
حج کے بہت سے فوائد حکمتیں اور مصلحتیں بیان فرمائی گئی ہیں ۔دنیا میں تقریباً ہر ملت کا ایک اجتماع ہوتاہے ۔جسمیں اس امت کے لوگ جمع ہوکر کچھ رسوم اداکرتے ہیں ۔حج ایک رسم ہی نہیں عظیم اجتماع ہے جسمیں پوری دنیا کے مسلمان ایک ہی مرکز پر جمع ہوکر نہ صرف دنیوی بلکہ اخروی فوائد بھی حاصل کرتے ہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :۔”ہم نے اس گھر ( بیت اللہ ) کو لوگوںکیلئے مرجع اور ان کیلئے امن کی جگہ بنایا ہے ”۔بیت اللہ شعائر اللہ میں سے ہے اور اسکا دیدار ،زیارت ،طواف اور تعظیم کرنا گویا اللہ کی تعظیم کرنے کے برابر ہے ۔حضوراکرم ۖ کا ارشادگرامی ہے کہ ”اپنے مشاعر پر قائم رہوکیونکہ تمہارے باپ ابراہیم کی وراثت سے تم کو یہ ورثہ ملا ہے ”۔حج میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اطاعت الہٰی کا اظہار ہوتاہے کیونکہ مناسک حج اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کیلئے ہی ادا کئے جاتے ہیں ۔اعمال اور افعال حج کی تکمیل سے ایک حاجی موحد ،حق کا تابع او رشکر گذار بندہ بن جاتاہے ۔ وہاں کے درو دیوار یا وادیوں وغیرہ کی حاضری صرف مقدس مقامات کی حاضری ہی نہیں بلکہ خالق و مالک کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے جسمیں ایک عاجز بندہ ،بندگی کا حق اداکرنے کیلئے دیوانہ وا ر لبیک الھم لبیک کا ورد کرتے ہوئے حاضر ہوتاہے ۔
زمانہ جاہلیت میں بھی حج ہوتاتھا مگروہ ان احکامات کے بالکل الٹ تھا جو حضر ت خلیل اللہ نے ارشاد فرمائے تھے ۔توحید کے بجائے اس میں شرک پایا جاتاتھا ،اہل مکہ خود کو اللہ کا ہمسایہ سمجھ کر اپنی مرضی سے جو چاہتے کرتے تھے ۔تلبیہ میں شرکیہ الفاظ کی آمیز ش کے علاوہ بتوں کی پرستش بھی حج کے مناسک میں شامل کررکھی تھی ۔شریعت محمدیہ میں ان تمام امور فاسدہ کی اصلاح کی گئی جو زمانہ جاہلیت میں لوگوں میں عام تھی ۔ شعائر اللّٰہیہ کی عظمت وبزرگی کو قائم رکھا گیا ۔اس عظیم اجتماع میں تمام دنیا سے آئے ہوئے فرزند ان توحید کو ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شریک ہونے کا موقعہ مل جاتاہے ۔ان کے باہمی تعارف ،اتحاد واتفاق اور تعلقات میں وسعت کیلئے حج ایک بہترین ذریعہ ہے ۔ ملت اسلامیہ کے اس عظیم اجتماع میں مشرق و مغرب سے آکر مسلمان باہمی الفت ، محبت اور تعارف حاصل کرتے ہیں۔ گویا کہ حج کا اجتما ع ایک ایسی کل عالمی کانفرنس ہے جس کی نظیر پوری دنیا میںنہیں مل سکتی ۔زمانہ حج میں اسلامی عسکری زندگی کا پہلو ہی پایا نہیں جاتا بلکہ غریب وامیر کا فرق ختم ہوجاتاہے اور مساوات پائی جاتی ہے ۔سب کا لباس احرام کی شکل میں ایک جیساہوتاہے او رترانہ لبیک الھم لبیک بھی ایک ہی ہوتاہے ہر ایک کی زبان پر یہی کلمہ ہوتاہے ۔حاضر ہوں ،یااللہ میں حاضر ہوں ،تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں ،تما م تعریفیں تمام نعمتیں اور بادشاہی تیری ہی ہے تیرا کوئی شریک نہیں ۔
