قیام پاکستان سے پہلے ہندوستان میں 46ـ1945 میں ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ کے کامیاب امیدوارہی پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے ممبر بنے تھے ، مسلم لیگ نے مرکزی اسمبلی کی 102 میں سے 30 اور صوبائی اسمبلیوں کی 495 مسلم نشستوں میں سے 446 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی ،جبکہ آئین سازی کے لیے جولائی 1946 میں 296 ارکان پر دستور ساز اسمبلی بنائی گئی جس میں صوبوں کو آبادی کے حساب سے نمائندگی دی گئی۔ صوبائی اسمبلیوں نے ان نشستوں کے ارکان کا بالواسطہ انتخاب کیا۔ دستور ساز اسمبلی میں کانگریس نے 208 اور مسلم لیگ نے 73 نشستیں حاصل کی تھیں ،قیام پاکستان کے بعد دستور ساز اسمبلی میں 69 ارکان میں سے 44 بنگال، 17 پنجاب، چار سندھ، تین شمال مغربی سرحدی صوبے (موجودہ خیبر پختونخوا) اور ایک کا تعلق بلوچستان سے تھا،قیامِ پاکستان کے بعد دستور ساز اسمبلی میں 10 ارکان کا اضافہ کیا گیا جن میں سے چھ نشسیتں مہاجرین کے لیے مختص کی گئی تھیں، مارچ 1951 میں پنجاب میں صوبائی الیکشن منعقد ہوئے جس میں مسلم لیگ نے بھاری اکثریت حاصل کی ، نومبر دسمبر 1951 ہی میں صوبہ سرحد(خیبر پختونخوا) کے انتخاب میں بھی مسلم لیگ کو واضح برتری ملی،مئی 1953ء میں صوبہ سندھ کے انتخابات ہوئے، آبادی کے اعتبار سے بڑے صوبے مشرقی بنگال کے انتخابات 1954 میں ہوئے تو اپوزیشن کے اتحاد ‘جگتو فرنٹ’ نے بنگال سے مسلم لیگ کا صفایا کر دیا،سانچ کے قارئین کرام ! صوبائی اسمبلیوں کے اراکین نے جون 1955ء کو پاکستان کی دوسری دستور ساز اسمبلی کے اراکین کا انتخاب کیا۔1960ء میں صدارتی انتخابات ہوئے جن میں 75283 بی ڈی اراکین نے حق رائے دہی استعمال کیا اور جنرل ایوب خان پاکستان کے صدر منتخب ہوگئے، بی ڈی ممبران نے 1962ء میں اراکین قومی اسمبلی کا انتخاب کیا جن کی تعداد 156 تھی جن میں چھ خواتین شامل تھیں،دسمبر 1959 اور جنوری 1960 کو جنرل ایوب خان نے غیر جماعتی بنیادوں پر مقامی حکومتوں کے انتخابات منعقدکروائے ،جسکے نتیجے میں 80 ہزار ارکان منتخب ہوئے جنھیں ‘بی ڈی ممبر ‘بھی کہا جاتا تھا،جنوری 1965 میں ملک میں صدارتی انتخابات کا انعقاد کیا گیا جنرل ایوب خان کا مقابلہ اپوزیشن جماعتوں کی حمایت یافتہ محترمہ فاطمہ جناح کا مقابلہ ہوا ،بعد ازاں آئین میں ترمیم کرکے اسمبلی کے ارکان کی تعداد دو سو اٹھارہ اور الیکٹورل کالج ( بیسک ڈیموکریٹس) کے ارکان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تک کر دی گئی،بیسک ڈیمو کریٹس نے جنوری انیس سو پینسٹھ کے صدارتی انتخاب میں فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایوب خان کو ایک اور مدت کے لئے صدر منتخب کیا،جنرل ایوب خان مسلم لیگ کنونشن کے حمائیت یافتہ تھے ،مادر ملت فاطمہ جناح کی شکست سے جمہوریت کے پنپنے کی آس بھی ختم ہوگئی،جنرل ایوب خان نے 49700 اور مادر ملت نے 28345 ووٹ حاصل کیے ،سانچ کے قارئین کرام ! قیام پاکستان کے 23 برس بعد سات دسمبر 1970 کو پاکستان کے پہلے عام انتخابات ہوئے ،عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کی 162 میں سے 160 نشستوں پر کامیابی حاصل کی، جبکہ مغربی پاکستان کی 138 میں سے 81 نشستیں پیپلز پارٹی نے جیتیں،پی ایم ایل قیوم گروپ نے(9)، پی ایم ایل کونسل نے (7)، نیپ (6) اور جے یو آئی نے (7) نشستیں حاصل کی تھیں ، دسمبر1971 کی پاک بھارت جنگ کے بعد 16دسمبر1971کو بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا ،1970 کے انتخابات کے نتیجے میں مغربی پاکستان کے نمائندوں پر مشتمل جو پارلیمنٹ وجود میں آئی ،اس نے سب سے اہم کام یہ کیا کہ آئین بنایا اور یہ آئین چودہ اگست 1973 سے نافذ ہوگیا ، 1971سے 1977کے عرصہ میں ذوالفقار علی بھٹو کچھ عرصہ کے لیے پاکستان کے صدر (20 دسمبر 1971 سے14 اگست1973)اور بعد ازاں وزیر اعظم (14 اگست1973سے5 جولائی1977)کے عہدہ پر رہے،7 