کالم

ایرانی حملہ،حماقت و خجالت کے سواکچھ نہیں

تین روز کی سخت کشیدگی کے بعد پاکستان اور ایران کے تعلقات بہتری اور مکمل بحالی کی جانب گامزن ہیں۔دونوں ممالک نے اپنے اپنے سفیروں کو واپس پہنچنے کو کہاہے ۔ 29جنوری کو ایران کے وزیرِ خارجہ ممکنہ دورے پر پاکستان پہنچ رہے ہیں۔یہ کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب ایران نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان پر میزائلوں سے حملہ کیا جس میں دو بچیاں شہید اور تین بچیاں زخمی ہوئیں۔ایران کی طرف سے ایک دوست برادر اسلامی پڑوسی ملک کے خلاف بلا اشتعال جارحانہ کاروائی انتہائی غیر مناسب اور ننگی جارحیت کہی جا سکتی ہے۔ یہ کاروائی یوں بھی قابلِ مذمت ہے کہ پاکستان اور ایران کے مابین اچھی ہمسائیگی کے تعلقات قائم ہیں اور رابطے کے کئی چینلز موجود ہیں۔جب یہ افسوس ناک واقعہ ہوا اس سے دو گھنٹے پہلے ایرانی وزیرِ خارجہ اور پاکستان کے عبوری زویر اعظم کے درمیان ڈیووس میں ملاقات ہوئی،اسی وقت پاکستان نیوی اور ایرانی نیوی آبنائے ہُرمز میں مشترکہ مشقیں کر رہی تھیں اور ہاٹ لائن وسفارتی ذرائع موجود تھے ۔پاکستان نے ایرانی بلا اشتعال حملے پر ایرانی سفارت کار کو وزارتِ خارجہ میں طلب کر کے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا اور پاکستانی سفیر کو پاکستان بلوا لیا۔ایران کی جانب سے پہلے روز مثبت ردِ عمل سامنے نہ آیا۔ایران کا کہنا تھا کہ اس نے بلوچستان میں جیش العدل کے دو ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔کوئی پاکستانی بھی ایران کو دشمن ملک نہیں گردانتا لیکن ایران کی اس ننگی جارحیت کی بالکل بھی حمایت ممکن نہیں۔
پاکستان نے احتجاج کے بعد حوصلے سے انتظار کیا کہ ایران کی جانب سے غلطی کا اعتراف ہو اور دوستی کا ہاتھ بڑھے لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ ایرانی وزیرِ خارجہ نے اپنے پہلے بیان میں کہا کہ ایسی کاروائی آئندہ بھی ہو سکتی ہے۔ایسے میں پاکستان نے ایران کے ساتھ تمام اعلیٰ سطحی رابطے معطل کر دئے لیکن احتیاط کا دامن تھامے رکھتے ہوئے سفارتی تعلقات منقطع نہیں کئے۔چونکہ مثبت جواب نہیں آ رہا تھا تو انتہائی جچے تلے انداز میں جواب دینے کا فیصلہ کیا گیا اور ایرانی صوبہ بلوچستان و سیستان کے اندر بی ایل اے اور بی ایل ایف کے سات ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔پاکستان کا حملہ اتنا موئثر تھا کہ بی ایل اے اور بی ایل ایف نے تسلیم کیا کہ ان کے لوگ مارے گئے۔اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ ایران نے بلوچ شر پسندوں و علیحدگی پسندوں کو اپنے ہاں جگہ فراہم کر رکھی ہے۔پاکستانی افواج خاص کر پاکستانی ایئر فورس کی پروفیشنل صلاحیت لائقِ تحسین ہے۔کامیاب حملے کی تمام تر ذمہ واری افواجِ پاکستان کے سر ہے۔بھارت نے جب رات کے اندھیرے میں پلوامہ کا بہانہ بناتے ہوئے پاکستان پر غیر کامیاب حملہ کیا تھا تو یہ پاکستان ایئر فورس ہی تھی جس نے بھارت کے دو جہاز مار گرائے اور ایک پائلٹ ابی نندن کو دبوچ لیا۔ اگلے روز بھارتی ٹھکانو ں کو بھی نشانہ بنا کر اپنی برتری کا واضح پیغام دیا۔اب کی بار بھی پاکستان ایئر فورس نے ایران کے دانت کھٹے کئے۔
