کالم

ن لیگ اور خسارے کے فیصلے

8فروری 2024 کے انتخابات اپنے ساتھ کئی قد آور سیاسی شخصیتوں کو بہا لے گئے۔جماعتِ اسلامی کے امیر جناب سراج الحق نے شکست کی ذمہ واری قبول کرتے ہوئے پارٹی کی امارت سے استعفیٰ دے دیا۔وہ پچھلے دس سال سے جماعتِ اسلامی کے امیر تھے۔ان کی موجودہ مدت پوری ہو چکی ہے اور نئے امیرِ جماعت کے انتخاب کا پراسس شروع ہو چکا ہے،جہانگیر خان ترین نے کچھ عرصہ پہلے ہی استحکامِ پاکستان پاڑتی کی بنیاد رکھی اور جلد ہی انتخابات میں چلے گئے۔انتخابات میں کامیابی نہ سمیٹنے پر جناب جہانگیر ترین نے پارٹی صدارت اور سیاست سے منہ موڑ لیا۔جناب ترین کی سیاسی پارٹی ابھی نوزائیدہ تھی۔پی ٹی آئی کو اپنی پہلی نشست جیتنے میں 15سال سے زیادہ عرصہ لگا،اس لئے جناب جہانگیر خان ترین کو اتنی جلدی نہیں کرنی چاہیئے تھی۔یہ انتخابات اپنے ساتھ جناب نواز شریف کے چوتھی بار وزیرِ اعظم بننے اوربلاول زرداری کے غیر شادی شدہ سب سے کم عمر وزیرِ اعظم بننے کا خواب وقتی طور پرچکنا چور کر گئے۔
توقع تھی کہ یہ انتخابات پاکستان کو ایک مستحکم،مضبوط اور عوام کے لئے قابلِ قبول حکومت دینے میں مدد گار ہوں گے لیکن نتائج توقع کے انتہائی برعکس آئے۔ملک ان انتخابات کے نتیجے میں سیاسی افراتفری اور بے یقینی کا شکار ہو چکا ہے۔ ہم ایک بکھری ہوئی قوم بن چکے ہیں۔ رہنمائوں میں کوئی ایک بھی ملک کو جوڑنے کی نہیں سوچ رہا۔ملک کی سلامتی دائو پر لگی ہے۔ پاکستان کی سلامتی کو لاحق شدید خطرات،رہنمائوں کی نا اہلی اور عوام کی بے حسی کو ضبطِ تحریر میں لانا میرے لئے مشکل ہے۔پی ٹی آئی،نواز لیگ اور پی پی پی سمیت کوئی سیاسی پارٹی بھی قومی اسمبلی کی اتنی نشستیں لینے میں کامیاب نہیں ہوئی کہ سادہ اکثریت کے ساتھ کسی دوسرے کی مدد کے بغیر حکومت بنا سکے۔انتخابات میں پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ ووٹ ملے۔قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں بھی پی ٹی آئی کو ملی ہیں لیکن اتنی نہیں کہ وہ اکیلی حکومت بنا سکے۔پی ٹی آئی نے تمام مشکلات کے باوجود ریکارڈ ووٹ حاصل کئے۔پی ٹی آئی ووٹرز کا جذبہ دیدنی اور مثالی تھا۔اسلام آباد جہاں میں رہتاہوں،کے تمام پولنگ سٹیشنوں پر پی ٹی آئی کیمپ میں خوب گہما گہمی رہی۔اب جب کہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی نشستوں کے اعتبار سے سب سے بڑی پارٹی ہے اس لئے اصولاً ہونا تو یہ چاہیئے کہ یہی پارٹی حکومت بنائے۔اگر بالفرض پی ٹی آئی حکومت سازی میں ناکام ہوتی ہے تو پھر دوسری پارٹیوں کو حکومت سازی کا حق ملنا چایئے۔پی ٹی آئی کے بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی کسی دوسری پاڑی سے حکومت سازی کے لئے الحاق نہیں کرے گی۔اگر وہ اسی فیصلے پر قائم رہے تو پی ٹی آئی حکومت نہیں بنا سکے گی۔پی ٹی آئی کو یہ چیلنج بھی درپیش ہے کہ اس کے منتخب ارکان قومی و صوبائی اسمبلی آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے ہیں،اس لئے ان کے لئے پارٹی سے وابستہ رہنا ضروری نہیں۔وہ تتر بتر ہو سکتے ہیں۔ لاہور سے ایک نو منتخب رکن پہلے ہی ن لیگ میں شامل ہو چکے ہیں لیکن امید کرنی چاہیئے کہ پی ٹی آئی کے ارکان اپنی وفاداریاں تبدیل نہیں کریں گے۔
