
ایک خاص فکر کے تحت عوام الناس کی بہتری اور اصلاح کے لیے اقدامات کرنا سیاست ہے۔سیاست کو کبھی عبادت کا درجہ دیا جاتا تھا مگر آج پاکستان میں سیاست طاقت اور اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔نظریاتی سیاست کی منزل بھی اقتدار ہی ہے لیکن اس پر فرد یا چند افراد کے اقتدار کی بجائے نظریہ،منشور یا اصول کو اقتدار تک پہنچانا مقصود ہوتا ہے۔جب نظریہ کو قربان کرنا پڑے تو اس کو سمجھوتہ کہتے ہیں۔
پاکستان میں سیاست کرنا آسان نہیں یہاں اقتدار کے حصول کی خاطر نظریات کو قربان کردیا جاتا ہے۔جمہوری اقتدار کوپامال کرتے ہوئے اقتدار حاصل کرنا جب مطمع نظر ٹھہرایا جاتا ہو تو الیکٹیبلز پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔الیکٹیبلز مقامی پاور بروکرز ہوتے ہیں۔ان الیکٹیبلز کا نظریاتی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔بانی تحریک انصاف کے نظریاتی کارکن 2018میں کامیابی کو طویل جدوجہد کا نتیجہ سمجھتے تھے لیکن حقیقت یہی ہے کہ انہیں یہ کامیابی خفیہ طاقت کی سرپرستی میں الیکٹیبلز کی شمولیت سے بائیس برس بعد حاصل ہوئی۔کامیابی کے بعد جب اقتدار گیا تو پھر وہی پرانا طریقہ استعمال ہوا۔پی ٹی آئی سے استحکام پارٹی، پرویز خٹک گروپ اور پریس کانفرنس کرنے والوں کی لمبی فہرست نے اس جماعت کے نظریہ کی حقیقت عیاں کردی۔یہاں بہت ہی قابل شرم رویہ فیاض الحسن چوہان کا پی ٹی آئی کو تحریک فساد فی الارض کہنا ہے۔جب تک اقتدار رہا خاموش رہے آج انکی بڑی بڑی باتیں سننا ہماری بدقسمتی ہے۔یہ عوامی جذبات کا استحصال ہے۔اقتدار کی سیاست ہوتی آئی ہے اورآئندہ بھی ہوتی رہے گی۔آج سب سے زیادہ تکلیف دہ صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف میں جہاں نظریات پروان چڑھے اور جو نظریاتی ہوئے وہ سیاسی فکر اور سوچ سے عاری رہے۔ایک نسل نے جنم لیا جس میں نہ سیاسی سمجھ ہے نہ اختلاف کو سننے کا حوصلہ، بس سیاسی مخالفین کو گالی بکنے کو سیاست سمجھتے ہیں اور وہ بھی انقلابی سیاست۔ پی ٹی آئی میں حق کا معیار کچھ یوں مقرر ہوا جو بانی چیرمین کے ساتھ ہے وہ ایماندار ہے،ملک وقوم سے مخلص ہے اور جو اختلاف رکھے اس کو سیاست میں ہی نہیں ہونا چاہیے۔کارکنان کی ذہن سازی اور تربیت لیڈر کرتا ہے اس لیے سیاسی لیڈر کو معاملہ فہم ہونا چاہیے لیکن ہماری سیاست میں موجود شخصیت پرستی کے جنون نے سب کچھ برباد کردیا۔پی ٹی آئی کے معاملہ میں دونوں اطراف شدت پسند سوچ اور رویوں نے سیاسی معاملات کو خراب کیا۔اس جماعت کے آنے سے سیاست میں اختلاف اور مخالفت کے ساتھ نفرت اور تقسیم گہری ہوئی۔
قارئین کرام! ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ہونے کے ساتھ ایک عوامی تحریک کے نتیجہ میں عوامی لیڈر کے طور پر سامنے آئے۔پی پی پی کی جڑیں مکمل طور پر عوام میں تھیں۔ اس لیے بھٹو کی پھانسی کے بعد بھی بھٹو ایک نظریہ کی صورت میں آج بھی میدان سیاست میں موجود ہیں۔الیکٹیبلز پارٹی کا حصہ بنے اور مشکل وقت آنے پرالگ ہوگئے۔جن لوگوں نے نظریہ کو اہمیت دی،وفاداری نبھائی انہیں تاریخ نے یاد رکھا۔ انکا احترام زندگی میں بھی ہوا اور مرنے کے بعد بھی انکی عزت اور سیاست قائم رہی۔جن کا نظریہ اقتدار تھاوہ اقتدار کے بعد گمنام ہوگئے غلام مصطفی کھر،غلام مصطفی جتوئی،راو سکندر اقبال، فاروق لغاری بڑے نام تھے آج ان ناموں اور شخصیات سے عام پاکستانی واقف بھی نہیں۔یہ شخصیات ماضی کا حصہ بن چکے۔