں بلکہ خود احتسابی کی ضرورت ہے اگر دیکھا جائے تو اس کی مجرم حریت کانفرنس ہے پھر جہاد کونسل دیگر بھارت مخالف سیاسی گروپ شخصیات مظفرآباد کی حکومت اور آزاد کشمیر میں جہاد اور آزادی کے دعوے کرنے والے سبھی سیاست کار ہیں بھارت نے جب 5اگست کا اقدام کیا تو اس پر کی گئی خاموشی نے ہی آخر کار ان بچیوں سے اس اعلان پر جا رکوایا اس کشمیر میں ہی ہزاروں خواتین سڑکوں پر نکلتیں تو بھارتی فورسز بھیگی بلی بن جاتی مسلمان خواتین کا تو نام بھی بے وضو لینا مناسب نہیں میں جموں کی اس غیر مسلم ماں کو کیسے بھول جاں جب جے کے ایل ایف کا راولاکوٹ سے گیا مجاہد منشا سری نگر سے واپس جموں پہنچا کہ سیالکوٹ کے راستے واپس آئے ایک غیر مسلم گھرانے کے ہاں قیام پذیر تھا بھارتی فوج کو خبر ہوگئی اس گھر چھاپہ مارا کہا دہشت گرد کی تلاش ہے سامنے منشا تھا بڈھیا نے کہا ادھر کوئی دہشت گرد نہیں انہوں نے پوچھا یہ کون ہے غیر مسلم ماں نے کہا یہ تو میرا بیٹا ہے فوجی چلے گئے ماں موقع ملنے خود اس کو سیالکوٹ بارڈر پر جہاں جموں کشمیر اور پاکستان کی سرحد ہے وہاں چھوڑ گئی اس طرح کی داستان کہیں ہیں تحریک کے بانی سربراہ جے کے ایل ایف عبدالحمید شیخ شہید کی بہن جلوس میں فرنٹ کے پرچم سمیت شامل تھی فورسز نے اس کے ہاتھ سے پرچم گرانے بازو پر گولی چلائی وہ زخمی ہوئی مگر فرنٹ کا پرچم نہیں گرنے دیا ڈاکٹر ربیعہ سعید جب اغوا کی گئی تو اس کو اشفاق مجید وانی کے حکم پر خواتین نے کس طرح بہن کی طرح رکھا خود وہ کہیں بار اظہار کر چکی آج مایوسی اور نا امیدی کیوں پیدا ہوئی اس کا ادراک کرنا ضروری ہے اور اس کے ازالہ کی ضرورت ہے اگر پانچ اگست کے بھارتی اقدام کے ردعمل میں حریت کانفرنس عوام کو احتجاج پر لاتی تو لاکھوں لوگ نکلتے مگر حریت کانفرنس کے لیڈر ڈر گئے کہ ہم گرفتار ہو جائیں گے کہیں نے سھمجا مارے جائیں گے وہ آزادی یا شہادت کے نعرے ہی بھول گئے علی گیلانی کی تدفین پر حریت کانفرنس دس بندوں سے احتجاج نہ کروا سکی کہ کہیں ہم بھی نظر بند یا زنداں کی نذر نہ ہو جائیں حریت کانفرنس کی مصلحت پسند پالیسی پر تحریک کی بانی جے کے ایل ایف یہ اقدام کر سکتی تھی مگر وہ بھی سرینڈر کر گے احتجاج کرنا تو الگ جموں کشمیر میں موجود جے کے ایل ایف کے لیڈر اپنے چیئرمین یاسین ملک سے ملنے جیل نہیں گے ایک ظہور بٹ برادر اصغر مقبول بٹ شہید للکارنے لگا اس کو پھر گرفتار کر لیا گیا سلیم ننھا جی نے کچھ ساتھیوں سے مل کر ردعمل ظاہر کرنا چاہا وہ بھی گرفتار ہوگئے لیڈروں کی خاموشی کے ساتھ بھارت کا کڑوا سچ سامنے لانا کہ لیڈروں کے بچے شہید نہیں ہوئے لیڈروں کے بچے خود بڑی نوکریاں کرتے ہیں بچوں کو سکول بائی کاٹ کی کال دی گئی جب وائس آف امریکہ کا رپورٹر ایک بڑے سکول گیا تو دیکھا علی گیلانی کی پوتی نعیم گیلانی کی بیٹی خود سکول میں پڑھائی