آزاد کشمیر جسے عرف عام میں آزادی کا بیس کیمپ کہا جاتا ہے ماضی قریب میں برطانیہ یورپ اور امریکہ سے جب پارلیمانی وفود کو مظفرآباد براستہ اسلام آباد کا دورہ کروایا جاتا رہا ہے تو ائیرپورٹ سے سیدھا پروٹوکول میں لے جا کر اسلام آباد کے سیون اسٹار ہوٹل سرینا میں ٹھہرایا جاتا رہا ہے وہاں پر کشمیر کی مناسبت سے کوئی چھوٹی موٹی تقریب یا سیمنار منعقد کروا کر گھنٹوں انگریزی میں انہیں تقریریں سنائی جاتی تھیں ارباب اختیار سے ملاقاتیں، مار گلہ اور گرد و نواح کی سیر کروائی جاتی پھر مظفرآباد لیجایا جاتا جہاں وہ ریاستی مہمان یا سٹیٹ گیسٹ ہوتے صدر اور وزیراعظم سے ملاقات اور پرل کنٹینٹل ہوٹل میں ان کے طعام اور رہاہش کا انتظام وانصرام ہوتا مظفر آباد میں قائم ہندوستان کے قبضے سے آنے والے مقبوضہ کشمیر کے مہاجرین کے کیمپوں کا دورہ کروایا جاتا ان کو مسئلہ کشمیر پر بریفنگ دی جاتی اور انہیں وہی پرانی لکھی ہوئی رٹی رٹائی باتیں سنوائی جاتی جنکا نہ کوئی مقصد ہوتا اور نہ اس کا آزادی کے لائحہ عمل مرتب کرنے کا۔ ہمارا پورا میڈیا انکی شہ سُرخیوں سے کوریچ کرتا وقتاً فوقتاً حکومت پاکستان انکو مسئلہ کشمیر کو بیرون ملک اجاگر کرنے پر قومی ایوارڈز سے بھی نوازتی رہی ہے لیکن افسوس کہ اس کا کوئی نتیجہ کشمیریوں کے یا پاکستان کے مفاد یا حق میں نہیں نکلا۔ دوسری جانب سرکاری خرچے پر آزاد کشمیر کے ممبران اسمبلی وزراء وزیراعظم اور صدر جب برطانیہ یورپ اور امریکہ میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے نام پر جاتے تو انکی وہاں کے مقامی اداروں اور میڈیا میں کوئی سرگرمی نہیں ہوتی اپنے ہی لوگوں اور برادریوں کو جمع کرکے مسئلہ کشمیر پر تقریری جگالی کرتے پھر وہ تقریریں آزاد کشمیر کے ڈاک اڈیشنوں میں شائع ہوتیں جنکی شہ سرخیاں کچھ اس طرح ہوتیں ‘میں مودی کو گھس کر ماروں گا ”اگلا یوم آزادی ہم سرینگر میں منائیں گے ”
آزاد کشمیر کے بڑے شہروں سے پروازیں امریکہ اور یورپ میں شروع کریں گئے ”’سوئی گیس فری دیں گے” کشمیر کو سوئزرلینڈ بنا دیں گے آزادکشمیر گرین اور سکلڈ بنائیں گے وغیرہ وغیرہ حقیقت حال یہ ہے کہ ہم نے کشمیر پر یہ سارا کچھ کرکے پیسہ اور وقت ضائع کیا 5 اگست 2019 سے کشمیر پالیسی گوں مگوں کا شکار ہے جنرل باجوہ کی صحافیوں سے ملاقات اور کشمیر پر قومی پالیسی پر یوٹرن کی خبریں کشمیریوں میں بے چینی اور شکوک وشبہات جنم لے رہی ہے اس پر حکومت پاکستان کو جتنا جلد ہوسکے اپنی پالیسی کو وضع کرنا چاہئے کہ ان خبروں میں کتنی صداقت ہے آزاد کشمیر کے حوالے سے یہ خبریں بھی گردش کررہی ہیں کہ کوئی ربڑ سٹیمپ نما وزیراعظم بٹھایا جائے جس سے آزاد کشمیر کے حصے بخرے کئے جائیں وہ علاقے جو پنجاب سے ملتے ہیں انہیں پنجاب میں ضم کیا جائے اور وہ علاقے جو خیبرپختونخوا سے ملتے ہیں انہیں خیبرپختونخوا میں شامل کرلیا جائے ایسا اگر کوئی منصوبہ پائپ لائن میں ہے تو حکومت پاکستان کو کشمیری قوم کو اعتماد میں لینا چاہیئے میرا مشورہ ہے کہ ایسا کوئی ایڈونچر ہوا تو یہ پوری کشمیری قوم کے لئے ناقابل تسلیم ہوگا ہونا تو یہ چاہیئے کہ نہ ہی ہمیں کشمیر پالیسی پر جنرل باجوہ ڈاکٹرائن کو خاطر میں لانا چاہیے اور نہ ہی آزاد کشمیر کے حصے بخرے کرنے چاہیئے کشمیر ایک وحدت اور حقیقت ہے آزادکشمیر ایک اکائی ہے جس کو زیادہ سے زیادہ داخلی خودمختاری دی جائے یہاں کوشش کرنی چاہئے کہ ٹورازم انڈسٹری کو فروغ دیا جائے منگلا ڈیم کے چاروں اطراف سیاحوں کے لئے ریسوٹ کھولے جائیں پورے پنجاب سے سیاح یہاں آئیں میرپور چکسواری تک ریلوے لائن بچھائی جائے یہ امر قابل افسوس ہے کہ آزاد کشمیر پورے میں ایک فٹ بھی ریلوے لائن نہیں پورے آزاد کشمیر میں ایک بھی ائیرپورٹ نہیں میرپور کوٹلی کے لوگوں کو یہ سہولت تو دیں کہ وہ بیرون ملک سے اپنے گھروں کو جاسکیں