ہم اہل کشمیر اول اہل پاکستان ہر سال23مارچ اس دن کی یاد میں مناتے ہیں جب برصغیرکے مسلمانوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے جھنڈے تلے اور بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی بے مثال قیادت میں پاکستان کے حصول کو اپنی منزل قراردیا تھا۔ ١٩٥٦ء کے آئین میں جب پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا گیا اور اس کے نفاذ کے لیے بھی ٢٣ مارچ کا تاریخی دن منتخب کیا گیا تو اس دن کو یوم جمہوریہ کی حیثیت بھی حاصل ہو گئی۔قومیں اپنے خاص خاص تاریخی ایام کو اس لیے مناتی ہیں کہ ان کی یاد سے زندگی نئی امنگوں اور حوصلے سے سرشار ہو۔ کوئی قوم بھی اپنے ماضی سے کٹ کر زندہ نہیں رہ سکتی، حقیقت یہ ہے کہ قدموں کا زمانہ حال ان کے ماضی کی تعبیر اور مستقبل کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔ بقول اقبال
وہ قوم نہیں لائق ہنگامہ فردا جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے
٢٣ مارچ ١٩٤٠ ہماری تاریخ میں اس لیے بھی اہم ہے کہ اس دن مسلمانان ہند نے ایک خود مختار اسلامی ریاست کے حصول کو اپنالائحہ عمل قرار دیا تھا اور اتحاد وقوت کے لازوال جذبوں سے وہ ایک ناقابل شکست قوت بن گئے تھے، یہ حقیقت ہے کہ آزادی کا سورج اتھاد و اتفاق کے نورانی افق سے طلوع ہوتا ہے اور انتشار و بدنظمی کی تاریکیوں میں غروب ہو جاتا ہے۔ مسلمانوں نے جب غیر متزلزل عزم و استقامت سے اپنے مقاصد کا تعین کر لیا تو پھر کوئی بھی رکاوٹ ان کو روک نہ سکی اس مقام تک پہنچنے کے لیے ان کو بہت سے تلخ و شیریں تجربات سے گزرنا پڑا۔ میثاق لکھنو اس مقصد کی طرف پہلا قدم تھا جس میں مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کو تسلیم کیا گیا۔1930کالہ آباد کا اجلاس اس مقصد کی طرف دوسرا قدم تھا، جس میں مفکر پاکستان حکیم الامت علامہ اقبال نے ایک اسلامی ریاست کے قیام کے لیے فکری بنیادیں فراہم کیں اور23مارچ1940کو قرارداد پاکستان اس مقصد کے لیے ایک ٹھوس قدم تھا جس نے منزل کو قریب کر دیا۔ بالآخر14اگست1947کو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پاکستان مرض و جود میں آگیایہ سب اس لیے ہوا کہ قیادت بے لوث اور باکردار تھی اور نصب العین اعلیٰ تھا۔ نگہ بلند سخن دل نواز جان پر سوز یہی ہے رخصت سفر میر کارواں کے لیے
قائداعظم محمدعلی جناح نے اپنے قوم و فعل سے مسلمانوں کو مطمئن کر دیاتھا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں اس پر عمل بھی کرتے ہیں ۔ قوم کا زبانی نعروں سے حاصل نہیں کیا جاسکتا بل کہ اس راہ کی پہلی شرط ہی اخلاص اور قول و فعل کی ہم آہنگی ہے۔ بلاشبہ بابائے قوم اپنے مضبوط کردار اور بے مثال تدبر کی بہ دولت قوم کے اعتماد پر پورا اترے، قائداعظم کا ایک کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے ملت اسلامیہ کے دل و دماغ میں ایک واضح نصب العین راسخ کر دیا۔ انہوں نے قوم کو پاکستان کا مطلب کیا لا الہ اللہ کے روح پر ورنعروں سے سرشار کر کے عمل میں اتاردیااور پھر اسی طاقت کے بل بوتے پر مسلمان ہندوانگریزوں کے سامنے کوگراں بن گئے جس سے ظلم و استبداد کی ٹکراکردم توڑ گئیں۔
جور کے تو کوہ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر ئے
رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یاد گار بنادیا
