کالم

عام انتخابات 2024ء امانت اور تاریخ

دنیا اور آخرت میں سب سے بڑا سوال امانتوں کا ھوگا، کیا اس بات کو ھم ٹٹول سکتے ہیں؟ امانتوں کی کہانی کہاں سے شروع ھوتی ھے؟ یہی سب سے بڑا امتحان ھے، اللہ تعالیٰ نے انسان کے روپ میں پیدا کیا، زندگی دی یہ سب سے بڑی امانت ہے، یہ طے پایا کہ زندگی کی حفاظت اور اس کو بہتر بنانا سب سے بڑی امانت داری ہے، پھر ھمیں مسلمان بنایا، ایمان کی دولت عطا کی اس کی حفاظت ہی اتنی ہی ضروری ہے، آپ کسی منصب پر فائز ھوئے شوہر ہیں یا بیوی، والد یا والدہ ہیں، بہن ہیں یا بھائی ہیں، یہ سارے منصب ہیں جن میں امانت داری اصل عبادت ھے، اس سے نکلتے ہیں تو آپ پر معاشرے، ملازمت، حکمران، منصف، اور اسی طرح بے شمار مناصب کی ذمہ داری آتی ہے اس میں خیانت آپ کی دنیا اور آخرت دونوں کے لیے بربادی کا ساماں ہے، دنیا کی تمام قومیں اسی زمہ داری کو اچھی طرح نبھانے کی وجہ سے ترقی کر رہی ہیں بدقسمتی سے مسلم ممالک میں خیانت کی طویل تاریخ ہے اور جس جس نے خیانت کی آج دنیا ان پر لعنت ملامت کرتی ہے اور آخرت میں بھی غضب کا نشانہ بنے ھوں گے ھم پاکستان میں ھونے والے الیکشن پر نظر ڈال کر دیکھیں تو انتہائی تعجب ھوتا ھے کہ کس طرح لوگ اس امانت میں خیانت کرتے ہیں، پریزیڈنٹ آفیسرز زیادہ تر اساتذہ ھوتے ہیں یا دوسرے سرکاری ملازم ان میں ھزاروں اساتذہ نے نہایت امانت اور دیانت سے کام کیا ھوگا یہ ایک مشکل ڈیوٹی تھی مگر انہوں نے جانفشانی سے یہ ذمہ داری ادا کی، مگر سینکڑوں ایسے ہیں جنہوں نے سارے تالاب کو گندہ کر دیا، جس کی شکایت ہر بندا کر رہا ہے وہ جیتنے والا ھو یا ھارنے والا، آخر الیکشن کمیشن اس پر کب کام شروع کرے گا؟8 فروری کو ھونے والے انتخابات میں بہت سی تاریخی باتیں ھوئی ہیں سب سے پہلے یہ انتخابات گُزشتہ کئی انتخابات سے زیادہ پُرامن تھے جس پر پاک فوج کے جوانوں اور پولیس و رینجرز نے نہایت جانفشانی سے اپنی زمہ داری نبھائی اس پر پاک فوج، رینجرز اور پولیس کے ادارے مبارک باد کے مستحق ہیں، دوسری تاریخی بات کہ انتخابات سے قبل یہ توقع کی جا رہی تھی کہ ٹرن آؤٹ بہت کم ھوگا مگر لوگوں اور خصوصاً نوجوانوں نے انتہائی گرم جوشی سے ووٹ دیا یہاں تک کہ مخالف ترین طبقہ ووٹ سے بدلہ کا نعرہ لے کر گھر سے نکلا ہے، اور خاموشی سے ووٹ ڈال دیا،ایک تاریخی بات یہ بھی سامنے آئی کہ بڑے بڑے بینرز، جلسے اور جلوسوں سمیت الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بمقابلہ سوشل میڈیا ایک مقابلہ دیکھنے میں آیا جس میں سوشل میڈیا نے یہ مقابلہ جیت لیا، تاریخ یہ بھی رقم ہوئی کہ پہلی مرتبہ سب سے زیادہ جیتنے والوں کا تعلق آزاد امیدواروں” سے تھا یہ اس سے قبل کبھی نہیں ھوا، آپ 1970سے آج تک دیکھ لیں آزاد امیدواروں نے سنچری کبھی نہیں بنائی ھوگی اور وہ بھی بیٹ کے بغیر، یہ تاریخ میں بالکل منفرد ریکارڈ بن چُکا ہے، ایک اور تاریخ جلد سامنے آئے گی کہ ووٹ ڈالنے والوں میں خواتین کی تعداد پہلے سے زیادہ تھی، یہ بھی نمایاں ھوا کہ بعض جیتنے والوں کو یقین نہیں آرہا کہ وہ جیت گئے ہیں، سیاسی اور الیکشن مہم پر نظر ڈالی جائے تو سب سے زیادہ منظم مہم جماعت اسلامی کی تھی مگر بدقسمتی سے وہ ایک ادھ سیٹ کے علاؤہ جیت نہیں سکے اس کی اپنی وجوہات ہیں جماعت اسلامی کو اپنی فکر اور سوچ سمیت قیادت میں بڑی تبدیلی لانی ہوگی، جماعت اسلامی سمیت،ن