اسلام آباد: سپریم کورٹ نے شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ کا ریٹائرڈ جج قرار دے دیا۔سپریم کورٹ نے شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے 23 صفحات کا فیصلہ تحریر کیا جس کے مطابق شوکت عزیز صدیقی بطور ریٹائرڈ جج پنشن سمیت تمام مراعات کے حقدار قرار ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں تسلیم کیا کہ بدقسمتی سے شوکت عزیز صدیقی کے مقدمے کے فیصلے میں تاخیر ہوئی جس کی وجہ سے شوکت عزیز صدیقی ریٹائرمنٹ کی عمر تک پہنچ گئے اس لیے ریٹائرمنٹ عمر کی وجہ سے اب انہیں بطور جج بحال نہیں کیا جا سکتا۔تفصیلی فیصلے میں لکھا ہے کہ بلاشبہ شوکت صدیقی نے فیض حمید پر سنگین الزامات لگائے لیکن شوکت صدیقی کو اپنے الزامات ثابت کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔ عدالت نے اس خامیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو نوٹس جاری کیے جن پر الزامات لگائے گئے لیکن سب نے الزامات سے انکار کیا، یہ ضروری تھا کہ جوڈیشل کونسل ان الزامات کی تحقیقات کرتی کہ کون سچ بول رہا ہے مگر شوکت عزیز صدیقی کو شفاف ٹرائل کے حق سے محروم رکھا گیا۔
فیصلے کے مطابق جوڈیشل کونسل کی کارروائی میں ہمیشہ شواہد ریکارڈ کیے جاتے رہے ہیں، مظاہر نقوی کیس میں 14 گواہان کے بیانات ریکارڈ ہوئے اور شواہد پیش کیے گئے البتہ اس کیس کے دو پہلو ہیں۔ پہلا پہلو عدلیہ کی آزادی اور دوسرا بغیر کسی خوف یا لالچ کے آزادی کے ساتھ فیصلے کرنا اور عدلیہ کی خود احتسابی ہے، کسی جج کو شفاف ٹرائل کے بغیر ہٹانا عدلیہ کی آزادی کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔
عدالت عظمی کے فیصلے کے مطابق عدالت کو یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ درخواستیں مفاد عامہ کے تحت قابلِ سماعت ہیں، عدلیہ کی آزادی کے بغیر بنیادی حقوق کو خطرات لاحق ہوتے ہیں، جوڈیشل کونسل نے یہ نہیں بتایا تھا کہ شوکت صدیقی نے اپنے حلف کی کیسے خلاف ورزی کی تھی، انکوائری کے بغیر یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ شوکت صدیقی کے الزامات جھوٹے تھے، ججوں کا حلف انہیں بار ایسوسی ایشن یا کسی عوامی اجتماع میں تقریر کرنے سے نہیں روکتا۔
0 54 1 minute read