وہی ہوا جس کی پیش گوئی کی جا رہی تھی۔ عمران خان کو ایک دن دس سال قید بامشقت کی سزا سائفر ریفرنس میں سنائی گئی تو دوسرے دن توشہ خانہ کیس میں انہیں 14برس کی سزا دے دی گئی۔ پہلی سزا میں ان کے پارٹنر شاہ محمود قریشی تھے جو شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری میں پھنس گئے۔ سائفر کو لے کر کھیلنے کی کامیاب کوشش میں شاہ محمود نے عمران خان کا پورا پورا ساتھ دیا تھا۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ شاہ محمود دانستہ عمران خان کو بند گلی میں لے جا رہے تھے۔ مبینہ طور پر وہ اپنے چیئرمین کو جیل میں پہنچا کر پارٹی پر خود قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ اس کی ایک جھلک گزشتہ مئی میں عمران خان کی گرفتاری کے وقت بھی نظر آئی تھی۔ جب قریشی صاحب نے خان کے بعد خود کو پارٹی کا مائی باپ قرار دیا تھا۔ عمران خان نے تب ہی انہیں شٹ اپ کال دے دی تھی اور اپنے بعد بشریٰ بی بی کو پارٹی کا سربراہ ڈکلیئر کیا تھا۔ عمران خان کی رہائی کے بعد شاہ محمود قریشی نے زمان پارک میں ان سے طویل ملاقات کی تھی مگر اپنے قائد کا اعتماد جیتنے میں کامیاب نہ ہو سکے تھے۔ اس وقت عمران خان انہیں ”ادھر” کا آدمی سمجھ رہے تھے۔ قریشی سیدھاملتان چلے گئے تھے اور کافی لمبی خاموشی اختیار کر لی تھی۔ تب عمران خان اپنے کارکنوں کی ریڈ لائن ہوا کرتے تھے۔ ملک کے ہر گوشے سے کارکن ان کی ”حفاظت” کے لیے زمان پارک پہنچتے اور رات رات بھر جاگ کر پہرہ دیتے تھے۔ یہ لوگ جان ہتھیلی پر لیے پھرتے تھے۔ انہوں نے باقاعدہ تربیت یافتہ لوگوں کی طرح پولیس مقابلے کیے۔ پولیس کو پسپا کیا۔ پولیس کے جوانوں پر لاٹھیاں برسانے کے علاوہ ان پٹرول بموں سے حملہ کیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب بین الاقوامی سطح پر پی ٹی آئی کے بطور سیاسی جماعت امیج میں دراڑ پڑی اور اسے ایک دہشت گرد جماعت کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ پولیس نے اپنے جوان اور افسران زخمی کروانے کے باوجود حوصلے اور صبر سے کام لیا۔ پہلی سزا سے اگلے ہی دن یعنی 31 جنوری کو عمران خان کو توشہ خانہ ریفرنس میں 12 سال سزا کے ساتھ ایک ارب 87 کروڑ روپے جرمانہ بھی ہو گیا۔ اب کے ان کا مبینہ ”کرائم پارٹنر” تبدیل ہو گیا۔ بشریٰ بی بی کو بھی شریکِ جرم قرار دیتے ہوئے 12 سال کی سزا سنا دی گئی۔ چند ہفتوں سے یہ بات تواتر کے ساتھ کہی جا رہی تھی کہ عمران خان کو فروری سے پہلے سزا ہو گی۔ وہی ہوا، فروری سے پہلے عمران خان کو ساتھیوں سمیت لمبی سزائیں ہو گئیں۔ عمران خان کی سزائوں کے بعد مریم نواز شریف کے الفاظ تاریخی اہمیت اختیار کر گئے ہیں جو عمران حکومت کے خاتمے کے بعد وہ ہر جلسے میں کہا کرتی تھیں کہ ”اس وقت تک الیکشن قبول نہیں کئے جائیں گے جب تک ترازو کے دونوں پلڑے برابر نہیں ہوں گے”۔ دیکھا جائے تو آج ترازو کے دونوں پلڑے برابر ہو گئے ہیں۔ 2018 کے انتخابات سے باہر رکھنے کے لیے میاں نواز شریف کو پانامہ میں سے اقامہ نکال کر سزا دی گئی تھی۔ ان کی بیٹی مریم نواز کو پبلک آفس ہولڈر نہ ہوتے ہوئے بھی سزا دی گئی۔ الیکشن سے پہلے عمران خان کی خواہش پر دونوں باپ بیٹی کو جیل میں ڈالا گیا۔ آج وقت کا پہیہ گھوما ہے تو اوپر والی سائیڈ نیچے اور نیچے والی سائیڈ اوپر آ چکی ہے۔ نواز شریف آج آزاد ہیں۔ وہ زور شور سے اپنی انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ عمران خان اپنی بیگم سمیت جیل کے اندر ہیں۔ 2018 میں پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدواروں سے ٹکٹ واپس دلوائے گئے تھے۔ آج پی ٹی آئی کے امیدوار ایسا کر رہے ہیں۔ دیوار پر لکھا سب کو نظر آ رہا ہے کہ 8 فروری کے انتخابات کے بعد میاں نواز شریف ممکنہ طور پر چوتھی مرتبہ وزیرِ اعظم بننے جا رہے ہیں۔ البتہ رواج کے مطابق عمران خان کو تھوڑا سا زیادہ نیوندرا ڈالا گیا ہے۔ ان کی پارٹی ”ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے” کی عملی تفسیر بنی ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی وجود رکھنے کے باوجود اپنا وجود کھو چکی ہے۔ وہ اپنی حقیقی لیڈرشپ سے بھی محروم ہو چکی ہے۔ اس کے امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کا ریکارڈ گواہی دیتا ہے کہ سب سے زیادہ اس پارٹی کے ممبرانِ اسمبلی اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں۔ اب تو ان کے راستے میں قانونی رکاوٹ بھی نہیں ہے۔ عمران خان جس المناک انجام سے دوچار ہوئے ہیں اس کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔ سیاست شدت پسندوں کا کام ہی نہیں ہے۔ سیاست میں امکانات کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ سیاست میں مفاہمت کے دروازے کبھی بند نہیں کئے جاتے۔ عمران خان ڈائیلاگ پر یقین نہ رکھنے والے سیاستدان ہیں۔ اقتدار کے دنوں میں ان کا تکبر آسمان پر پہنچ گیا تھا۔ وہ اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ مذاکرات کرنے سے ہمیشہ انکاری رہے۔ وہ انہیں کرپٹ کہہ کر دھتکارتے تھے۔ آج وہ خود بھی کرپشن میں سزا یافتہ ہیں اور ان کی بیگم بھی۔ اچھے دنوں کے ساتھی ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ اقتدار کے گُڑ کے خاتمے کے ساتھ ہی مکھیاں بھی کسی دوسرے گڑ کی تلاش میں اڑ گئی ہیں۔ ان کے پرانے ساتھی جہانگیر ترین نے ان کی سزا پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ”سزا ہو تو دکھ ہوتا ہے۔ کوئی غیرقانونی کام کرنا ہی نہیں چاہیے”۔ ان کی ایک اور سابق ساتھی فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ ”سائفر کیس میں عدالت نے ملک دشمنوں کا انجام بتا دیا”۔ آج عمران خان کے پرانے ساتھی انہیں چھوڑ گئے ہیں۔ نئی لیڈرشپ پارٹی کے بجائے ذاتی الیکشن کی کمپین تک محدود ہے۔ عمران خان کو اتنا شاندار عروج ملا تھا مگر وہ اپنی عاقبت نا اندیشی، غیرسیاسی رویے اور ذاتی انتقام کے جذبے سے مغلوب ہو کر اسے سنبھال نہ پائے۔ رہی سہی کسر ان کے اپنے جمع کیے ہوئے نااہل اور خودغرض مشیروں نے پوری کر دی۔ یہ مقامِ عبرت ہی نہیں، اس میں سمجھنے والوں کے لیے نشانیاں بھی ہیں۔ اقتدار ہمیشہ نہیں رہتا۔ سدا بادشاہی اللّٰہ تعالیٰ کی ہے۔ اس کے دیے ہوئے اقتدار کو امانت سمجھنے والے ہی سرخرو ٹھہرتے ہیں۔
صبح کے تخت نشیں شام کے مجرم ٹھہرے
ہم نے پل بھر میں مقدر کو بدلتے دیکھا
0 51 4 minutes read