کالم

موت

ایک ویڈیو نظروں سے گزری کہ ایک شادی کے دن دولہا ہار باندھے بیٹھا ہے اور لمحوں میں ہارٹ اٹیک کا شکار ہو کرمر جاتا ہے۔یوں شادی کا گھر ماتم میں بدل جاتا ہے۔خوشی اور غم ساتھ ساتھ چلتے ہیں لیکن اس طرح اچانک غم انسان کوایک عبرت دلادیتا ہے۔اللہ تعالی کا قانون ہے کہ ہر نفس نے مرنا ہی ہے۔قرآن کریم کی سور الانبیا میں ہیکل نفس ذاق الموتہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔موت برحق ہے۔اللہ پاک نے انسان کوزمین پر اتارا کہ آزمائش کی جائے۔زندگی کے بعد پھر موت عطا کر دی تاکہ آزمائش کااجردیا جائے۔یہ اجر سزا بھی ہو سکتی ہے اور جزا بھی۔موت ایک ایسی چیز ہے جو ظالم کو بھی آنی ہے اور مظلوم کو بھی،امیر نے بھی مرنا ہے اور غریب نے بھی بلکہ ہر نفس نے مرناہی ہے۔تمام جانداروں نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔چرند،پرنداورانسان وغیرہ سب نے ہی اس عالم فانی کو چھوڑناہی ہے۔یہ اور بات ہے کہ موت بعض اوقات کسی کو اچانک پکڑ لیتی ہے اور کوئی بیمار رہ کر ہی مرتا ہے۔اچانک موت زیادہ عبرت ناک ہوتی ہے۔ماضی میں کئی ایسے افراد گزرے جنہوں نے خدا ہونے کا دعوی کیا تھا۔قرآن حکیم میں ہے کہ فرعون نے کہا تھااناربکم الاعلی(میں رب اعلی ہوں)لیکن قرآن آگے وضاحت کرتا ہے کہ وہی سب سے بڑے رب ہونے کا دعوی دارپانی میں ڈوب کر دنیا کے لیے عبرت کا نشان بن گیا۔شداد بھی اپنےآپ کو ایک اعلی ہستی سمجھتا تھا،اس نے دنیا میں جنت بناناشروع کردی،لیکن اپنی خود ساختہ جنت میں قدم رکھنے سے پہلے ہی مر گیا۔کہاں گیا نمرود،جو خداہونے کا دعوے دار تھا؟نمرود کوایک مچھر نیمار دیا تھا۔انسانی تاریخ ایسی مثال سے بھری پڑی ہے جو اپنے آپ کو خدایابرگزیدہ ہستی تصور کرتے تھے،لیکن دنیا فانی کو چھوڑ کردوسرے انسانوں کے لیے عبرت کا نشان بن گئے۔موت آنی ہی ہے،اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔روزانہ ہونے والی اموات زندہ انسانوں کے لیے ایک سبق رکھتی ہیں۔اہل بصیرت سبق سیکھ کر اس پر عمل بھی کرتے ہیں لیکن نادان انسان عبرت نہیں پکڑتے۔منصوبے صدیوں کے بنائے جاتے ہیں لیکن اگلے پل کا پتہ ہی نہیں ہوتا۔بعض اوقات ایک انسان کئی سالوں کی منصوبے بنا لیتا ہے،ایسے ایسے منصوبہ جات جن کی تکمیل کے لیے 10 سے 15 سال کا وقفہ درکار ہوتا ہے،یا کچھ زیادہ عرصہ لیکن وہی منصوبہ سازاچانک کسی حادثے کا شکار ہو کر مر جاتا ہے۔دنیا میں ہر لمحہ انسان کے عبرت کے لیے ہے۔قبرستانوں میں جا کر نظر دوڑائی جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایسے ایسے انسان دفن ہیں جویقین رکھتے تھے کہ انہوں نے ہمیشہ رہنا ہے۔بعض اوقات موت ایسے اچانک پکڑتی ہے کہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ موت کیسے آ ہے۔کالم کے ابتدا میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح دولہا اچانک موت سے مر گیا۔اس طرح کے کئی واقعات دیکھنے میں نظرآجاتے ہیں کہ اچھی طرح بھلا چنگا فردکسی ناگہانی حادثے کا شکار ہو کرمر جاتا ہے۔موت سے کوئی نہیں بچ سکتا یہ ابدی حقیقت ہے۔انسان لاکھ پردوں میں چھپ جائے لیکن موت کے