ان انتخابات میں کم نشستوں کے باوجودسب سے زیادہ فائدہ پی پی پی کو ہوا۔پیپلز پارٹی کو ایوان کی صرف 54نشستیں ملیںاور تیسرے نمبر پر آئی لیکن چونکہ پی ٹی آئی اور ن لیگ میں سے کوئی بھی اپنے تئیںحکومت نہیں بنا سکتی اس لئے پی پی پی کو یہ حیثیت مل گئی کہ وہ اپنی مرضی کی شرائط منوا کر ن لیگ کا ساتھ دے۔ پی پی پی نے پی ٹی آئی سے بات چیت کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ملنے پر ن لیگ پر احسان کر دیا۔ پی پی پی صدر سمیت تمام آئینی عہدے لینے میں کامیاب ہو جائے گی کیونکہ ن لیگ ہر صورت میں اقتدار میں رہنا چاہتی ہے اور یہ اقتدار وہ اپنے ہی گھر میں رکھنا چاہتی ہے۔اسی لین دین میں پی پی پی بلوچستان کی وزارتِ اعلیٰ بھی لے اُڑے گی۔پی ٹی آئی،ن لیگ سے انتہائی نالاں ہے اور اپنا سب سے بڑا حریف جانتی ہے۔پی پی پی اس بات کو جانتے ہوئے یہ توقع کر رہی تھی کہ پی ٹی آئی کی طرف جب بھی دوستی کا ہاتھ بڑھائے گی اسے فوراً مثبت جواب ملے گا ۔انتخابی جلسوں میں بھی بلاول ن لیگ پر تو تابڑ توڑ حملے کر رہے تھے لیکن پی ٹی آئی کو لبھاتی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔انتخابات کے بعد بھی بلاول نے الحاق کی ایک ناکام کوشش کی۔پی ٹی آئی کی طرف سے ہاں نہ کرنے کی وجہ سے جناب بلاول زرداری کا فوراً وزیرِ اعظم بننے کا خواب پورا نہیں ہوا۔
تمام اندازوں،تجزیوں،سرویز اور مشکلات کے برعکس پی ٹی آئی کے بانی چیئر مین جناب عمران خان کے چاہنے والوں نے کمال کر دکھایا۔اس جذبے کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔انتخابات سے پہلے جناب عمران خان کو جیل میںڈال دیا گیا۔انکو سزائیں ہو گئیں۔ان کا عوام سے براہِ راست رابطہ کٹ گیا انٹرا پارٹی انتخابات نہ کروانے کی پاداش میں پارٹی کوبلے کا نشان نہ مل سکا لیکن پارٹی کارکنوں اور ووٹروں کو داد دینی چاہیئے کہ انہوں نے بڑی تعداد میں باہر نکل کر پارٹی کے حق میں ووٹ کاسٹ کئے اور پاکستان تحریکِ انصاف کو قومی اسمبلی اور خیبر پختون خواہ کی اسمبلی میں سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی بنا دیا۔پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کی کارکردگی بہت اچھی رہی،البتہ بلوچستان اور سندھ میں کوئی اچھی کارکردگی نہ دکھا سکی۔چونکہ پی ٹی آئی کے امیدوار اپنی پارٹی کے نشان بلے پر انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے اس لئے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنے حصے کی مخصوص نشستیں حاصل کرنا اب ایک بڑا امتحان ہے۔