کالم

ماں تجھے سلام

ہزارہ کچھ لوگ زندگی کا وہ قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں جن کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا ان کے پاس بیٹھ کر ان سے اپنی زندگی کی الجھنوں کے متعلق تبادلہ خیال کرکے بہت سکون اور راحت ملتی ہے اور ان کی طرف سے ملنے والی مودتیں, فرحتیں,محبتیں , چاہتیں اور اخلاص سے لبریز جذبات کی خوشبو پا کر قلب کو وہ لذت اور خوشی ملتی ہے جسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں۔انہی شخصیات میں سے ایک رشتہ ماں کا ہے۔جن کی گود میں سر رکھ کر زندگی کی ہر پریشانی،دکھ،مصیبت اور غم کو انسان بھول جاتا ہے۔ہر مشکل کا حل ماں کے قدموں میں میسر ہے،ماں دنیا کا وہ پیارا لفظ ہے جس کو سوچتے ہی ایک محبت ، ٹھنڈک ، پیار اور سکون کا احساس ہوتا ہے ۔ماں ایک باشعور اور عظیم خاتون ہے- جو بچوں کی زندگی میں باد صبا کی مانند ہے- جو اولاد کے لیے طرح طرح کی تکلیفیں اٹھاتی ہے- جو اپنی اولاد کی خاطر اپنی آرزوں کا گلا گھونٹ دیتی ہے، اپنی خواہشات کو خاک میں ملا دیتی ہے، اپنی خوشیوں کا جنازہ نکال دیتی ہے جو خود نہیں کھاتی اور اپنے بچوں کو کھلاتی ہے-رب کائنات کی بنائی ہوئی اس کائنات اور انسان کو دی ہوئی حیاتی میں کچھ لمحات،گھڑیاں اور ساعتیں ایسی ہوتی ہیں جو بھلائے بھی نہیں بھلائی جا سکتیں ۔انہی لمحات اور گھڑیوں میں میری زندگی کی ایک قیامت خیر گھڑی پانچ مئی 2023 بروز جمعہ بوقت قبل نماز جمعہ کی وہ گھڑی ہے۔جس میں میری ہنستی بستی زندگی اجڑ گئی۔ہنسی خوشی گھر میں کہرام مچ گیا، جس گھر میں ایک دن بعد شادی و خوشی کی تقریب کو سجنا تھا وہی گھر اب سوگ میں تبدیل ہوگیا، ایک پل میں ہی خوشیوں بھرا گھر ماتم کدا بن گیا۔پانچ مئی 2023 کا سورج میرے لیے انتہائی آزمائش اور نہ بھولنے والا لمحہ لئے طلوع ہوا۔ہوا کچھ یوں کہ راقم الحروف نماز فجر و ناشتے سے فراغت کے بعد چھوٹے بھائی حافظ محمد لقمان عزیز ہزاروی کے ہمراہ بذریعہ بائیک بجانب تحصیل اوگی کی روانہ ہوا کیونکہ ایک دن بعد بڑی ہمشیرہ کی شادی کی تقریب کو سجنا تھا۔تقریبا دو گھنٹے کے بعد ہم اوگی پہنچے جہاں سے جہیز کا سامان خریدا۔سامان کی خریداری اور حوالہ گاڑی کر کے بجانب آبائی گاں چلے ابھی بازار کے قریب ہی دوگائی پل (جو اس وقت زیر تعمیر تھا) پہنچے ہی تھے کہ سب سے چھوٹے بھائی محمد نعمان عزیز ہزاروی نے بذریعہ کال پر یہ اندوہناک خبر سنائی کہ بڑی امی کی طبیعت اچانک ناساز ہو گئی ہے۔میں انہیں ایوب میڈیکل کمپلیکس ایبٹ آباد کے ایمرجنسی وارڈ پہنچا چکا ہوں ۔آپ جہاں بھی ہیں واپس ایبٹ آباد کی جانب روانہ ہو جائیں۔ہاتھ،پاں اور دل و دماغ نے کام کرنا ہی چھوڑ دیا۔کچھ لمحوں کے بعد سامان جہیز اپنے بہنوئی کے بھائیوں کے سپرد کیا اور ہم دونوں بھائی بوجل دل اور نم آنکھوں کے ساتھ بجانب ایبٹ آباد روانہ ہوئے۔کیونکہ چھوٹے بھائی نے جس لب و لہجہ میں مطلع کیا تھا دل و دماغ پر غم کے گہرے اثرات مرتب ہو چکے تھے۔ بہرحال تقریبا پونے دو گھنٹوں میں ہم ایبٹ آباد ایوب میڈیکل کمپلیکس پہنچے ۔ڈاکٹر سے پرائیویٹ ہاسپٹل لے جانے پر مشاورت کی تاہم چند ہی لمحوں بعد ڈاکٹر صاحب نے ہلکی سی آواز میں کہا کہ مولانا صاحب ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔اماں جی اس دنیا میں نہیں رہیں۔ڈاکٹر کی بات سن کر گویا میرے پاں کے نیچے سے زمین نکل گئی،میری ہچکی سی بن گئی ہاتھ ،پاں اور جسم کے اعضا نے کام کرنا ہی چھوڑ دیا ساتھ ہی رکھے ایک سٹول پر بیٹھ گیا،ساتھ ہی میں نے تجسس بھری نظروں سے ڈاکٹر کو دیکھا اور کہا ڈاکٹر صاحب آپ چیک کریں،میں پرائیویٹ ہاسپٹل لے کر جانے لگا ہوں ۔ڈاکٹر میری کیفیت کو جان چکے تھے کچھ لمحوں بعد چھوٹے بھائی حافظ محمد لقمان عزیز ہزاروی مجھے باہر لے آئے اور کہا اپنے آپ کو سنبھالو،آپ ہم میں بڑے ہیں اگر آپ ہی ہمت ہار جائیں گے تو ہم کیا کریں گے ۔سچ کہا ہے کسی نے کہ رونا تو بڑے بھائی کو بھی آتا ہے تاہم وہ اس لئے نہیں روتا کہ کہیں چھوٹوں کا دل نہ ٹوٹ جائے،، ۔میں نے ایمبولینس ڈرائیور سے بات کی والدہ کا جسد خاکی لے کر اپنی رہائش گاہ منظور کالونی گرگا پہنچا اہل محلہ کو پہلے سے مطلع کیے جانے کی وجہ سے گھر پر تعزیت کرنے والوں کا رش تھا۔بڑے بھائی مولانا عطا الرحمن سے بات کر کے اپنی یتیمی کی اندوہناک خبر سنائی۔بڑی ہمشیرہ چونکہ کراچی میں تھی ان کو مطلع کیا، ایئر لائن ٹکٹ کروایا۔ بذریعہ ایمبولینس ایبٹ آباد سے یتیمی کے حال میں جب بجانب آبائی گاں روانہ ہوا تو موبائل فون ،واٹس ایپ پر محبین ،متعلقین ،متوسلین اور قدر دانوں کی کالیں ،میسج اور تعزیتی پیغامات موصول ہو رہے تھے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button