پاکستان کی سلامتی کو کئی ایک چیلنجز درپیش ہیں۔ہماری معیشت تباہ حال ہے سیاسی افراتفری چھائی ہوئی ہے۔ہم ایک ایسی قوم ہیں جو باہم دست و گریباں ہے۔افغان جنگ نے پاکستانی معیشت اور معاشرت پر برے اثرات مرتب کئے ہیں۔افغان طالبان کے کابل میں دوبارہ اقتدار سنبھالنے سے یہ امید پیدا ہو چلی تھی کہ پاکستان کو افغان سرحد پر امن نصیب ہو گا لیکن افغان رویے نے بہت مایوس کیا۔افغان طالبان نے ٹی ٹی پی دہشت گردوں کو اپنے ہاں پناہ گاہیں مہیا کیں اورپاکستان کے اندر دہشت گرد کاروائیاں کرنے کی کھلی چھٹی دی۔پاکستان پولیس اور پاکستان ایئر فورس کے اڈے خاص طور پر دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں،ایسے میں پاکستانی افواج اس محاذسے فارغ نہیں ہو سکتیں۔بھارت کے ساتھ پاکستان کا ایک لمبا بارڈر ہے۔جموں و کشمیر میں سیز فائر لائن پر قدرے امن ہے لیکن مئی میں بھارت میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔پاکستانی انتخانات میں بھارت کبھی ایک ایشو نہیں رہا لیکن بھارت کی اکثر سیاسی پارٹیاں خاص کر بی جے پی اپنے ووٹ بنک کو بڑھانے کے لئے پاکستان پر الزام تراشی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔اگر صرف الزام تراشی سے کامیابی یقینی نہ نظر آئے تو سرحد پر اشتعال انگیزی شروع ہو جاتی ہے۔بھارت نے ویسے بھی کبھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا اس لئے اس محاذپر ہمیں ہر وقت چوکس رہنا پڑتا ہے۔We can not afford to lower our guard on this front.
کسی پاکستانی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا کہ رات کے اندھیرے میں ایران،پاکستان پر حملہ کر دے گا۔جب پاکستان نے بہت جچا تلا لیکن انتہائی موئثر جواب دیا تو ایران کی طرف سے مثبت پیغام آنے لگے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایران نے ایسا کیوں کیا۔اس کی بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ایران نے پاکستان پر حملے سے پہلے شام اور عراق میںکئی ٹھکانوں پر حملہ کیا۔شام اور عراق دونوں ایران کے قریبی شیعہ دوست ممالک ہیں۔ایران کا شام عراق اورپھر پاکستان پر حملہ کسی شدید دبائو کا نتیجہ لگتا ہے۔ایرانی انقلاب کے چند ہی مہینوں میں انقلاب کو محفوظ رکھنے کے لئے ایرانی پاسدارانِ انقلاب کا قیام عمل میں لایا گیا۔یہ پاسداران انقلاب،ایرانی سپریم لیڈر کے علاوہ کسی کو جواب دہ نہیں ہیں۔یہ ایرانی سیاسی حکومت کو رپورٹ نہیں کرتے۔ان کی کاروائیاں ایرانی افواج اور ایرانی حکومت کی منظوری کے تابع نہیں۔