پی ٹی آئی پر بہت کڑا وقت ہے جناب عمران خان جیل میں ہیں اور پارٹی کو ان کے وکلاء چلا رہے ہیں۔پارٹی میں فی الحال کوئی بھی منجھا ہوا سیاسی رہنماء موجود نہیں ہے۔جو وکلا اس وقت کرتا دھرتا کے طور پر سامنے ہیں ان کی سیاسی تربیت نہیں ہوئی۔ان کی قانوں پر گرفت بھی واجبی سی ہے گو کہ ان کے اندر جذبہ ہے لیکن صرف جذبے سے کام نہیں چلتا۔سیاست میں تعلیم،تربیت اور تجربہ بہت اہم ہوتا ہے۔ان نا پختہ سیاسی وکلاء کو جناب عمران خان کی بے پناہ مقبولیت سہارا دئے ہوئے ہے لیکن کب تک۔ڈر ہے کہ یہ حضرات پارٹی کا بڑانقصا ن نہ کروا دیں۔
موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کے علاوہ جو بھی مرکزی حکومت بنائے گا بہت گھاٹے میں رہے گا۔پی ٹی آئی بھی اگر حکومت بنائے تو یہ ایک بہت کمزور حکومت ہو گی لیکن جناب عمران خان کی مقبولیت اور بہت موئثر سوشل میڈیا کی بدولت غیر مقبول لیکن ضروری فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہو گی۔پاکستان کو گمبھیر چیلنجز درپیش ہیں۔پی ٹی آئی کا سب سے بڑا مسئلہ ایک انتہائی کمزور اور نا تجربہ کار ٹیم ہے۔بشری بی بی کی حد سے بڑھی ہوئی چھاپ بھی صحیح فیصلے کرنے میں رکاوٹ ہے۔اس سارے سیاسی دنگل میں ن لیگ بظاہر سب سے زیادہ گھاٹے میں رہنے والی ہے۔ن لیگ اس لئے گھاٹے میں ہے کیونکہ جناب شہباز شریف صاحب کے اندر وزیرِ اعظم بننے کی خواہش بچوں کی طرح مچلتی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ اس اہم ذمہ واری کے لئے نہیں بنے۔مقتدر قوتیں جناب نواز شریف کو بر سرِ اقتدار نہیں دیکھنا چاہتیں۔نواز شریف صاحب اپنے لمبے تجربے کی وجہ سے بہت موئثر وزیرِ اعظم بن جاتے ہیں اور جہاں خرابی نظر آئے،سوالات کرتے ہیں ،یہ بات کسی کو بھی اچھی نہیں لگتی۔
جناب شہباز شریف صاحب نے اپنے سوا سالہ دورِ حکومت میں ن لیگ کو ایک مقبول جماعت سے نا مقبول جماعت بنا دیا ۔ان کی کابینہ خاص کر اسحاق ڈار صاحب نے اچھا پرفارم نہیں کیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ جناب نواز شریف صاحب ن لیگ کی پنجاب میں حکومت بنواتے اور مرکز میں اپوزیشن میں بیٹھتےْ۔ ن لیگ جناب شہباز شریف کو وزیرِ اعظم اور محترمہ مریم نواز شریف کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب نامزد کر کے بہت بڑی غلطی کر رہی ہے۔موجودہ حالات میں جو بھی اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے گا،مستقبل اسی کا ہو گا۔اسی لئے تمام آئینی عہدے ہتھیاتے ہوئے پی پی حکومت کا حصہ نہیں بن رہی لیکن جب چاہے گی حکومت گرا دے گی۔ ن لیگ کے فیصلوں کی وجہ سے پارٹی کو بہت نقصان ہو رہا ہے۔ اگر یہی مقبولیت رہی توآنے والے کل میں پی ٹی آئی اکیلی حکومت سازی کر سکے گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button