آج جب ہم اپنی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ ہم بدقسمتی سے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ قائداعظم علامہ اقبال اور مسلمانان ہند صدق دل سے چاہتے تھے کہ پاکستان ایک جدید اسلامی ریاست کی حیثیت سے اپنے خلاف کی درخشان روایات کو زندگی رکھتے ہوئے عالم اسلام کی قیادت سنبھال لے لیکن افسوس کہ ہم نے اپنہ نا اہلی اور نالائقی سے حصول درکنارقائداعظم کے پاکستان ہی کو دولخت کر دیا۔ اس کی وجوہ یوں توبہت سی تھیں لیکن اس کی بنیاد اور حقیقی وجہ صرف یہ تھی کہ ہم ریاست کے اساسی نظریہ سے عملی طور پر انحراف کرتے رہے ہم نے اسی رسی کو توڑ دیا جس نے قوم کو رنگ و نسل اور علاقئی یا لسانی ضبات کے بجائے اسلام کے رشتہ اخوت میں پرورکھا تھا اور یوں ملت کا شیرازہ بکھر گیا اور ریاست کی بنیادوں سے اسلام کا مرکز ہٹ جانے سے جو خلاف پیدا ہوا اسے پر کرنے کے لیے علاقائی اور لسانی تعصبات نے یلغار کر دی اور حالات مسلسل بگڑتے چلے گئے۔٢٣ مارچ کا یوم پاکستان یوم احتساب بھی ہے اور اگر ہم نے بے لاگ طریقہ سے اپنا احتساب نہ کیا تو ہماری مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ کیوں کہ جو قومیں اپنی کم زوریوں اور غلطیوں سے توبہ کر کے صراط مستقیم اختیار نہیں کرتیں وہ بالآخر قدرت کے اٹل قوانین کی گرفت میں آجاتی ہیں دنیا کی دوسری اقوام جنہوں نے دنیوی زندگی کو ہی اپنی منزل مقصود سمجھ رکھا ہے اور جو خدا اور آخرت کے تصور کو مسترد کر کے صرف دنیاوی زندگی کی عیش و عشرت پر قانع ہو چکی ہیں ان کو کچھ عرصہ کے لیے تو ڈھیل مل سکتی ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے میں ان کو ڈھیل دیے جاتا ہوں میری تدبیر بڑی پختہ ہے۔ لیکن منافقانہ روشن اختیار کرنے والوں کو دنیا میں کبھی زیادہ مہلت نہیں ملتی۔ قرآن میں ہے تم سے پہلے بھی خدا کے احکام و قوانین (سے روگردانی) کے نتائج گزرچکے ہیں پس سیر کرو ملکوں کی اور دیکھوں ان لوگوں کا کیا انجام ہوا جنہوں نے اللہ کے احکام و قوانین کو جھٹلایا تھا (آل عمران137) یہ اللہ تعالیٰ کا مستقل قانون ہے کہ ہر قوم کو مہلت عمل میں دی جاتی ہے اور جب وہ حکومت و اقتدار اور آزادی کی آزمائش میںپورا نہیں اترتی تو یہ نعمت چھین لی جاتی ہے۔ پس جب ہم یوم پاکستان منارہے ہوں تو ہم پیچھے مڑ کر اپنی تاریخ کے مختلف ادوار پر ایک احتسابی نظر ڈالیں اور سوچیں کہ کہاں ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں اور ان غلطیوں سے مزید کیسے بچا جاسکتا ہے اگر ایسا نہیں کریں گے تو ناقابل تلافی نقصان اٹھایں گے جیسا کہ حدیث نبوی ہے کہ مصیبت مومن کی اصلاح کرتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اس بھٹی سے کندن بن کر نکلتا ہے لیکن منافق کی حالت گدھے کی سی ہوتی ہے جو کچھ نہیں سمجھتا کہ مالک نے اسے کیوں باندھا اور کیوں چھوڑ دیا۔ اس وقت ہمارے سامنے بہ حیثیت مجموعی ایک اسلامی جمہوریہ معاشرے کا قیام ہے اور اسلامی جمہوریہ معاشرہ عدل اجتماعی کا دوسرا نام ہے۔ جس میں سود کوری ، جوا، سٹہ ، بازی ، بددیانتی ، لوٹ کھسوٹ ، بے جاسفارش کا نام و نشان نہیں ہوتا اور نہ ہی ایسے معاشرے میں جھوٹ و فریب ، دغابازی مکاری اور اس قسم کے دوسرے اخلاقی جرائم کا گزر ہوتا ہے۔ اس معاشرے میں تعلیم اور انصاف سب کے لیے یک ساں اور عام ہوتے ہیں۔ اس معاشرے میں عزت و احترام کا معیار دولت، عہدہ اور لباس نہیں بل کہ اعلیٰ اخلاقی اوصاف ہوتے ہیں یقین کیجئے کہ تحریک پاکستان کے دوران میں عوام کے سامنے اس آئیڈیل معاشرے کا حصول تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اسلامی جمہوریہ معاشرے کے حصول کے لیے اپنا کردار ادار کرے اور مجموعی طور پر ہم اپنی گزشتہ غلطیوں کی معافی مانگ کر صراط مستقیم پر چلنے کے لیے کمر بستہ ہو جائیں۔
اقبال نے فرمایا ہے
صورت شمشیر ہے دست فضا میںو ہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
ہمارا ملک اس وقت انتہائی صورت حال سے گزر رہا ہے اور کئی ممالک ہمارے خلاف مسلسل سازشیں کر رہے ہیں ایسے میں ہمیں اپنے دوستوں اور دشمنوں کی پہنچان کرنی ہوگی اور اندرونی اختلافات ختم کر کے ان سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا۔
0 28 5 minutes read