مکہ مکرمہ میں اللہ کا گھر ہے اور حضور اقدس ۖ کا جائے مولدہے ،مدینہ منورہ ہجرت کا گھرہے اور وہاں
حضورپاک ۖ کی مسجد نبوی ۖ اور روضہ ٔ اطہر ہے۔حج کرنے والوں کو ان دونوں مقدس ومتبرک شہروں کی حاضری نصیب ہوتی ہے وہاں کی خریداری سے اہل مکہ اور اہل مدینہ کی ایک طرح سے مدد اور نصرت ہوجاتی ہے ۔حج اللہ او راس کے رسول ۖ سے محبت کا ایک امتحان ہوتاہے ۔مال و دولت او رصحت و تندرستی اللہ تعالیٰ کاعطیہ ہے ان دونوں نعمتوں کو دینے والے کی رضا کیلئے استعمال میں لانا یعنی سفرِ حج اختیار کرنا ،گھریلوآرام سکون آسائیش چھوڑ کر حرمین شرفین کی حاضری کیلئے نہ مال کی اور نہ جان کی پرواہ کرنا ہی وہ امتحان ہے جو فریضۂ حج کی ادائیگی کے بعد بند گانِ خداکو سرخرو کرتاہے ۔ صاحب استطاعت مومنوں میں ایک تووہ ہیں جو کسی قسم کی تکلیف اور پریشانی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے دیوانہ وار اللہ کے گھر کی حاضری کیلئے بے تاب ہوتے ہیں ۔جبکہ بعض دوسرے پوری استطاعت ہونے کے باوجود طرح طرح کے حیلوں بہانوں سے ٹالتے رہتے ہیں ایسے افراد ایک طرف تو فریضہ ٔ حج کی سعادت اور اس کے فوائد سے محروم رہتے ہیں اور دوسری طرف ومن کفرا یعنی انکار کرنے
والوںکے زمرے میں آجاتے ہیں ۔احرام کی مشابہت کفن سے ہوتی ہے اور عرفات میں لاکھوں انسانوں کا اجتماع روز محشر کی یاد دلاتاہے جسکی طرف جانے کیلئے تیاری کرنے کی فکر دامن گیر ہوتی ہے ۔دنیا کے کونہ کونہ سے آئے ہوئے فرزندان توحید کی عادات ، اخلاق ، رہن سہن اور ان کے مسائل کا ایک دوسرے کو علم ہوتاہے
حج ایک ایسی عبادت اللّہیہ ہے جسکی حکمتیں اور مصلحتیں اتنی زیادہ ہیں کہ ان کو تحریر میں لانا نہائیت ہی مشکل کام ہے سچ تویہ ہے کہ ایک عام انسان کی ان تک رسائی ہی ممکن نہیں ہے جو ں جوں غور و فکر کیا جائے زیادہ سے زیادہ فوائد اور حکمتیں سمجھ میں آنے لگتی ہیں ۔ اصل اور بنیادی حکمت تو اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرکے اس کے حکم کی تعمیل میں سرجھکا دینا ہے جسکا نتیجہ دنیا سے بے رغبتی پیدا کرنا ہے ۔حج کے بارے میں حکم یہ ہے کہ کرنے سے ثواب اور ترک کرنے سے عذاب ملتاہے ،اور اسکی فرضیت سے انکار کفر تک پہنچا دیتا ہے ہر صاحب استطاعت مرد و زن پر زندگی میں صرف ایک دفعہ حج کرنا فرض ہے ۔اور باربار کرنے سے باطنی زندگی میں نکھار آجاتا ہے ۔عبادات کا مقصد اظہار عبودیت اور شکر نعمت خداوندی ہوتاہے ۔اظہار عبودیت کا مطلب اپنے معبود حقیقی کے سامنے اپنی عاجزی اور انکساری کا اظہار ہوتاہے ۔ہر حرکت سے عاجزی ظاہر ہوتی ہے ۔زکوٰة مالی اور نماز روزہ بدنی عبادتیں ہیں جبکہ حج ایک ایسی عبادت ہے جسمیں مالی اور بدنی دونوں عبادتیں پائی جاتی ہیں ۔