
ایک تربیتی اجتماع میں ایک مقرر تقریر کررہے تھے انہوں نے بتایا کہ جب نبی اکرم کو جنت کی سیر کرائی گئی تو وہاں آپ نے ایک بہت خوبصورت عالی شان محل دیکھا تو فرشتوں سے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے فرشتوں نے جواب دیا جو لوگ دنیا میں در گزر سے کام لیتے ہیں یہ محل ان کا ہے۔ اسی طرح قرآن مجید میں اللہ تعالی نے پیارے رسول کو یہ بات احسان جتاکر بتائی کہ یہ ہمارا تم پر احسان ہے کہ ہم نے تمہیں نرم خو بنایا ورنہ تمہارے ارد گرد جولوگ ہیں وہ تم سے چھٹ جاتے یعنی تم سے دور ہوجاتے غلطی کو نظر انداز کردینا اور معاف کردینا یہ بہت مشکل کام ہے۔ ہم اگر اپنے اندر خود کا جائزہ لیں تو یہی بات سامنے آئے گی کہ ہمارے اندر بھی انتقامی جذبات کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں دفتر میں، محلے میں، خاندان میں اگر کوئی ہمارے ساتھ زیادتی کرجائے اسے درگزر اور معاف کرنے کے بجائے ہر وقت اسی سوچ و بچار میں غرق رہتے ہیں کہ ہمیں بھی کوئی ایسا موقع مل جائے کہ ہم بھی اسے چھٹی کا دودھ یاد دلا دیں۔ اس وقت ہم اپنے اس نبی جس کے ہم عاشق ہونے کا دعوی کرتے ہیں کی تعلیمات کو بھول جاتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر آپ نے اپنے جانی دشمنوں تک کو معاف کردیا تھا۔ جنہوں نے ساری زندگی آپ کو ذہنی اذیت اور تکلیف پہنچائی تھی، ابوسفیان آپ کے شدید مخالف تھے لیکن جب وہ ایمان لائے تو آپ نے ان کو ان کی سماجی اور سیاسی حیثیت کے مطابق مقام دیا کہ یہ اعلان کروایا کہ آج کے دن جو لوگ خانہ کعبہ میں یا ابوسفیان کے گھر پناہ لیں گے انہیں معاف کردیا جائے گا، سوائے دو ایک لوگوں کے جن کے بارے میں آپ نے کہا یہ لوگ اگر خانہ کعبہ کے پردے کے پیچھے بھی چھپ جائیں انہیں قتل کردیا جائے۔ہمارے سیاست دانوں اور اعلی سول و فوجی بیوروکریسی میں اس طرح کے جذبات بہت زیادہ پائے جاتے ہیں، یہ 1990 کی بات ہے بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں، غلام اسحاق خان صدر تھے اس وقت آئین کی دفعہ 58-2B کے تحت صدر کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اسمبلی توڑ سکتا ہے، آئین میں یہ ترمیم صدر ضیا الحق نے 1985 کی قومی اسمبلی سے منظور کروائی تھی اور اسی اختیار کے تحت انہوں نے محمد خان جونیجو کی حکومت ختم کی تھی۔ وزیر اعظم بے نظیر کو یہ سن گن ملی کے صدر اسحاق خان ان کی حکومت ختم کرنے والے ہیں ان کی حکومت پر بدعنوانی کے الزامات لگ رہے تھے یہ کسی حد تک درست تھا اسی زمانے میں آصف زرداری کے نام کے 10پرسنٹ کے الفاظ جڑے ہوئے آتے تھے، پھر ایک دن بے نظیر کو اپنے خفیہ ذرائع سے پتا چلا کہ صدر صاحب کل اسمبلی توڑنے والے ہیں انہوں نے امریکی سفیر سے رابطہ کیا، امریکی سفیر نے دوسرے دن صبح صدر اسحاق خان سے ملاقات کی تو صدر صاحب نے انکار کیا کہ ایسا کوئی پروگرام نہیں ہے، امریکی سفیر نے بے نظیر کو فون کرکے یہ بتادیا کہ صدر صاحب کا ایسا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ وزیر اعظم صاحبہ مطمئن ہو گئیں شام کو غلام اسحاق خان کا بینظیر کے پاس فون آیا کہ وہ اسمبلی توڑنے کا اعلان کررہے ہیں بے نظیر نے حیران ہوکر پوچھا کہ آپ نے تو امریکی سفیر کو کہا تھا کہ ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے صدر نے کہا کہ یہ فیصلہ دوپہر کے بعد ہوا ہے یہ کہہ کر فون بند کردیا۔ ہوسکتا ہے کہ صدر اسحاق پر کسی کا دبائو ہو۔پھر انتخابات ہوئے نواز شریف وزیر اعظم بن گئے تقریبا پونے تین سال گزرنے کے بعد صدر اور وزیر اعظم کے درمیان پھر اختلافات ہو گئے، صدر صاحب نواز شریف کی حکومت ختم کرنا چاہتے تھے وزیر اعظم اڑ گئے انہوں نے اس وقت فوج کے چیف عبدالوحید کاکڑ سے رابطہ کیا انہوں نے صدر صاحب سے رابطہ کیا خبر تو یہ آئی وہ نہیں مانے یا کوئی اور نہیں مانا یہ اللہ بہتر جانتا ہے بہر حال شاید نواز شریف نے کہا کہ اگر صدر استعفا دیں گے تو میں بھی دے دوں گا، تینوں کا مشترکہ اجلاس ہوا تو کاکڑ صاحب نے یہی تجویز رکھی وزیر اعظم تو آمادہ تھے لیکن غلام اسحاق کچھ تذبذب کا شکار تھے بے نظیر باہر بیٹھی یہ سیاسی اتار چڑھائو دیکھ رہی تھیں اب پتا نہیں اجلاس کے اندر یا باہر الگ سے بے نظیر نے غلام اسحاق خان کو یہ یقین دہانی کرائی کہ اگلی مرتبہ اگر پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو وہ آپ کو دوبارہ صدر بنالیں گی ہمارے صدر صاحب بھولے بادشاہ نے بے نظیر کی یقین دہانی پر اعتماد کرتے ہوئے استعفا دے دیا دوبارہ انتخابات ہوئے بے نظیر صاحبہ دوبارہ وزیر اعظم بن گئیں غلام اسحاق خان کے داماد بے نظیر کے دوستوں میں سے تھے جس دن کابینہ کی تشکیل ہو رہی تھی غلام اسحاق خان اپنے داماد کے گھر بیٹھ کر بے نظیر کے فون کا انتظار کرتے رہے شام تک فون نہیں آیا پھر کابینہ کی تشکیل کے بعد شاید اسی دن بے نظیر نے اپنی پارٹی کے فاروق لغاری کو صدر بنادیا پھر غلام اسحاق خان مایوس ہو کر بے نیل و مرام واپس گھر چلے گئے اس طرح بے نظیر بھٹو نے غلام اسحاق خان سے اپنا انتقام لے لیا۔
بے نظیر کو اطمینان ہوگیا کہ اپنی پارٹی کے آدمی کو صدر بنایا ہے اس لیے اب کوئی خطرہ نہیں لیکن حالات نے پلٹا کھایا تین سال بعد 1996 میں صدر فاروق لغاری نے کسی دبائو پر اسمبلی توڑدی اور بینظیر حکومت ختم ہو گئی بے نظیر کو اس پر حیرت اور اس سے زیادہ صدمہ ہوا کہ ان کی پاٹی کے فرد نے دھوکا دیا۔ 1996 کے انتخابات میں نواز شریف نے واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی، بے نظیر نے نواز شریف سے رابطہ کیا اور ان کے ساتھ مل کے اسمبلی توڑنے کے صدر کے اختیارات کو ختم کرنے کے حوالے سے آئینی ترمیم لانے میں اپنی پارٹی کی حمایت کا یقین دلایا نواز شریف تیار ہوگئے اور اس طرح دونوں پارٹیوں کے اتحاد سے آئین میں ترمیم کرکے صدر کے اسمبلی توڑنے کے اختیار کو ختم کردیا۔ فاروق لغاری پی پی پی ہی سے وابستہ تھے لیکن بے نظیر بھٹو نے اس طرح فاروق لغاری سے اپنا انتقام لے لیا۔