لیگ، پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتوں نے پی ٹی آئی کے ووٹرز اور کارکنان پر اپنے طرف متوجہ کرنے کا موقع بلکہ موقع پرستی کا مظاہرہ بہت کیا تاہم کوئی ایک آدھ فیصد صرف ووٹرز کو اپنی طرف کھینچ سکے، باقی اسی طرح موجود رہے، انہوں نے احتجاج، الیکشن مہم اور خاموشی 8 فروری کے لئے بچا کر رکھی جس کا عملی مظاہرہ ان الیکشن میں سامنے آیا ہے، اس موقع پر جماعت اسلامی اگر پی ٹی آئی کی اتحادی بن جاتی تو بہت کچھ حاصل کر سکتی تھی، قیادت، فکری جمود اور موقع پرستی نے جماعت اسلامی کو مکمل پس منظر میں دھکیل دیا، صرف کراچی میں واحد شخص حافظ نعیم الرحمن اور ان کی ٹیم نے عوامی منشور اور نبض شناسی کی وجہ سے بلدیاتی اور عام انتخابات میں مسلز دکھائے ہیں، البتہ اس انتخاب میں ”ایم کیو ایم واپس پرانی پوزیشن میں آگئی یا لا کر کھڑی کر دی گئی” ھم محض تجزیہ ہی کر سکتے ہیں، دوسری سطح پر منظم انتخابی مہم بلاول بھٹو نے چلائی جس کا انہیں یہ فایدہ ھوا کہ پنجاب، اور خیبرپختونخوا میں کارکنان متحرک ھوئے جو اسی تسلسل سے برقرار رہے تو آئیندہ اچھا مقام پا سکتے ہیں، مسلم لیگ ن کے جلسے، خرچے اور آرہے ہیں، شیر آیا شیر آیا کی کہانی کی طرح شیر تو آگیا مگر شیر بوڑھا ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے وجود خود بے وجود ھوگیا، دیگر جماعتوں میں ق لیگ ایک سیٹ اور جے یو آئی دو تین تک مزید محدود ھو گئی اس کی بڑی وجہ پی ڈی ایم کی حکومت اور ناکام پالیساں تھیں، سیاسی جماعتوں کی مضبوطی اور اس کے اندر جمہوریت زیادہ ضروری ھو گئی جس مقدمے میں پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم ھوئے وہ اب ان پارٹیوں پر لاگو ھوں گے تو کیا ھوگا، پنجاب کا ووٹر مکمل تبدیل ہو چکا ہے، گھر کے افراد، بڑے اور روایتوں کے اسیر اب نوجوانوں کے مرہون منت ہیں جو گھر کے بچے فیصلہ کریں گے وہی مانا جائے گا خود سیاسی پارٹیوں میں دیکھ لیں کیا بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو کی رائے رد ھو سکتی ھے؟ کیا مریم نواز اور ھمزہ شہباز کی رائے کو چھوڑا جا سکتا ہے؟ کیا مولانا اسد ارحمن کی رائے کا احترام نہیں کیا جائے گا؟ کیا ایمل ولی خان کے آگے اسفندیار ولی کی چل سکتی ہے؟ ایسے ہی پندرہ کروڑ چھیاسی لاکھ نوجوانوں کے آگے کسی کی نہیں چل سکتی یہی تاریخ رقم کریں گے وہ بھی اپنی مرضی سے، تمام سیاسی جماعتوں، اداروں، سیاسی رہنماؤں اور بڑوں کو یہ سوچنا ھوگا کہ کیسے آگے بڑھیں گے، وہ بات بالکل سچ ثابت ھو رہی ہے کہ” جوانوں کو پیروں کا استاد کر” یہ نہ کیا گیا تو پھر ناکامی مقدر بنتی جائے گی، 1970ء کی طرح ھمارا آج پھر ھمارا ایک امتحان ھے، کیا فیصلے کس طرح کرنے ہیں، الیکشن کی شفافیت، اور تاخیر پر اٹھنے والے سوالات کے جوابات دینے ھوں گے، اور اس نازک صورتحال سے سب کو سیکھنا ہوگا انا، انتقام اور ذاتی جنگ کی بجائے اس تاریخ کو ماضی کی تاریخ میں دیکھنا اور آگے بڑھنا ہوگا،
سب کے مینڈیٹ اور حثیت کو تسلیم کر کے سیاسی میدان میں شکست دینی ھوگی، اس طرح امانت کو سر عام روند کر آگے نہیں بڑھا جا سکتا، امانت بہت بڑا تقاضا کرتی ہے کہ درست سمت بڑھا جائے، یہاں سے ذرا بھی ھم پھسل گئے تو کھائی اب بہت گہری ھو چکی ھے واپسی ممکن نہیں ھوگی، بروقت فیصلے، فاصلے مٹا دیتے ہیں،

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button