کالم

غزہ کے مظلوم مسلمان

غزہ ایک ایسے علاقے کا نام ہے جہاں آگ اور بارود کا کھیل جاری ہے۔وہاں کے لوگ جو مسلمان ہیں اورکمزور بھی ہیں،ان کو تباہ و برباد کیا جا رہا ہے۔فلسطین جو ان کا اپنا تھا اور فلسطین کی زمینیں ان کی تھیں،ایک سازش کے ذریعے ان کے علاقوں پر قبضہ کر دیا گیا۔قبضہ کرنے والے یہودی تھے اور افسوسناک بات یہ ہے کہ ان کوبڑی طاقتوں کی حمایت حاصل تھی۔قبضہ کرنے کے بعد بھی ان کو تباہ و برباد کیا جا رہا ہے۔تھوڑے سے علاقے پرمسلمانوں کو رہنے کی اجازت دی گئی تھی،مگر اب صورتحال یوں بن چکی ہے کہ وہ علاقہ بھی ان سے چھینا جا رہا ہے۔پل پل موت کا انتظارکرتے غزہ کے مجبور مسلمان بے بسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔22 نومبر1974 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد3236کے ذریعے فلسطینی عوام کا حق تسلیم کیا گیا تھا۔حق تسلیم ہونے کے باوجود بھی فلسطینیوں کو کوئی حقوق نہیں دیے گئے۔جس دن سے یہودیوں نے مسلمانوں کی زمینوں پر قبضہ کیا،اسی دن سے مسلمان اذیت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔فلسطینی مسلمان ایک چھوٹی سی پٹی پر رہ رہے ہیں اوروہ بنیادی انسانی حقوق سے بھی وہ محروم ہیں۔
بات یہیں تک نہیں رکتی،بلکہ اب تو ان کو دیا گیا چھوٹا سا علاقہ بھی چھینا جا رہا ہے۔اکتوبر 2023 سے لے کراب تک 33 ہزار کے قریب شہادتیں ہو چکی ہیں۔75 ہزار کے قریب زخمی ہیں اور لا پتا افراد کی تعداد بھی زیادہ ہے۔زخمیوں کی تعدادمسلسل بڑھ رہی ہے۔بہت سے مجبور فلسطینی مسلمان معذور ہو چکے ہیں۔ادویات ناپید ہیں۔خوراک کا بحران پیدا ہو چکا ہے۔بچے بھوکے مر رہے ہیں بلکہ وہاں رہنے والیتمام انسان بھوک سے مر رہے ہیں۔کھانے کو گھاس پھونس کے پتے بھی نہیں ملتے۔غزہ اس وقت تباہ کن صورتحال کا شکار ہے۔ہسپتالوں پر بھی بمباری شروع ہے۔ہسپتالوں میں ادویات بھی ختم ہو چکی ہیں اور سرجری کا سامان بھی تباہ ہو چکا ہے۔اس کے علاوہ ہسپتالوں میں بجلی کی صورتحال بھی بدترین ہو چکی ہے۔کئی مریض بجلی کینہ ہونے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔سکولز، مساجداوربازار بھی تباہ کییجا رہے ہیں۔فلسطینیوں کی کافی تعداد اسرائیلیوں کے قید میں ہے۔بچوں اور خواتین کی کافی تعداد بھی قید کی جا چکی ہے۔قیدیوں کے ساتھ نارواسلوک کیاجارہاہے۔خواتین کی عزتیں لوٹی جا رہی ہیں اور ان کو گینگ ریپ کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔اسرائیل کو نہ تو کسی اخلاقی قوانین کی پرواہ ہے اور ناکو بین الاقوامی قوانین کی پرواہ ہے۔اسرائیل کی کھلم کھلا دہشت گردی نے انسانی حقوق کے ساتھ عالمی قوانین کا بھی مذاق اڑایا ہوا ہے۔خوراک یا میڈیسنز کی صورت میں ان تک کوئی امداد پہنچانا بھی چاہے تو اسرائیل ان تک پہنچنے نہیں دیتالیکن اسرائیل تک ہر قسم کی امداد پہنچ رہی ہے۔خوراک کے ساتھ اسلحہ بھی ان کو فراوانی سے مل رہا ہے،اس کے علاوہ اسرائیل کوامریکہ سمیت کئی ممالک کی امداددستیاب ہے۔انسانی حقوق کی تنظیمیں،او۔آ۔سی اوراسلامی ممالک صرف زبانی مذمت تو کر رہے ہیں،لیکن عملی طور پر مددنہیں کی جارہی ہے۔سب سے زیادہ عالم اسلام کی خاموشی تکلیف دہ ہے۔اگراسرایل کونہ روکا گیاتوعرب ممالک بھی اسرایل کانشانہ بنیں گے۔اس وقت ان تنظیموں کو بھی کوئی خیال نہیں آ رہا جو تہذیب اورتاریخ کو بچانے کے دعوے کرتی رہتی ہیں۔فلسطین کی جو ایک تاریخی حیثیت ہے،اس تاریخی اور تہذیبی ورثے کو کوئی بچانے کی کوشش نہیں کر رہا۔اس بات کا اعتراف کرنا بھی ضروری ہے کہ کچھ انسان دوست افراداور ممالک احتجاج بھی کر رہے ہیں اورمظلوم مسلمانوں کی امداد بھی کررہے ہیں۔ان انسان دوست افراد میں غیر مسلم بھی ہیں۔ان احتجاجوں کوکو اہیمیت نہیں دی جارہی،بلکہ دیدہ دلیری کے ساتھ معصوم انسانوں کوقتل کیاجارہاہے۔
