کالم

غزہ کے مسلمانوں کی چیخیں

غزہ میں روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں مسلمانوں کو شہیدکرنے کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے پوری دنیا کے صرف انسان ہی نہیں بلکہ مسلمان بھی ان مظلوموں کی چیخیں سننے کو تیار نہیں ہیں بلکہ سن کر اپنے کان بند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر ظلم ہو رہا ہو ، روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں اور بسا اوقات ہزاروں افراد کے جسموں کو بموں سے اڑایا جا رہا ہو، نہتے انسانوں بالخصوص معصوم بچوں پر میزائل داغ کر ان کے ننھے بدنوں کے پرخچے اڑائے جا رہے ہوں، بچ جانے والوں کو بھوکے پیاسے مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہو، انہیں بے گھر کر کے امدادی کیمپوں میں رہنے پر مجبور کر دیا گیا ہو، جہاں وہ بھوک سے بلک رہے ہوں اور وقتاً فوقتاً وہاں بھی بمباری کر کے انہیں ختم کیا جا رہا ہو، کٹے پھٹے جسموں کو لیے زخمی کراہ رہے ہوں جن کے علاج کی کوئی سہولت موجود نہ ہو، ان مظلوموں تک امداد نہ پہنچنے دی جارہی ہو، خوراک اور اشیائے ضروریہ تک سے وہ لوگ محروم کر دیے گئے ہوں۔ اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والے مظالم سے دنیا اپنی آنکھیں نہیں چرا سکتی ، چاہے جتنی بھی کوشش کر لیں، جتنی ہی آنکھیں اور کان بند کر لیں مگر غزہ کے مظلوموں کی چیخیں ان تک پہنچ ہی جاتی ہیں کیونکہ وہ ہیں ہی اتنے بڑے پیمانے پر ۔ ان کے ضمیر انہیں ضرور ملامت کرتے ہیں، وہ من ہی من میں خود کو ضرور مجرم ٹھہراتے ہیں اگرچہ بظاہر وہ اپنے ڈھیٹ پن پر قائم ہیںمگر اندرونی طور پر وہ اس سے نظریں نہیں چرا سکتے کیونکہ یہ ہے جو اتنے بڑے پیمانے پر۔دنیا میں بڑے بڑے ممالک ہیں جو انسانی حقوق کی باتیں کرتے ہیںاور انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کے دعویدار ہیں، اپنے ملک سے غلامی اور کمزوروں و ماتحتوں پر ظلم کے خاتمے کا سہرا اپنے سر سجانے کی کوشش کرتے ہیں، انسانوں ہی نہیں بلکہ جانوروں کے حقوق کے تحفظ کا بھی دم بھرتے تھکتے نہیں ہیں۔ بڑی بڑی انسانی حقوق کی تنظیمیں دنیا بھر میں کام کر رہی ہیں اور خود کو انسانی حقوق کی محافظ خیال کرتی ہیںمگر غزہ میں ہونے والے مظالم ان لوگوں کو نظر نہیں آتے بلکہ نظر تو آتے ہیںمگر ان کی طرف سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں، زیادہ سے زیادہ اس کے لیے بیانات داغ دیتے ہیں مگر عملی طور پر کچھ نہیں کرتے۔ نہ فلسطین کا دورہ کرتے ہیں ، نہ اسرائیل پر دباؤ ڈالتے ہیںکہ وہ جنگ بند کرے اور فلسطینیوں تک امداد پہنچنے دے ۔ جنگ زدہ علاقوں میں اقوام متحدہ کی افواج تعینات ہوتی ہیں لیکن فلسطین کے لیے وہ بھی میسر نہیں ہیں۔ وہ تو ٹھہرے غیر مسلم مسلمانوں کے لیے دل میں درد محسوس نہ کرنے والے اور ایسے لوگ جو انسانی حقوق کی بات تو کرتے ہیں مگر انسان اسی کو مانتے ہیں جو ان کا ہم مذہب ہو یا کم از کم مسلمان نہ ہو مگر مسلمانوں نے فلسطینیوں کے لیے کیا کیا؟ کیا کوئی اسلامی ملک فلسطینیوں کو بچانے کے لیے آگے بڑھا ؟ کیا کسی مسلم حکمران نے فلسطینیوں کے لیے کوئی قدم اٹھایا ہے ؟ ابتداء میں تو تھوڑا بہت شور مچایا ، بیانات داغے، ایک دو ممالک کے وزرائے خارجہ نے پر امن ممالک کے دو دو طوفانی دورے کیے اور پھر سب کچھ ایسے معمول پر آگیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اسرائیل نے روزانہ ایک سو سے ڈیڑھ سو تک نہتے فلسطینی مسلمانوں کو شہید کرنے کا معمول بنا رکھا ہے مگر مسلم ممالک ہیں کہ ان کے کان پر جوں تکنہیں رینگتی ۔ پورے پورے خاندان اجڑ گئے، بستیوں کی بستیاں اسرائیلی بمباری کی نذر ہو گئیں، تیس ہزار سے زائد فلسطینی صرف حالیہ جنگ میں شہید کر دیے گئے جبکہ زخمیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اسلامی ممالک اسرائیل کے ساتھ ظلم میں برابر کے شریک ہیں اس لیے کہ وہ طاقت رکھنے کے باوجود اس کا ہاتھ نہیں روک رہے اور قدرت و طاقت کے باوجود ظالم کو نہ روکنا اس کے ظلم میں شراکت داری کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟ ستاون اسلامی ممالک مل کر اگر اسرائیل کو نہیں روک سکتے تو انہیں مر جانا چاہیے ، امریکی فوجی فلسطینیوں کے لیے احتجاج کر رہے ہیں بلکہ احتجاجاً خود کو آگ لگا رہے ہیں مگر مسلمان ان سے نظریں چرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر تمام اسلامی ممالک متحد ہو کر اسرائیل کے خلاف کاروائی کریں تو اسرائیل کی جرأت نہ ہو کہ وہ فلسطینیوں کی طرف میلی آنکھ سے بھی دیکھ سکے مگر یہاں تو نظام ہی الٹا ہو چکا ہے بجائے اسرائیل سے دشمنی اور نفرت کے اسلامی ممالک اسے تسلیم کر رہے ہیں اور اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں اگرچہ جنگ کی وجہ سے چند ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری کی پالیسی اپنا رکھی ہے لیکن کئی اسلامی ممالک ایسے بھی ہیں جن کے اسرائیل کے ساتھ مسلسل سفارتی و تجارتی تعلقات برقرار ہیں، جن میں انہوں نے ذرا برابر آنچ نہیں آنے دی۔ اسلامی ممالک کا یہی رویہ اسرائیل کو حوصلہ فراہم کرتا ہے اور وہ فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑتوڑرہا ہے ۔ جبکہ اسلامی ممالک کے حکمران اپنی اور اپنے ممالک کی دولت میں اضافے کی کوشش میں اس قدر اندھے ہو چکے ہیں کہ انہیں فلسطینیوں کی چیخیں سنائی نہیں دیتیںجس کے وبال سے یہ کبھی بچ نہیں پائیں گے، اس کی سزا انہیں ضرور بھگتنی پڑے گی جو کسی بھی صورت میں ہو سکتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button