مارچ 1977 کو پاکستان میں دوسرے عام انتخابات کا انعقاد ہوا ، پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی 155نشستیں جیت کر دو تہائی اکثریت حاصل کرلی جبکہ پی این اے کو 36 نشستیں مل سکیں، اپوزیشن نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور دھاندلی کا الزام لگا کر احتجاجی تحریک شروع کردی،اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور مارشل لاء نافذ کردیا،انکا اقتدارگیارہ سال تک قائم رہا،سانچ کے قارئین کرام ! جنرل ضیاء الحق نے 25 اور 28 فروری 1985ء میں غیر جماعتی بنیادوں پرتیسرے عام انتخابات کا انعقاد کروایا جن کا سیاسی جماعتوں نے بائیکاٹ کیا،غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات کے بعد محمد خان جونیجو پاکستان کے وزیر اعظم بنے،چوتھے عام انتخابات نومبر 1988 ئ(سولہ نومبر کو قومی اور انیس نومبر کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات)کومنعقد ہوئے جسکے نتیجہ میں پی پی پی نے 93نشستیں حاصل کرلیں جبکہ آئی جے آئی کو 54نشستیں ملیں، ایم کیو ایم 13 اور 40آزاد اْمیدوار کامیاب ہوئے تھے، بے نظیر بھٹو شہید پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں،24اکتوبر1990کوپانچویں عام انتخابات کا انعقاد ہوا جس کے نتیجہ میں اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) نے 106 نشستیں جیتیں ،پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور دیگر سیاسی جماعتوں پر مشتمل پی ڈی اے صرف 44 نشستوں پر کامیاب ہوسکا، ایم کیو ایم 15، نیپ6، آزاد 21 نشستیں حاصل کرسکے ،ان انتخابات کے نتیجہ میں میاں نواز شریف وزیراعظم منتخب ہوئے ،اکتوبر1993کے چھٹے عام انتخابات(چھ اکتوبر کو قومی اسمبلی اور نو اکتوبر کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات) میں پی پی پی نے 89 نشستیں اور پی ایم ایل(این) نے 73 نشستیں حاصل کیں۔ پی ایم ایل (جونیجو) نے 6 اور آزاد اْمیدواروں نے 15 سیٹیں حاصل کیں،محترمہ بے نظیر بھٹوشہید دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوئیں ،3فروری 1997 کو ساتویں عام انتخابات کے نتیجہ میں پی پی پی کو 18 نشستیں ملیں، مسلم لیگ(ن) نے 137 نشستیں جیتیں ،ایم کیو ایم نے 12، اے این پی نے 10 اور آزاد اْمیدواروں نے 21 نشستیں حاصل کیں، میاں محمدنواز شریف دوسری بار وزیراعظم بنے،سانچ کے قارئین کرام ! جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کو ان کی حکومت ختم کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا،سترہویں آئینی ترمیم کے تحت دس اکتوبر دو ہزار دو کو پارلیمانی اور صوبائی انتخابات کرانے کا اعلان کیا گیا، ووٹر کی عمر اکیس سال سے کم کرکے اٹھارہ سال کی گئی، قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد بڑھا کر تین سو بیالیس کی گئی، ان میں خواتین کے لئے چھیاسٹھ اور اقلیتوں کے لئے آٹھ نشستیں مختص کی گئیں اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں سات سو اٹھائیس کی گئیں،اقلیتوں کو انیس سو ستتر کے بعد پہلی دفعہ جنرل نشستوں پر ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا، عوامی نمائندگی ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے سزا یافتہ افراد کا امیدوار بننا ممنوع قرار پایا،امیدوار کی کم از کم تعلیمی استعداد بی اے مقرر کی گئی ،ان انتخابات میں ستتر جماعتوں نے حصہ لیا اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ووٹنگ کی شرح تقریباً بیالیس فیصد رہی، آٹھویںعام انتخابات 10اکتوبر 2002ء کو منعقد ہوئے جس میں پاکستان مسلم لیگ (قائد اعظم )نے 118 نشستیں حاصل کیں ۔