اقوام متحدہ میں بھی غزہ جنگ بندی کی پہلی بار سلامتی کونسل میں قرارداد منظور کی گئی ہے۔اس قراردادکو اسرائیل نے نامنظور کرتے ہوئے کہا کہ جنگ بندی نہیں کی جائے گی۔اسرائیل نے امریکہ پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے قرارداد کو ویٹو کیوں نہیں کیا۔اسرائیلی وزیراعظم نے ویٹونہ کرنیپر امریکہ کا دورہ کینسل کر دیا۔قرارداد میں کہا گیا تھا کہ رمضان میں فوری جنگ بندی کی جائے،جو کہ بعد میں مکمل طور پر جنگ بندی کی جائے۔تمام یرغمالیوں کوغیر مشروط اور فوری طور پر رہا کیا جائے اور ان کی طبی اور انسانی ضروریات پوری کرنے کے لیے فوری طور پر ان تک رسا دی جائے۔اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ تمام فریقین اپنی قید میں موجود افراد کے حوالے سے عالمی قوانین پر عمل درامد کریں۔اسرایل قیدیوں کوتشدد کانشانہ بنارہاہے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتیرس نیکہاہیکہ فوری طور پرجنگ بندی کی جائے۔اقوام متحدہ کیسیکرٹری جنرل نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ اس قرارداد پر عمل ہونا چاہیے،ناکامی ناقابل قبول ہوگی۔یہ بھی صرف بیان ہے،اگرخلوص کے ساتھ جنگ بندی کی جائے توجنگ ختم کی جاسکتی ہے۔اقوام متحدہ میں امریکی مندوب لنڈا تھامسن نے حماس سے مطالبہ کیا کہ وہ اس ڈیل کو قبول کرے۔اسرائیل پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ اس قراردادکوتسلیم کرے اور اس پر عمل بھی کرے۔او۔آ۔سی،اسلامی ممالک اور انسان دوست تنظیمیں فوری طور پر کوشش کریں کہ غزہ اوراسرایل کی جنگ بند ہو جائے۔اسرائیل طاقت کے نشے میں کسی قانون یا اخلاق کی پابندی کرنے سے انکار کر رہا ہے۔مسلمان اور انسان دوست افراداپنے ممالک پر زور دیں کہ وہ فلسطین کے مجبور مسلمانوں کی مدد کریں۔اسلامی ممالک کو کوشش کرنی چاہیے کہ فوری طور پر جنگ بندی ہو جائے۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ فلسطینی مسلمانوں کی بڑھ چڑھ کر مدد کریں۔اللہ تعالی قران مجید میں ارشاد فرماتے ہیں،(ترجمہ)اخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں،عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑوجو کمزور پا کردبا لیے گئے ہیں اورفریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہمیں اس بستی سے نکال جس کی باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کر دے(النسا,75)غزہ کے مسلمان شدید تکلیف کی حالت میں ہیں۔ان پرمظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ہمیں پوری کوشش کرنی ہوگی کہ وہاں جنگ بندی ہوجائے۔
فلسطین کی اہمیت جغرافیائی طورپرنہیں،بلکہ اس کی اسلامی حیثیت بھی ہے۔اسلامی حیثیت ہونے کے ناطے ہمیں ان کی ہر قسم کی مدد کرنی ہوگی۔آج فلسطینی مسلمان بدترین دور گزار رہے ہیں کل کوئی اور بھی ان جیسی حالت کا شکار ہو سکتا ہے۔اب جنگ رک بھی جائیتوپھربھی ان کوسنبھلنے میں کافی عرصہ لگ سکتا ہے۔خوراک کیناپیدی کے علاوہ عمارتیں بھی تباہ ہو چکی ہیں۔دوبارہ رہایش کیقابل ہونے کے لییاربوں ڈالرزکی ضرورت ہوگی۔جنگ اگر نہیں رکتی تو خدانخواستہ خطرہ ہے کہ فلسطینی مسلمان تمام کے تمام شہید نہ ہو جائیں۔وہاں قبلہ اول بھی ہے،جومسلمانوں کے لیے مقدس جگہ ہے اوراسی لییمسلمان بے پناہ محبت کرتے ہیں۔وہاں انسانوں کے علاوہ تہذیب کے مٹنے کا بھی خطرہ ہے۔ایسی تہذیب جو انسانی تاریخ میں ایک اہمیت کی حامل ہے۔انسانوں کے ساتھ کی اس قیمتی ورثے کو بھی بچانا ہوگا۔مسلمان ذاتی طور پر بھی مظلوم مسلمانوں کی مدد کریں اور اپنی اپنی حکومتوں پر زور دیں کہ وہ فلسطینی مظلوموں کا ساتھ دیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button