واجبات حج کیلئے کثیر رقم مختص کرنے کے علاوہ گھر بار عزیز و اقارب ،مال و دولت اور کاروبار چھوڑ کر سفری مشکلات برداشت کر نا ،دنیاوی زیب و زینت کا لباس ترک کرکے ایک تہبند اور ایک چادر اوڑ ھ کر خود کو خالق و مالک کے دربار میں پیش کرنا تاکہ اسکی رحمت کا حقدار بن جائے وہ اظہار عبودیت کا اعلیٰ طریقہ ہے جس پر سرکار دوجہاں جناب محمد رسول اللہ ۖ کی تصدیق کی مہر لگی ہوئی ہے۔سورۂ الحج آیت ٢٦ تا ٢٨ میں حج کے حکم کے بارے میں فرما یا گیا ہے کہ :۔”آپ لوگوں میں حج کے فرض ہونے کا اعلان کردیں اس اعلان سے لوگ آپ کے پاس (یعنی آ پ کی اس عمارت کے پاس حج کیلئے ) پیدل چل کر بھی آئیں گے اور ایسی اونٹنیوں پر سوار ہوکر بھی آئیں گے جو دور دراز راستوں سے چل کر آتی ہوں اور سفر کی وجہ سے دبلی ہوگئی ہوں تاکہ یہ آنے والے اپنے منافع حاصل کریں ”۔ منافع سے مراد دنیا او ر آخرت دونوں میں فائدہ کے ہیں ۔آخرت کے منافع سے مراد اللہ تعالیٰ کی
خوشنودی حاصل کرنا اور دنیوی منافع سے مراد تجارت وغیرہ کے ہیں ۔ ارشاد نبوی ۖ ہے کہ ”جس نے محض اللہ کی خوشنودی کیلئے حج کیا اور رفث ،یعنی جماع اور اس کے تذکر ے اور لغو کام اور فسق یعنی ہر قسم کے گناہ کے کاموں سے محفوظ رہاتو وہ حج سے ایسا پاک ہوکر واپس آتاہے جیسا کہ ماں کے پیٹ سے پید ا ہونے کے دن پاک تھا ۔ اسکے حج سے پہلے کے تمام صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں ،البتہ حقوق العباد وغیرہ کی ادائیگی ساقط نہیں ہوتی اور حج کے بعد یا پہلے اس کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے ۔ایک روایت میںہے کہ” حج مبرور دنیا ومافیہا سے بہتر ہے اور حج مبرور کا بدلہ جنت ہی ہے ” حج مبروروہ ہوتا ہے جسمیں گناہ ہونہ ریاکاری ہو اور جس میں سخاوت اور حسن اخلاق ہو ۔بعض کے نزدیک حج مبرور وہ ہے جس کے بعد گناہ کا ارتکاب نہ کیا جائے ۔امام حسن بصری کے نزدیک حج مبرور سے مراد وہ حج ہے جس کے بعد دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی طرف رغبت پیدا ہو جائے ۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ یوم عرفہ کو شیطان غصہ میں اسلئے ہوتاہے کہ اس دن اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتاہے اور بندوں کے گناہ معاف کئے جاتے ہیں ۔بچوں عورتوں اور بوڑھوں کا حج کرنا اِسطرح ہے جیسے انہوں نے جہاد میں شرکت کی ہو۔ ایک روایت میں ہے کہ ” بوڑھے آدمی ، بچے اور عورت کا جہاد حج وعمرہ کرناہے ۔حاجی اللہ کے مہمان یعنی ضیوف الرحمٰن ہوتے ہیں ۔حدیث میںہے کہ ان کی دعائیں اسلئے قبول ہوتی ہیں کہ وہ اللہ کے وفد ہوتے ہیں ۔وہ سفر حج میں جو کچھ خرچ کرتے ہیں اللہ ا ن کو اسکا دگنا عطافرماتاہے ۔حدیث میں ہے ” جو شخص حج یا عمرہ کیلئے نکلے اور راستہ میں فوت ہوجائے تونہ اس کی عدالتِ قیامت میںپیشی ہوگی اور نہ حساب کتاب ہوگا اور اس کو کہہ دیا جائے گا کہ جنت میں داخل ہوجا” ۔حضر ت ابن مسعود جابر سے روایت ہے کہ پے درپے حج وعمرہ کرو کہ یہ دونوں فقراور گناہوں کو اسطرح دور کرتے ہیں جیسا کہ آگ کی بھٹی ،لوہے ،سونے اور چاندی کے میل کو دورکرتی ہے ۔