دو تہائی اکثریت ویسے ہی دماغ کو چوتھے آسمان پر پہنچا دیتی ہے اسی دور میں ایک آرمی چیف نے کچھ اس طرح کا بیان دیا کہ جس کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ آئین میں کچھ اداروں کے لیے بھی گنجائش نکالی جائے اس بیان پر نواز شریف نے ان سے استعفا لے لیا، اب اس کا کہیں نہ کہیں خاموش ردعمل تو ہوتا ہے پھر پرویز مشرف فوج کے سربراہ بنے ان کی پلاننگ سے کارگل محاذ کھل گیا ن لیگ کا خیال تھا کہ ان سے اس اہم معاملے پر کوئی مشاورت نہیں ہوئی بہر حال ساری ذمے داری تو سول حکومت پر آرہی تھی ہم جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے تھے، نواز شریف کو امریکا جانا پڑا اور کارگل کے محاذ کو جہاں بھارت کے ساتھ ساتھ ہمارا بھی کافی جانی نقصان ہوچکا تھا ٹھنڈا کرنا پڑا پرویز مشرف اس جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتے ہوں گے بہر حال اس بے مزہ جنگ میں میں پرویز مشرف کی کافی سبکی ہوئی یہ کانٹا تو پرویز مشرف کے دل میں چبھا ہوا تو تھا ہی کہ 1999 میں پرویز مشرف کسی سرکاری امور کی انجام دہی میں ملک سے باہر گئے ہوئے تھے کہ یہاں نواز شریف نے آرمی چیف تبدیل کردیا اور جنرل ضیا الدین بٹ کو نیا چیف بنادیا پھر اندرونی کہانی تو بہت لمبی ہے قصہ مختصر یہ کہ انقلاب آگیا پرویز مشرف ملک کے سربراہ بن گئے اس طرح پرویز مشرف نے نواز شریف سے اپنے خلاف ہونے والے فیصلوں کا انتقام لے لیا۔
اقتدار کے ایوانوں میں انتقام در انتقام کی کہانی تو بہت لمبی ہے کہ کس طرح پرویز مشرف اسٹیل مل کے مسئلے پر عدالت عظمی سے اپنی مرضی کا فیصلہ چاہتے تھے لیکن جب افتخارچودھری نے ان کی منشا کے خلاف فیصلہ دیا تو پھر ان کے ساتھ کیا ہوا پھر وکیلوں نے حکومت وقت کے خلاف کس طرح عوامی تحریک اٹھائی ان سب چیزوں کو چھوڑتے ہوئے آخر میں ایک واقعہ انتقام کا اور بتا کہ مضمون ختم کرتے ہیں عمران خان کے دور میں قاضی فائز عیسی کو عدالت عظمی کا جج بنایا گیا تو عمران خان نے اس تقرر کو کسی کے ایما پر پسند نہیں کیا اور ان کے خلاف سپریم جوڈیشنل کونسل میں ریفرنس داخل کردیا خیر کچھ عرصے بعد قاضی فائز عیسی بحال ہو گئے اور عمران کی حکومت جانے کے بعد وہ عدالت عظمی کے چیف جسٹس بن گئے پچھلے دنوں ان کی عدالت میں پی ٹی آئی کے نشان بلے کا کیس گیا وہ فیصلہ تحریک انصاف کے خلاف آیا جس سے تحریک انصاف نہ صرف بلے کے نشان سے محروم ہو گئی بلکہ انتخابات میں اس کی مشکلات بہت بڑھ گئیں اس فیصلے کے بعد عمران خان کا جو بیان آیا وہ یہ تھا کہ ہم سے انتقام لیا گیا ہے۔