کالم

بے نظیر بھٹو۔۔کی سالگرہ پر ۔۔پاکستان کا اعزاز

قارئین!21جون 1953ء کو محترم ذوالفقار علی بھٹو کے گھر ایک بچی تولد پذیر ہوئی۔کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ سر شاہنواز کی پوتی اور ذوالفقار علی بھٹو کی یہ ننھی منی بچی بڑی ہو کر پہلی مسلم خاتون وزیر اعظم کا اعزاز حاصل کرے گی،اور یہ توبی بی کی شہادت سے دو منٹ قبل کسی کے ذہن کے کسی گوشے میں نہیں تھا کہ یہ بہادر عورت سب دنیاوی fascilitiesہونے کے باوجود اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستانی عوام اور پاکستان کی ترقی کے لئے شہادت کا رتبہ حاصل کرے گی۔
قارئین! بی بی کو ہم سے بچھڑے 14برس بیت گئے لیکن یوں لگتا ہے یہ کل کی بات ہو،لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ محترمہ کے قاتل ابھی تک کیفر کردار تک نہ پہنچ سکے۔ محترمہ بینطیر بھٹو کو چاہنے والوں کے لئے یہ دائمی دکھ ہے کہ ان کے قتل کے محرکات تا حال دنیا کی نگاہوں سے اوجھل ہیں۔حالانکہ وہ تیسری دنیا کی سب سے بڑی لیڈر تھی،لیکن شو مئی قسمت اور ہمارے معاشرتی اور عدل و انصاف کے اداروں پر یہ حرف تا قیامت کلنک بنا رہے گا جب تک محترمہ کے قاتلوں کا سراغ نہیں مل جاتا۔ وہ کوئی عام خاتون نہیں تھی جن کی موت محض ایک گھرانے یا ایک کنبے کو متاثر کر گئی بلکہ ان کی موت سے نہ صرف پاکستان ایک عظیم سیاسی خلاء کا شکار ہوا بلکہ تیسری دنیا ایک عظیم اور مدبر سیاستدان سے محروم ہو گئی۔محترمہ کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے جس میں انہوں نے امت مسلمہ کے لئے بالعموم اور پاکستانیوں کے لئے بالخصوص ایسے نقش چھوڑے ہیں جو تا قیامت انسانیت کے لئے مشعل راہ رہیں گے۔اور ان کا مشہور و معروف قول,,جمہوریت بہترین انتقام ہے،،ان کے فکری اور ذہنی پختگی کا غماز ہے۔ شہید چئیرمین ذوالفقار علی بھٹو چونکہ نبض شناس شخصیت کے مالک تھے ،وہ بی بی کے بچپن میں اکثر نجی محفلوں میں کہا کرتے تھے کہ میری بیٹی اندرا گاندھی سے بڑی سیاستدان بنے گی اور تاریخ گواہ ہے کہ بھٹو صاحب کی پیشن گوئی حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔محترمہ کی زندگی کے اکثر پہلو منفرد اور مثالی تھے۔ صبر و تحمل،برد باری،سیاسی رواداری اور دوسروں کی عزت نفس کا خیال رکھنا ان کے بے مثال اوصاف میںشامل تھے۔اب ان کے جانشین بلاول بھٹوکو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوں گے اور محترمہ کے ادھورے مشن کی تکمی کرنا ہوگی،تب ہی جا کر وہ اچھا بیٹا اور پارٹی کے چئیرمین کے ساتھ ساتھ بی بی کی روح کو تسکین دینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ویسے بھی بلاول بھٹو کی تربیت چونکہ اس عظیم عورت کی آغوش میں ہوئی اس لئے یہ یقین کیا جا سکتا ہے کہ وہ ملک و قوم اور نظریہ ء ذوالفقار کے حقیقی وارث ثابت ہو سکتے ہیں۔اگر پاکستانی سیاست میں غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے کہ کس سیاستدان نے بغیر کسی لالچ اور ذاتی مفاد کے عوام کی خدمت اور پاکستان کی ترقی کے لئے کام کیا تو ان میں محترمہ بے نظیر بھٹو کا نام مورخ نہ چاہتے ہوئے بھی سنہری حروف سے لکھنے پر مجبور ہو گا۔کسی کو کیا پتہ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو ننھی منی بچی جسے پنکی کہتے تھے وہ دنیا میں دختر مشرق بن جائے گی۔ بھٹو صاحب کہا کرتے تھے کہ ،، میری بیٹی اندرا گاندھی سے بڑی لیڈر بنے گی،،۔ ان کی یہ بات کس قدر سچ ثابت ہوئی کہ پنکی نے نہ صرف پاکستان کی سیاسی تاریخ اور رویوں کو نئی جہت عطا کی بلکہ مغربی ممالک اور پورے عالم میں سیاست کے افق پر چوہدویں کا چاند بن کر ابھری۔بھٹو صاحب کی پنکی نے پاکستان کو دنیا بھر میں متعارف کروایا اور جمہوریت کی خاطر اپنی جان قربان کر ڈالی۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان آ رہی تھی ،تو غیر ملکی ایجنسیوں نے انہیں خطرات سے آگاہ کر دیا تھا کہ پاکستان میں حتیٰ کہ آپ کی جان بھی جا سکتی ہے۔ لیکن بھلا قائد عوام کی بیٹی عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر کیسے اپنے باپ کے نقش قدم پر نہ چلتی۔ محترمہ نے بغیر کسی خطرے کی پرواہ کئے علیٰ الا علان یہ کہا تھا کہ وہ پاکستانی عوام کی خاطر اپنی جان قربان کر سکتی ہیں ،مگر ان پر ظلم و ستم ہوتا نہیں دیکھ سکتیں۔بھٹو صاحب کی ننھی پنکی اندرا گاندھی سے تو واقعی بڑی سیاسی لیڈر بنی لیکن ظالموں نے پاکستان کی ترقی کو برداشت نہ کیا اور انہیں بھی ان کے باپ کی طرح نا کردہ گناہ کے جرم کی پاداش میں شہید کر دیا۔ بی بی کو جسمانی طور پر تو بیوقوفوں نے مار ڈالا ،لیکن لوگوں کے دلوں سے ان کی عقیدت شائد کبھی بھی نہ ختم ہو سکے۔بی بی 21جون 1953ء کو سندھ میں پیدا ہوئیں۔ آپ نے ابتدائی تعلیمLady Jennings Nursery School اور Convent of Jesus and Mary سکولز کراچی سے حاصل کی۔بعد میں انہیں مری کے ایک دارےJesus and Maryمیں داخل کروایا گیا۔دو سال تک انہوں نے Rawalpindi Presentation Convent میں بھی تعلیم حاصل کی۔انہوں نے پندرہ برس کی عمر میں او لیول پاس کیا اور ہاورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔انہوں نے ہاورڈ یونیورسٹی سے سیا سیات میں ماسٹر کیا اور پھر وہ آکسفورڈ میں داخل ہو گئیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی سے بے نظیر بھٹو نے معاشیات،فلسفہ اورسیاسیات میں ایم اے کیا۔ بی بی آکسفورڈ کی مقبول ترین پاکستانی نژاد طالبہ تھیں۔بے نظیر بھٹو 1977ء کو برطانیہ سے پاکستان آئیں۔لیکن ان کے پاکستان پہنچتے ہی دو ہفتوں کے اندر ضیاء الحق نے بھٹو صاحب کو جیل بھیج دیا اور ملک میں مارشل لاء لگا دیا اور ساتھ ہی ساتھ محترمہ کو بھی نظر بند کر دیا۔اپریل 1979ء میں قتل کے ایک متنازعہ کیس میں سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنا دی۔ اس کے تین برس بعد تک ملک میںضیاء کا مارشل لاء برقرار رہا اور پھر جنرل ضیاء کی ایماء پر ہی جمہوری ڈرامہ رچایا گیا۔یہ جمہوریت کو بحال کرنے کی پہلی کاوش تھی جو محترمہ نے غلام مصطفیٰ کھر کے سپرد اے آر ڈی کا اتحاد بنا کر 1981ء میں شروع کی۔ غلام مصطفی کھر اس کاوش سے دستبردار ہو گئے لیکن لوگوں نے اپنے طور پر بحالی جمہوریت کے لئے کاوشوں میں کمی نہ آنے دی۔1983 ء میں بی بی کو جیل سے رہا کر کہ جلا وطن کر دیا گیا۔بی بی جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے بعد 1986ء میںکراچی اائر پورٹ میں ان کا فقید المثال استقبال ہوا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button