جسے کنگ پارٹی بھی کہا جاتا تھا، پاکستان پیپلز پارٹی کو 81 سیٹیں ، پاکستان مسلم لیگ (این) کو 18 اور ایم ایم اے کو 60 ، ایم کیو ایم کو 17 نیشنل آلائنس کو16 نشستیں ملیں، جنرل پرویز مشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک درجن اراکین اسمبلی کی وفاداریاں خرید کر پی ایم ایل (کیو) کی حکومت تشکیل دی جس کے نتیجہ میں میر ظفر اللہ جمالی وزیراعظم منتخب ہوئے، سانچ کے قارئین کرام !نویںعام انتخابات 18فروری 2008ء کو منعقد ہوئے ،ان انتخابات سے پہلے 27دسمبر2007کوبے نظیر بھٹو کی شہادت نے انتخابی نقشہ بدل دیا ،خواتین کی خصوصی نشستوں سمیت پی پی پی نے 124، مسلم لیگ(ن) نے 91، مسلم لیگ (ق) نے 54، ایم کیو ایم نے 25، اے این پی نے 13، ایم ایم اے نے 7 ، پی ایم ایل (ف) نے 5 اور آزاد اْمیدواروں نے 17 سیٹیں حاصل کیں،11مئی 2013کو ملک میں دسویں عام انتخابات منعقد ہوئے ،جس کے نتیجہ میں مسلم لیگ (ن) نے 126 نشستیں حاصل کیں 34 خواتین اور اقلیتوںکی 6سیٹیں ملاکر کل 166نشستوں سے بڑی پارٹی کی صورت میں سامنے آئی، جبکہ پیپلز پارٹی کی8 خواتین اور ایک اقلیتی سیٹ ملاکر کل 42اور تحریک انصاف کی6 خواتین کی نشستیں اور ایک اقلیتی ملاکر کل 35نشستیں تھیں،مسلم لیگ(ن) کو 166نشستوں کے باوجود بھی 6 سیٹوں کی ضرورت تھی تاہم بعض آزاد امیداروں کی شمولیت کے باعث مسلم لیگ کی حکومت سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی اور میاں محمد نواز شریف نے 5جون 2013ء کو وزارت عظمیٰ کا منصب تیسری بار سنبھالا،میاں نواز شریف کی حکومت کو ایک سال2 ماہ ہی گزرے تھے کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگاکر آزادی مارچ جسے’ سونامی مارچ’ بھی کہا جاتا ہے،آزادی مارچ اسلام آباد میں 14 اگست 2014ء سے شروع ہوا اور 17 دسمبر 2014ء یعنی 4 ماہ سے زائد عرصہ جاری رہاتھا جہاں دن کو آرام اور شام ہوتے ہیں اسٹیج سج جاتا تھا ،دن بھر سیاسی پنڈال میں خاموشی چھائی رہتی تھی ، سانچ کے قارئین کرام !28 جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قراردے کر ان پر پابندی عائد کردی،نوازشریف کے 4 سالہ دور میں سی پیک منصوبہ اور بجلی کے متعدد منصوبے شروع ہوئے ملک میں پاک فوج اور حکومت کے اقدامات سے دہشت گردی کے واقعات ں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی اور امن قائم ہوا ، میاں نواز شریف کے بعد مسلم لیگ( ن) ہی کے شاہد خاقان عباسی یکم اگست 2017ء کو وزیر اعظم بنائے گئے ،ملک میں گیارھویں عام انتخابات 25جولائی 2018کو منعقد ہوئے جس کے نتیجہ میں پاکستان تحریکِ انصاف سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے اور اس نے 115 نشستیں حاصل کی ہیں مسلم لیگ نواز 64 نشستوں کے ساتھ دوسرے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی 43 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی،عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کے لیے آزاد امیدواروں کو پاکستان تحریک انصاف میں شامل کروایا گیا ،بارھویں عام انتخابات 8فروری2024کو منعقد ہورہے ہیں ، الیکشن کمیشن کے مطابق ملک بھر سے قومی اسمبلی کی 266 نشستیں جبکہ صوبائی اسمبلیوں کی عام نشستوں کے 593 حلقے ہونگے،یاد رہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی کل نشستیں 272 تھیں جبکہ صوبائی اسمبلیوں کی کل نشستیں 577 تھی،خواتین کے لیے مخصوص ساٹھ اور اقلیتوں کی دس مخصوص نشستوں کو ملا کر اب قومی اسمبلی کی مجموعی نشستیں336 رہ گئی ہیں جوکہ گزشتہ انتخابات میں 342 تھیں،اس کی ایک اہم وجہ قبائلی علاقوں کا خیبرپختونخوا میں انضمام ہے،سال2024کے انتخابات کے نتیجہ میں وفاقی حکومت بنانے کے لیے قومی اسمبلی کے 169 ارکان کے ووٹ درکار ہو نگے، الیکشن کمیشن کے انٹرا پارٹی الیکشن پر فیصلے کے بعد تحریک انصاف کو بلے کا نشان نہیں مل سکا تو اس کے تمام امیدوار آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں ، پی ٹی آئی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں سے بھی محروم رہے گی ،الیکشن کمیشن کے مطابق پاکستان کے بارہ کروڑ پچاسی لاکھ پچاسی ہزار سات سو ساٹھ افراد بطور ووٹر رجسٹر ہیں٭
0 39 7 minutes read