انہوں نے انقلابِ ایران کو محفوظ کرنے کے لئے ایران سے با ہراور خاص کر قریبی اسلامی ممالک میں اپنا ایک نیٹ ورک بچھا رکھا ہے۔ان کے پاس جدید ترین ہتھیار اور ٹیکنالوجی ہے۔فنڈز کی ان کے پاس کوئی کمی نہیں۔ان کے عزائم بہت بلند ہیں یہ ایرانی اسٹیبلشمنٹ اور ڈیپ سٹیٹ ہیں۔جس طرح سات اکتوبر کو حماس کے ملٹری ونگ نے اسرائیل پر اپنی سیاسی قیادت کو بتائے بغیر حملہ کیا بالکل اسی طرح پاسدارانِ انقلاب اپنی حکومت کو بتائے بغیر کاروائیاں کرتے ہیں اور ان کی لاج رکھنے کے لئے ایرانی منتخب حکومت ان کاروائیوں کو سپورٹ اور جواز مہیا کرنے لگتی ہے۔یہ ایرانی حکومت کی مجبوری ہے۔
جنرل قاسم سلیمانی پاسداران کے بہت بڑے ہیرو تھے۔انہوں نے عراق،شام لبنان یمن ،پاکستان اور عرب ممالک میں اپنے Assetsپیدا کر رکھے تھے۔جنرل قاسم سلیمانی کا قتل،ایران کے سب سے اعلیٰ نیوکلر سائنسدان کا قتل، اسرائیلی موساد کاتہران کے انتہائی نگہداشت والے دفتر سے ایٹمی راز والی فائلوں کا اڑا لے جانا اور جنرل قاسم سلیمانی کی برسی پر دو دھماکوں کے نتیجے میں کم از کم 95افراد کا مارا جانا اور211کا زخمی ہونا،ایرانی انٹیلی جنس اور پاسداران کے لئے بہت بڑی Embarrasmentبن گئی تھی۔ایران نے اسرائیل کو دھمکیاں دی تھیں کہ اگر اس نے حماس کے خلاف جنگ بند نہ کی تو اسرائیل کے لئے بہت برا ہوگا۔اسرائیل نے جنگ اور فلسطینیوں کا قتلَ عام جاری رکھااور ایران نے کچھ بھی نہیں کیا۔ایران نے غزہ کی پٹی کو ذبح ہونے کے لئے چھوڑ دیا جس سے پاسداران کی قلعی کھل گئی۔ ان کے اوپر ایک انتہائی غیر موئثر اور بے وقعت فورس ہونے کاٹھپہ لگ گیا۔ایسے میں پاسداران انقلاب نے اپنے آپ کو منوانے اوراپنی طاقت دکھانے کے لئے عراق اور شام پر حملہ کر دیا۔ حملوں کی کامیابی پر پاسداران عقل کا دامن چھوڑ بیٹھے اورمزید آگے بڑھ کر پاکستان کو بھی نشانہ بنا ڈالا
۔وہ یہ بھول گئے کہ پاکستان عراق یا شام نہیں۔پاسداران امریکہ اور اسرائیل کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ دیکھ لو اگر ہمارے میزائل اور ڈرون اتنے دور پہنچ رہے ہیں تو یہ تل ابیب اور گلف میں امریکی اڈوں کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔اگر ایرانی اقدام شام اور عراق تک محدود رہتا تو ایرانی پیغام موئثر ہوتا لیکن پاکستان پر حملے کے نتیجے میں پاکستان کے بھرپور جواب نے سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ثابت ہو گیا کہ اگر پاکستان ایران کو منہ توڑ جواب دے سکتا ہے تو امریکہ اور اسرائیل کی مشترکہ قوت کے آگے کیا ٹھہرے گا۔ایران نے پاکستان پر حملہ کر نے کی حماقت کر کے خجالت کے سوا کچھ نہیں سمیٹا۔خواہ مخواہ ایک دوست مسلمان ملک کو خفا کیا ، پاکستان میں اپنے حمایتیوں کو کھویا،جگ ہنسائی کروائی اور اپنی ساکھ گنوائی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button