ضلع کوٹلی کی بات کریں تو میں نے حال ہی میں مارچ میں یہاں کا سفر کیا یہاں چڑھوئی پنجن جہاں پر صوفی بزرگ میاں محمد بخش نے سیف الملوک لکھا یہ ایک تاریخی جگہہ ہے انکے عقیدت مند کروڑوں میں ہیں انکو یہاں لانے کے لئے سہولیات دی جائیں ہوٹل بنائے جائیں یہاں تھروچی کا تاریخی قلعہ بھی ہے کوٹلی کھوئی رٹہ وادی بناہ، تتہ پانی اور نکیال یہ اتنے خوبصورت علاقے ہیں یقین جانیے میں کوئی چھ دفعہ سوئزرلینڈ گیا ہوں وہاں سے بھی زیادہ یہ علاقے ڈویلپ کرکے ہم اپنی آمدن بڑھا سکتے ہیں مقامی افراد کو ملازمتیں دے سکتے ہیں کوٹلی شہر کے مقامی لوگوں نے اپنے بہت سے مسائل کا ذکر بھی کیا اس شہر کا بڑا مسئلہ صاف پینے کے پانی کی عدم دستیابی ہیمیرپور کی طرح کوٹلی واٹر سپلائی سیکم بھی بیوروکریسی اور سیاسی قیادت کی کرپشن کی نزر ہو گی ہے شہر کے گٹر کا پانی اور کوڑا کرکٹ دریائے پونچھ میں ڈالا جاتا ہے جس سے ماحول میں آلودگی اور بیماریاں بڑھ رہی ہیں اسی طرح آزاد کشمیر کے جنگلات کاٹ کر لکڑی بلیک میں فروخت کی جارہی ہے
اگر آزاد کشمیر کے دیگر اضلاع کی بات کریں تو راولاکوٹ تولی پیر خوبصورت علاقہ ہے باغ کی پہاڑیاں مظفرآباد اور وادی نیلم تک ٹورازم کو فروغ دیا جائے تو آزاد کشمیر پاکستان کا انتظامی یا دفاعی یونٹ نہیں بلکہ ایک پورا ملک ہے جو اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکتا ہے غیر ملکیوں کے یہاں داخلے پر این او سی ختم کیا جائے آزاد کشمیر کے نوجوان آج اپنی محرومیوں کا اظہار ببانگ دھل کرتے ہیں بجلی کے بلات کی تحریک ہو یا حقوق کی خاطر چلنے والی کوئی تحریک ہو آزاد کشمیر کا نوجوان روزگار تعلیم اور مواقع یکساں بنیادوں پر چاہتا ہے وہ پاکستان کی سلامتی اور سالمیت سے اسطرح جڑا ہوا ہے جیسے خود پاکستانی ہیں انکا ملازمتوں تعلیم اور دیگر شعبوں میں کوٹہ بڑھایا جائے اور کشمیریوں کو بیرون ملک سفارت خانوں میں بھی نمائندگی دی جائے تاکہ وہ اپنے آپ کو پاکستان سے الگ تھلگ نہ سمجھیں۔جاتے جاتے سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر کی ایک وائرل ہونے والی ویڈیو سن کر سخت افسوس ہوا ہے جس میں وہ ایسے نوجوانوں کو بیہودہ گالی دے رہے ہیں جو کشمیر میں حقوق اور آزادی کی بات کرتے ہیں لیڈروں کو پیار سے نوجوانوں کو سمجھانا ہوتا ہے نہ کہ گالیاں دینا مناسب طریقہ ہے افسوس ہمارے لیڈر چاپلوسی میں حد کراس کرجاتے ہیں ہماری طرف آزاد کشمیر میں ہندوستان کا کوئی بھی ہمدرد نہیں لیکن محرومیوں کا اظہار کرنے سے غداری اور وفاداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کی کوئی ضرورت نہیں یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آزادکشمیر کے سیاسی قائدین نے آزادکشمیر سیاسی اور آئینی حیثیت کو قائم کرنے میں کیا کردار ادا کیا ہے اور اس کی تعمیر و ترقی کے لئے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے مقابلے میں کیا پیش رفت کی ہے چار سو میگاواٹ بجلی کے لئے آزاد کشمیر کی عوام سراپا احتجاج ہے اسمبلی کے اس وقت 53 ممبران ہیں جن میں سے 34 وزیر ہیں مشیران اکرام، سیکرٹریز سپریم کورٹ ہائی کورٹ اور دس اضلاع ہیں تین ڈویژن بنے ہوئے ہیں چیف سیکرٹری ہے آئی جی ہے ہیلتھ فنانس سیکرٹری ہے ہر محکمے کے ڈپٹی سیکریٹرز ہیں 21 سے 22 سیکیل کے 38 افیسرز ہیں صدر، وزیراعظم سپیکر قائد حزب اختلاف ہے ایک وزارت پر تقریباً دو کروڑ روپے ماہانہ خرچ ہے پاکستان سے ملنے والا 70 سے 80 فیصدبجٹ ان غیر پیداواری انتظامی امور پر خرچ ہوجاتا ہے جبکہ ترقیاتی کاموں کے لئے 20 فیصد بجٹ دستیاب نہیں ہوتا یہ بھی وسائل کا کھلے عام ضیائع ہے پاکستان کا خزانہ ان عیاشیوں کا مزید متحمل نہیں ہوسکے گا آزاد کشمیر کی قیادت کو ہوش کے ناخن لینے چاہیئے اور غیر پیداواری اخراجات کو کم کرنا چاہیے
0 43 5 minutes read