خونی پنجوں سے نہیں بچ سکتا۔تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایالذتوں کو توڑدینے والی موت کو کثرت سے یاد کرو(ترمذی)موت کا خیال آتے ہی انسان دنیا کی بے ثباتی پرسوچنا شروع کر دیتا ہے۔اللہ تعالی قران حکیم میں ارشاد فرماتے ہیں کہ موت کے بعدہر انسان کو اپنے اچھے اور برے اعمال کی جزا و سزا مل جائے گی۔کتنا ہی کوئی متکبر شخص ہو،کتنا ہی کوئی طاقتور ہو،آخر اس نے مر کر اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔اگر انسان موت کویاد کرنا شروع کر دے معلوم ہو جائے گا کہ زندگی کا عرصہ ایک سفر کی مانند ہے۔بخاری شریف میں ہے، حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سیارشاد فرمایادنیا میں ایسے رہو،جیسے مسافر بلکہ راہ چلتا۔واقعی آقا پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان برحق ہے کہ انسان ماضی کو یاد کرتا ہے تو کل کی بات لگتی ہے۔سو سال یا ہزار سال زندگی گزار لے،آخر انسان نے مر ہی جانا ہے۔موت سے انسان جتنا بھی چھپنا چاہے،نہیں چھپ سکتا۔ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں ایک شخص بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اور شخص آگیا۔آنے والا شخص بیٹھے ہوئے شخص کو گھور گھور کر دیکھنے لگ گیا۔گھورنے والا شخص جب محفل سے اٹھ کر چلا گیا تو اس شخص نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے اس بارے میں پوچھا کہ وہ شخص مجھے کیوں گھور گھور کر دیکھ رہاتھا۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس شخص کو بتایا کہ وہ ملک الموت تھا۔اس شخص نے ڈر کر حضرت سلیمان علیہ السلام سے عرض کی کہ مجھے کہیں دور دراز علاقے میں بھیج دیا جائے تاکہ یہ مجھ تک نہ پہنچ سکے۔حضرت سلمان علیہ السلام نے ہوا کو حکم دیا کہ اس کو کہیں دورکے علاقہ میں لے جائے۔کچھ وقت کے بعدملک الموت پھرآیا تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس واقعے کے بارے میں پوچھاتو ملک الموت نے جواب دیا کہ مجھے حکم دیا گیا تھا کہ فلاں علاقے میں اس شخص کی روح قبض کرنی ہے مگر میں نے دیکھا کہ یہ شخص یہاں بیٹھا ہوا ہے ۔واقعی موت انسان کوہر حال میں آنی ہے۔
موت توآنی ہے یہ ایک حقیقت ہے۔ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وصال ہوا تو اللہ تعالی نے ان سے فرمایا کہ اے میرے خلیل!تم نے موت کو کیسے پایا؟عرض کی،جس طرح گرم سیخ کو تر روئی میں رکھا جائے پھر اسے کھینچ لیا جائییعنی اتنی موت کی سختی۔اللہ تعالی نے ارشاد فرمایاہم نے آپ پر موت کو آسان کیا ہییعنی اتنی آسان موت ہونے کی باوجود بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کوکافی تکلیف ہوئی،جب سخت موت ہوگی تو اس کا کیاحال ہوگا؟بخاری شریف میں ہے،حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ بے شک حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے پانی کا ایک برتن رکھا ہوا تھا۔اپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ پانی میں داخل کرتے،پھر انہیں اپنے چہرے انور پر ملتے اور کہتے،بے شک موت میں تکلیف ہوتی ہے۔پھر دست مبارک اٹھا کر فرماتے، رفیق اعلی میں،یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی روح مبارک قبض کر لی گئی اور دست مبارک جھک گیا۔یہ احادیث اور واقعات بتاتے ہیں کہ موت کتنی سخت ہوگی۔موت کی تیاری کرنی چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button