کالم

غزوہ بدر کا سبق

17رمضان المبارک 2ہجری کو غزوہ بدر پیش آیا۔ یہ اسلام اور کفر کی پہلی جنگ تھی جس کی قیادت خود اللہ کے آخری رسول محمد الرسول ۖ نے فرمائی۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد نہایت کم تھی مسلمانوں کی تعداد محض 313تھی جن کے پاس سوار کے جانور اور اسلحہ نہ ہونے کے برابر تھا، جبکہ ان کے مقابلے میں کفار مکہ کی تعداد 1000تھی جو مکمل طور پر اسلحہ سے لیس تھے ان کے پاس جانوروں کی فراوانی تھی۔ بظاہر دونوں لشکروں کا کوئی مقابلہ نہیں تھا اس کے باوجود مسلمان نبی اکرم ۖ کی قیادت میں اللہ کے بھروسے پر میدان جنگ میں کود پڑے اور فتح و کامرانی ان کا مقدر بنی۔
اس جنگ سے ہمیں بہت سے سبق ملتے ہیں جن میں سے چند اہم یہ ہیں کہ وہ کون سی طاقت تھی جس نے صحابہ کرام کو ثابت قدم رکھا۔ 313 نہتے مسلمان جن کے پاس اسلحہ اور سواری کے جانوروں کی نہایت قلت تھی انہوںنے کیسے ایک ہزار کے لشکر سے مقابلہ کیا ؟وہ لشکر بھی ایسا جس کے پاس اسلحہ اور سواری کے جانوروں کی بھر مار تھی ۔ مگر وہ ان مٹھی بھر اللہ کے سپاہیوں کے سامنے ٹھہر نہ پائے اور ستر قتل ہوئے اتنے ہی گرفتار ہوئے اور باقی تمام کے تمام فرار ہو گئے ۔ یہ اس ایمان کی طاقت تھی جو صحابہ کرام کے دلوں میں راسخ ہو چکا تھا ۔ یہ ان کا اللہ اور اس کے رسول ۖ کے حکم پربلا تامل لبیک کہنے کا جذبہ تھا جس نے انہیں ہر میدان میں سرفراز کیا۔ یہ اس شمع ایمانی کی حرارت کا نتیجہ تھا جو ان کے سینوں میں روشن تھی۔
آج مسلمان اسی جذبہ کے مفقود ہونے کی وجہ سے پس رہے ہیں۔ کفار نے ہر طرف سے یلغار کر رکھی ہے ۔ ہر طرح سے مسلمانوں کو ستایا جا رہا ہے ۔ فلسطین اور کشمیر وغیرہ میں مسلمانوں پر براہ راست جنگ مسلط کر رکھی ہے اور کہیں معاشی طور پر کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ کہیں سیاسی بحران پیدا کر کے مسلمانوں کو ستایا جا رہا ہے تو کہیں ان کے وسائل پر قبضہ کر کے انہیں دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پوری امت پریشانیوں میں گھری ہوئی ہے حالانکہ مسلمانوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے ۔ آج دنیا میں دو عرب کے قریب مسلمان آباد ہیں جو دنیا کی کل آبادی کا تقریباًایک چوتھائی ہیں لیکن اس کے باوجود اتنے مظلوم ہیں کہ جس کا جی چاہتا ہے بلا روک ٹوک ان پر ستم ڈھانے لگتا ہے ۔ مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اس کی وجہ مسلمانوں کی ایمانی کمزوری ہے ، مسلمانوں کے دلوں میں دنیا کی محبت رچ بس گئی ہے ۔سیدنا ثوبان نے بیان فرمایا ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا: ”ایسا وقت آنے والا ہے کہ دوسری امتیں تمہارے خلاف ایک دوسرے کوایسے بلائیں گیں جیسے کہ کھانے والے اپنے پیالے پر دوسروں کو بلاتے ہیں” تو کہنے والے نے کہا ، کیا یہ ہماری ان دنوں قلت اور کمی کی وجہ سے ہو گا؟ آپ ۖ نے فرمایا ،” نہیں بلکہ تم ان دنوں تعداد میں بہت زیادہ ہو گے ، لیکن جھاگ کی طرح ہو گے جس طرح سیلاب کا جھاگ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے سینوں سے تماری ہیبت نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں ‘وہن ‘ڈال دے گا”۔ کسی نے پوچھا ، اے اللہ کے رسول ۖ ! وہن کیا ہے ؟ آپ ۖ نے فرمایا ،” دنیا کی محبت اور موت کی کراہت ”۔ آج مسلمان مادیت کی طرف دوڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے دین سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ کفار سے دوستی کرنے اور ان کے طور طریقے اپنانے میں اتنے اندھے ہو گئے ہیں کہ اپنے دین کی پاکیزہ تعلیمات کو بھول گئے ۔ مفاہمت ، مذاکرات اور مصلحت میں اس قدر ڈوب گئے ہیں کہ جہاد کو فراموش کر بیٹھے ہیں ۔ کفار سے مغلوب ہونے کی وجہ سے مذاکرات مذاکرات کی رٹ لگائے رکھتے ہیں اور اسے اپنی امن پسندی قرار دیتے ہیںلیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ امن پسندی نہیں بزدلی ہے۔
غزوہ بدر میں تو مسلمانوں کے سامنے ان کے رشتہ دار تھے کسی کا بھائی اور کسی کا باپ مد مقابل تھا لیکن اللہ کے ان مجاہدوں نے دین کے مقابلے میں کسی کو خاطر میں نہ لایا اور سب کے خلاف تلوار اٹھائی ، کفار سے دوستی تو درکنار اپنے خونی رشتہ داروں سے بھی لڑ پڑے چہ جائیکہ ہماری طرح سات سمندر پار بیٹھے کفار سے دوستیوں کے لیے اپنا سب کچھ قربانی کرنے کو تیار ہیں ۔ ظاہری طور پر ہم بدر کے صحابہ سے زیادہ کمزور تو نہیں ہیں ، ہمارے پاس ہر طرح کا جدید اسلحہ ہے بلکہ پاکستان کو تو اللہ تعالیٰ نے ایٹمی طاقت سے بھی نوازا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کا شمار عسکری اعتبار سے طاقتور ممالک میں ہوتا ہے ۔ اس کے باوجود ہم کیوں اتنے سہمے رہتے ہیں ؟ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ وہاں صحابہ کے اندر جذبہ جہاد تھا انہیں دنیا کی بجائے جنت کی خواہش تھی ۔ انہیں اللہ اور اس کے رسول ۖ کا حکم ماننے سے کوئی چیز مانع نہیں تھی ۔ اس کے برعکس ہماری حالت یہ ہے کہ دنیا کی محبت میں ہم اتنے گھر چکے ہیں کہ اب ہمیں دنیا کے کام چھوڑ کر نماز تک ادا کرنی مشکل محسوس ہوتی ہے تو جہاد وغیرہ تو دور کی بات ہے ۔ اس کے علاوہ ہم ہر دم گناہوں میں لتھڑے ہوئے ہیں، ہر وہ گناہ جس سے شریعت مطہرہ نے منع کیا ہے ہم انہیں کیے چلے جا رہے ہیں ۔ جھوٹ ، غیبت، رشوت، کرپشن، چوری ، ڈاکہ ، زنا، بے پردگی و بے حیائی، بد دیانتی، ناپ تول میں کمی غرض ہر برائی ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہے ۔ جس کام سے اللہ اور اس کے رسول ۖ نے منع کیا ہے ہم اسے ضرور کرتے ہیں، جس کی وجہ سے اللہ رب العزت کی ناراضی کا آنا بدیہی بات ہے ۔ لہٰذا ہمیں ان تمام تر معاشرتی برائیوں کو چھوڑ کر اللہ کے احکامات پر عمل کرنا ہو گا اور بزدلی کو ترک کر کے اپنے اندر جذبہ جہاد پیدا کرنا ہو گا، مسلمانوں کے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرنے کا یہی واحد ذریعہ ہے ۔ اگر مسلمان آج بھی اپنے اندر صحابہ کرام والا جذبہ پیدا کر لیں تو اللہ رب العزت کی مدد و نصرت اسی طرح اتر سکتی ہے جیسے میدان بدر میں اتری۔شاعر کہتا ہے :
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button