کر رہی ہے تو تاثر غلط پڑھا آج بیشتر لیڈر شپ محفوظ پناہ میں ہے اس سکوت اور خاموشی کو توڑنے کا بہترین راستہ ہے کشمیر نے فلسطین ایک دن ضرور بننا ہے پھر بے غیرتی کے بعد بننے سے بہتر ہے کہ اب ہی بنا چاہے تاکہ شبیر شاہ جیسوں کو خون کے آنسو نہ رونا پڑے اس کا حل نوے کی دہائی میں دی گئی ہاشم قریشی کی تجویز ہے سول نافرمانی کی تحریک شروع کی جائے لاکھوں لوگ رمضان المبارک کی پر نور ساعتوں میں غزہ والوں کی طرح نکل جائیں ہر شہر ہر محلہ دھرنے دیئے جائیں راولاکوٹ کے دھرنوں کی طرح شام واپس گھروں کو نہ جایا جائے گلگت کے دھرنوں کی طرح بوڈھے بچے مائیں بہنیں بیٹیاں سب ہی نکلیں بھارت کو مشکل پڑھ جائے گی لاکھوں لوگوں پر گولی چلائی گئی تو شگاگو بن جائے گا تاریخ رقم ہوگی سید صلاح الدین مشتاق زرگر غلام نبی نوشہری یوسف نسیم غلام صفی محمود ساغر تنویر الاسلام فاروق رحمانی الطاف وانی رفیق ڈار خفیہ طور فوری سری نگر پہنچیں اور لال چوک سامنے آئیں کمروں میں بند حریت کانفرنس لیبریشن فرنٹ اور دیگر بھارت مخالف سیاست کار بھی سامنے آئیں اگر لیڈر شپ سے کوئی شہید ہوگیا اس کے لیے سعادت ہی ہوگی اعجاز ڈار سے الطاف شاہ تک جو شہادتیں ہوئی ہیں ان سے زیادہ ان لیڈروں سے کوئی اہم نہیں اگر کوئی گرفتار ہوا تو جہاں یاسین ملک بٹہ کراٹے شبیر شاہ سلیم ننھا جی ظہور بٹ مسرت عالم جیسے گرفتار ہیں وہاں ان کے گرفتار ہونے کوئی کعبہ الٹ نہ جائے گا اس سول فرمانی کی تقلید میں آزاد کشمیر کے ہر شہر قصبے گلگت بلتستان اور بیرونی ممالک میں بھارتی سفارت خانوں اقوام متحدہ کے بائر دھرنے دئیے جائیں خور دنیا ہل جائے گی لیکن اگر ایسا بھی نہیں کر سکتے کوئی سری نگر گھر میں خاموش رہے گا کوئی اسلام آباد محفوظ رہ کر صرف بیانات جاری کرنے تک رہے گا لیڈروں کی اولاد بہترین دستر خوان پر افطاری کرکے خوبصورت عید مناتی رہے گی تو پھر کل سقوط کشمیر ہوگا سارے لوگ بھارت کے حق میں کھل کر سامنے آ جائیں گے جی بی بھی صوبہ بننے کی خواہش سامنے لائے گا یہ غداری اور سہولت کاری صرف اور صرف اسلام آباد اور سری نگر براجمان حریت کانفرنس لیبریشن فرنٹ اور ہر اس گروہ پر ہوگی جو بھارت سے آزادی تو چاہتا ہے مگر گرفتار ہونے بھی تیار نہیں احتجاج کے لیے بھی تیار نہیں اور شہید ہونے کا تو نام لینا بھی گناہ گردانتے ہیں مگر خود کو حریت پسند ضرور کہلاتیہیں سوال یہ ہے کہ ایسے لوگ نہ مقبول بٹ کے پیروکار ہو سکتے ہیں۔
اور نہ ہی سید علی گیلانی کی پیروکاری کے اس قبیل کے لوگوں کو دعوے زیب دیتے ہیں دھرنوں اور سول نافرمانی کے اس احتجاج کے باعث بھارت اسرائیل کی طرح خون سے کشمیر کو نہلا دے گا مگر تاریخ تو رقم ہوگی غداری اور شہیدوں کے خون سے سودے بازی کا داغ تو نہ لگے گا اگر اور کوئی حاصل نہ بھی ہو گرفتار اسیران تو رہا ہوں گے 35Aتو بحال ہو گی