
لیجیے جناب! بالآخر بلاول بھٹو زرداری نے بوڑھوں کے ہاتھ پر بیعت کر کے اپنے ہی انتخابی بیانیے کی نفی کر دی ہے۔ حالیہ انتخابات میں جناب بلاول نے بوڑھے سیاست دانوں کو اپنے نشانے پر رکھا ہوا تھا۔ وہ انہیں سیاست سے باہر جانے کا مشورہ دیتے تھے۔ تمام تر انتخابی مہم کے دوران وہ خود کو بطور امیدوار برائے وزیرِ اعظم اس شدو مد کے ساتھ پیش کرتے رہے کہ سبھی کو محسوس ہو گیا تھا بلاول صاحب کو وزارتِ عظمیٰ بڑی شدت سے آئی ہوئی ہے۔ بلاول بھٹو سیاست میں بزرگوں کے کردار کی مخالفت میں اس حد تک آگے بڑھ گئے تھے کہ انہوں نے موجودہ دور کے لیجنڈری سیاستدان، اپنے والدِ محترم جناب آصف علی زرداری کے سیاسی کردار کی بھی نفی کر دی تھی۔ اس موضوع پر ان کا اپنے والد سے اختلاف بھی پیدا ہو گیا تھا۔ جب انتخابی مہم کے دوران ہی بلاول دوبئی چلے گئے تھے اور پھر زرداری صاحب کو بھی ان کے پیچھے جانا پڑا تھا۔ خاندانی ذرائع کا تو یہ کہنا تھا کہ بلاول بھٹو کا وہ دورہ پہلے سے طے تھا مگر زبانِ زدِ عام یہی تھا کہ بلاول بھٹو اپنے والد کے حامد میر کو دیے گئے انٹرویو سے ناراض ہو کر گئے ہیں جس میں جناب زرداری نے بلاول بھٹو کے بزرگ مخالف بیانیے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔
بلاول بھٹو زرداری نے اپنی پوری انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ ن اور خصوصاً میاں نواز شریف کو نشانے پر لیے رکھا تھا۔ انہوں نے پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومت کی غیرتسلی بخش کارکردگی پر بھی تاک تاک کر نشانے لگائے تھے حالانکہ وہ بذاتِ خود بھی اس حکومت کا حصہ رہے تھے۔ بلاول نے اپنے اصل حریف عمران خان پر ہاتھ ہولا رکھتے ہوئے ان کے ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی پوری کوشش کرتے رہے۔ اگر عمران خان جیل میں نہ ہوتے تو بلاول کے نشانے پر عمران خان سب سے پہلے ہوتے۔ عمران خان کی حیثیت سیاست میں وہی ہے جو پنجابی فلموں میں سلطان راہی کی رہی ہے۔ سلطان راہی نے تقریباً ایک ہی کردار سات آٹھ سو فلموں میں کیا ہے۔ وہی گیٹ اپ، وہی لباس، وہی کہانی اور ملتے جلتے مکالمے ادا کرنے کے باوجود وہ فلم بینوں کے پسندیدہ ترین ہیرو تھے۔ نئی ہیروئنوں کے دادا کی عمر کو پہنچ کر بھی وہ ان کے ساتھ بطورہیرو نہ صرف کاسٹ کیے جاتے تھے بلکہ انہیں پسند بھی کیا جاتا تھا۔ حالانکہ سلطان راہی بہت خوب صورت بھی نہ تھے بلکہ انہیں قبول صورت کہنا چاہیے۔ وہ میک اپ اور گیٹ اپ کے باوجود بھی نوجوان نظر نہ آتے تھے لیکن پھر بھی مرتے دم تک نمبر ون رہے۔ اس کی وجہ سلطان راہی کی شخصیت سے زیادہ اس کے ادا کیے ہوئے مولا جٹ نما کردار تھے۔ ہمارے معاشرے میں عام لوگوں کو پولیس اور وڈیروں جاگیرداروں کے مظالم کا سامنا تھا۔ جب سینما میں وہ لوگ سلطان راہی کے ہاتھوں وڈیروں اور پولیس والوں کی درگت بنتے دیکھتے تو انہیں لگتا کہ سلطان راہی ان پر ہونے والے مظالم کا بدلہ لے رہا ہے۔ ان فلم بینوں کا اس طرح سے کتھارسس ہو جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے وہ سلطان راہی کو مسیحا کے روپ میں دیکھتے تھے۔ سلطان راہی کی موت تک فلم سٹار شان زیادہ تر رومانٹک کرداروں میں جلوہ گر ہوتے تھے۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ شان کے پاس فلموں میں کام نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا۔ سلطان راہی کی وفات کے بعد شان کو سلطان راہی کے روپ میں فلموں میں پیش کیا گیا تو ان کی قسمت کا ستارا بھی چمک اٹھا۔ عمران خان کے سیاسی ہیرو بننے کی وجہ بھی یہی تھی کہ لوگ روایتی وڈیروں اور سیاست دانوں سے تنگ آ چکے تھے جو سیاست اور اقتدار پر قابض تھے۔ عمران خان کے سامنے سلطان راہی ایک مثال کے روپ میں موجود تھا۔ انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر اپنا سیاسی کردار تخلیق کیا اور عوام کی نبضوں پر انگلیاں رکھ کر وڈیروں اور روایتی سیاست دانوں کے خلاف علم بلند کر دیا۔ انہوں نے نوجوانوں اور عام لوگوں پر فوکس کیا۔ عمران خان نے ان لوگوں کو اہمیت دی جنہیں کبھی مشورے کے قابل بھی نہ سمجھا جاتا تھا۔ نتیجہ ان کی توقع کے مطابق نکلا۔ عمران خان سیاست کے سلطان راہی بن گئے۔ حالات کی گردش اور اپنی عاقبت نااندیشی سے عمران خان پابندِ سلاسل ہو گئے۔ تو بلاول بھٹو کو لگا کہ وہ اداکار شان کی طرح سیاسی میدان میں انٹری مار کر کامیابی حاصل کر سکتے ہیں چنانچہ انہوں نے اینگری ینگ مین کا روپ دھار لیا اور ہر انتخابی جلسے میں زبان سے گنڈاسے کا کام لینا شروع کر دیا۔ بلاول نے بلاشبہ یہ کردار بڑی کامیابی سے نبھایا لیکن وہ اداکار شان جیسی کامیابی نہ سمیٹ سکے۔ شان کو سلطان راہی کی موت کے بعد کامیابی ملی تھی۔ سیاست کا سلطان راہی ابھی زندہ ہے۔ اس کے مداح اس کی زندگی میں کسی دوسرے کو اپنا ہیرو آسانی سے نہیں بنا?یں گے۔
دوسری طرف مسلم لیگ ن اور میاں نواز شریف کو امید تھی کہ وہ حالیہ انتخابات میں سادہ اکثریت آسانی سے حاصل کر کے اپنی حکومت بنا لیں گے۔ ان کی یہ توقع اور خواہش پوری نہیں ہوئی۔ پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومتی کارکردگی ان کے راستے کی رکاوٹ بن گئی۔ اگر پی ٹی آئی کے حاصل کردہ ووٹوں کو دیکھا جائے تو ان میں اضافہ نہیں ہوا۔ البتہ مسلم لیگ ن کے ووٹوں میں کمی ضرور ہوئی ہے جس کا مطلب ہے کہ مسلم لیگ ن کا ووٹر مایوس ہو کر گھر سے نہیں نکلا۔ انتخابی نتائج کے بعد نہ تو بلاول بھٹو وزیرِ اعظم بننے کی پوزیشن میں آ سکے اور نا ہی میاں نواز شریف سادہ اکثریت حاصل کر کے اقتدار میں آ پائے۔ دونوں پارٹیوں کے ووٹرز نے حسبِ توقع بلاول بھٹو اور میاں نواز شریف کو شرفِ پذیرائی نہیں بخشا جس کی وجہ سے بلاول بھٹو کو ”سیاسی بابوں” کی حقیقت کو تسلیم کرنا پڑا جبکہ میاں نواز شریف کو بلاول کی شرائط مان کر کولیشن گورنمنٹ کی طرف بڑھنا پڑا۔ انتخابی حریف بادلِ ناخواستہ حکومتی حلیف بننے جا رہے ہیں۔ حالات اور انتخابی نتائج نے دونوں کو ایک میز پر بٹھا دیا ہے
۔ بقول احمد فراز
اپنے اپنے بے وفائوں نے ہمیں یکجا کیا
ورنہ میں تیرا نہیں تھا اور تُو میرا نہ تھا