تاریخ سے سبق کسی نے نہیں سیکھا،سب کی نظریں الیکٹیبلز پر رہی اور آج بھی تمام جماعتوں کے دروازے مقامی طاقتور شخصیات کیلیے کھلے ہیں۔نظریاتی ووٹوں کی طاقت کے مدمقابل نئے طاقتور کردار پھر سامنے آتے رہے اور موجود ہیں۔نظریات کے ساتھ شخصیات کو ووٹ دینے کے رجحان نے اس سلسلہ کو رکنے نہیں دیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی بھٹو کے نام پر سیاست کرتی ہے۔ بھٹو ایک شخصیت سے آگے نظریہ کا نام ہے جس میں سیاسی جنت عوام کے قدموں تلے قرار دی گئی اوراقتدار اور زندگی پر موت کو ترجیح دینا شامل ہے۔اس بات پر اختلاف ہوسکتا ہے کہ پی پی پی اب کہاں تک بھٹو ازم پر قائم ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) ہے جسکا جنم ضیاء الحق کی خواہش اور کوششوں کے نتیجہ میں ہوا۔انکے ہاں اقتدار اور رہائی کے لیے ڈیل ایک روایت ہے۔یہ روایت نہ صرف قائد مسلم لیگ (ن)نے قائم کی بلکہ بخوبی نبھائی۔ اس پر انکے ووٹرز اعتراض نہیں کرتے بلکہ اسے حکمت عملی سمجھ کر قبول کرتے ہیں۔ تحریک انصاف میں لیڈروں سے لیکر عام کارکنان بھی شخصیت پرستی کی معراج پر ہیں۔بانی پی ٹی آئی کے ہر غلط اور صحیح کام کی وکالت کرنا انکا کام ہے، دعوی تبدیلی کا تھا لیکن سیاست میں خفیہ طاقت سے فیض یاب ہوتے رہے۔اقتدار کے خاتمہ پر ایسا ردعمل دیا جو نظریاتی سیاست میں نہیں ہوتا۔ سیاسی نظریہ ووٹ کی طاقت پر ہی انحصار کرتا ہے۔سیاسی مخالفین پر فقرہ بازی کے بعد 9مئی جیسا ردعمل نظریاتی سیاست کے کمزور ہونے کا نتیجہ ہے۔شخصیت پرستی ایسی کہ نظریہ،قومی مفاد، منشور اور ووٹ کی سیاست بہت پیچھے چلی گئی۔
سیاست میں زوال کی ذمہ داری صرف سیاست دانوں پر عائد نہیں ہوتی،ہر شعبہ زندگی کے لوگوں نے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔لاڈلا غلط تھا تو لاڈلا بننا کون ساآئینی طریقہ ہے۔جمہوری سیاست میں لاڈلے کا کردار نہیں ہوتا۔سیاسی قائدین کو معاملہ فہم ہونا چاہیے، پاکستان بہت ہی مشکل وقت میں ہے۔غربت،مہنگائی، امن وامان کی صورتحال اور افراط زر کے اضافہ نے معیشت کو مشکل ترین صورتحال میں دھکیل دیا لیکن ہماری سیاست نفرت اور تقسیم پر ہی چل رپی ہے۔ایک سیاسی جماعت کی بربادی میں دوسری جماعت کی کامیابی ہے۔بلاول بھٹو انتخابی مہم میں تسلسل سے نفرت اور تقسیم کے خاتمہ کی بات کرتے آرہے ہیں۔ پرانی سیاست کو ختم کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔فیصلہ کا اختیار پاکستانیوں کے ہاتھ میں ہے۔عام آدمی زندہ باد، مردہ باد کے نعروں سے ہٹ کر بلند شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جماعت کو اس بات پر مجبور کرے کہ قومی مفاد میں تمام سیاسی جماعتیں اختلافات کو سیاسی میدان تک رکھیں اور قومی معاشی پالیسی ترتیب دیں۔منشور اور نظریہ کو اپنایا جائے۔ یہ پٹریاٹ گروپ، ق لیگ، استحکام پارٹی اور ہر الیکشن میں نت نِئے گروپ صرف پرانی سیاست کو جاری رکھنے اور اقتدار کی سیاست کا چکر ہے۔ اس چکر سے نکلنا ہے تو 8فروری تک اختیار ہمارے پاس ہے، اصولوں پر سمجھوتہ نہ کریں صرف اور صرف نظریہ کی بنیاد پر ووٹ دیں گے تو بہتر ہوگا۔سیاسی جماعتیں اپنے پروگرام اور منشور پر انتخاب لڑتی ہیں، عوامی مسائل کے حل پر بات ہوتی ہے ہم ابھی تک شخصیات کے سحر میں مبتلا ہیں۔پارٹی پروگرام پر کوئی بات نہیں کرتا صرف لیڈر کے اوصاف اور مخالفین کی کردار کشی پر ساری مہم جاری ہے۔سیاست جو خدمت ہوا کرتی ہے تب تک سیاسی کھیل بنی رہے گی جب تک عام پاکستانی سیاسی انداز اور سوچ کو نہیں اپناتے۔