کالم

دریابرد نہ کریں

کہتے ہیں دنیا میں ایک ملک ایسا بھی ہے جہاں طوائفوں کا جنازہ نہیں پڑھاجاتا ، دفنانے کے بجائے انہیں سمندر برد کردیا جاتا ہے۔ دلیل یہ ہے کہ مرنے والوں نے زندگی پاک صاف نہیں گزاری ہوتی۔دوسرا خیال یہ کہ ہم جانتے ہیں یا ہمارا رب کہ کون گناہگار اور کون پرہیزگار ہے۔اس کا فیصلہ وہ ذات کرے گی جس نے ہمیں پیدا کیا ہے اور جس نے ہمیں موت دینی ہے۔ سمندر برد کرنے والے انسان بنے خدا نہ بنیں ؟ کیا قصور وار وہ نہیں ہیں جھنوں نے انہیں طواف بنے دیا بنائے رکھا۔وہ ناچ گانا کرتی ہیں، لوگ انکے پاس آتے ہیں۔ اگر انہیں سمندر برد کرنا ہے تو انکے پاس آنے والوں کو سمندر برد کیوں نہیں کرتے۔ طوائف کہتی ہیں ہم گانا بجانا اپنے کوٹھے پہ کرتی ہیں۔جس سے ہمار گھر کے چولہے جلتے ہیں،ہمارے بھی بزرگ ہیں جنہیں ہم پالتیں ہیں۔ کس نے کہا کہ کوٹھے والیاں گناہگار ہوتی ہیں۔ ہم گاتی اور ناچتی ہیں۔اگر پیسے ہوتے تو ہم بھی اسٹوڈیو میں جا کر گاتیں لوگ گانے سنتے خریدتے اور ریلٹی ہمیں ملتی۔ فلموں کے لے گاتی،شہرت ملتی پیسہ ملتا ۔ یاد رہے ہم میں کچھ ایسی بھی ہیں جو مجبوری کے تحت اس پیشے سے منسلک ہیں جن کو معاشرہ ٹکراتا ہے وہ ہمارے پاس چلی آتی ہیں۔ کتنے لوگ ایسے ہیں جو ہمارے متعلق نیک خواہشات رکھتے ہیں، سوچتے ہیں کہ انہیں بھی معاشرے میں عزت ملنی چاہیے۔ اگر غریب گاتی ہیں ناچتی ہیں تو انگلیاں اٹھتی ہیں، زبانیں چلتی ہیں اگر امیر گھرانوں کے گانے گائیں ڈانس کریں تو انہیں آرٹسٹ فنکار کہتے ہیں جبکہ غریبوں کو ایسا کرنے پر بیہودہ لقب سے نوازا جاتا ہے ۔ یہ سوچ اور خیالات کا دوہرا معیار کیوں ہے؟ ایک وہ ہیں جو خوبصورت لباس پہن کر ماڈلنگ کرتی ہیں فلمی دنیا سے منسلک ہیں۔کیا کبھی ان کو بھی کسی نے سمندر برد کیا ہے یا کرنے کاکسی نے سوچا ہے ۔ایسا سوچنا بھی نہیں چاہیے ۔ کیا کبھی طوائف کو بہتر زندگی گزارنے کا کسی نے سوچا ہے۔اس سوال پر مجھے پیر کاکی تاڑ یاد آگئے جن کا تعلق زمیندار گھرانے سے تھا۔ مجھے ان کی قریت حاصل رہی ہے۔وہ فرشتہ نما خوبصورت انسان تھے۔ وہ اکثر لاہور کے بازار حسن اور بادشاہی مسجد میں آتے جاتے تھے۔ انہوں نے طوائف کمیونٹی کیلئے بہت احسن کام کئے اس نیک کام میں بادشاہی مسجد کے امام کے تعاون سے ایک نہیں درجنوں طوافوں کی شادیاں کرائیں ان کے گھر بسائے۔اچھے لوگ آج بھی ہیں جن کا ہم ذکر نہیں کرتے۔ علم نہیں رکھتے۔اس موقع پر حضرت بہاوالدین ذکریا سے منسوب ایک واقعہ یاد آگیا۔کہا جاتا ہے کافی عرصے سے بارش نہیں ہو رہی تھی سب پریشان تھے ،دعائیں کرتے نمازیں پڑھتے مگر بارش نہ برستی۔ لوگ اکھٹے ہوئے سوچا آج حضرت بہاوالدین ذکریا کے پاس دعا کرانے جاتے ہیں ۔سب نے ملکر آپ سے عرض کی کہ بارش کی دعا کرانے حاضر ہو? ہیں۔ آپ نے فرمایا یہاں ایک عورت رہتی ہے اگر اس نے دعا کی تو بارش ضرور ہو گی۔پوچھا وہ کون ہے ؟ جواب ملا وہ طوائف ہے۔ اگر وہ مان گئی اور دعا پر راضی ہوئی تو بارش ہو جائے گی۔۔سب اس کے پاس جانے کیلئے راضی ہو گ?، جب اس گھر کے قریب پہنچے تو وہ ہجوم کو دیکھ کر پریشان ہو گئی۔ حضرت نے قریب جا کر اس سے ہم کلام ہوئے اور مدعا بیان کیا ۔یہ سن کر اس نے کھڑکی سے ہاتھ باہر نکال کردعا کی تو فوری بارش شروع ہو گئی۔جب وہ ہاتھ کھڑکی کے اندر لے گئی تو بارش رک گئی۔یہ منظر دیکھ کر سب حیران تھے۔ طواف نے بتایا کہ ایک رات میں گانے کا پروگرام کر کے ساتھیوں کے ساتھ تانگے میں آرہی تھی کہ کیا دیکھتی ہوں کہ سڑک کے کنارے ایک کتے کا بچہ پانی میں کھڑا کانپ رہا ہے۔یہ دیکھ کر میں نے کوچوان کو رک جانے کو کہا اور اتر کر اس بچے کو اٹھایا۔ اسے اپنے کپڑوں سے خشک کیا ۔گھر لاکر اسے آگ کے پاس رکھا۔دودھ پلایا اور خدا سے شکوہ کیا کہ انسانوں کا خیال نہ رکھ مگر بے زبان کا خیال تو رکھ …جو سخت بارش اور سردی میں تھٹھر رہے ہوتے ہیں۔میرا یہ کہنا ہی تھا کہ بارش رک گئی۔ اس کے بعد جب میں بارش کی دعا کرتی ہوں تو وہ ذات میری دعا سن لیتی ہے۔ یہ بھی ایک طواف تھی جس کی خدا سنتا تھا،جس کی دعا سے بارش ہوتی تھی ۔ہر کوئی شوق سے طواف کا روپ نہیں دھارتے اس کو پروفیشن نہیں بناتے بلکہ حالات اس کے ایسا کرنے پر زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کوئی انہیں سمندر برد کرنے والوں سے پوچھے کہ ان کے لیے کوئی ایسے کام کیوں نہیں کرتے جس کے بعد انہیں ایسی زندگی گزارنے کی ضرورت نہ رہے پھر بھی اگر ایسی زندگی گزارتے ہوئے یہ مر جاتی ہیں اگر وہ مسلمان تھی تو اس کے بعد کسی کو اجازت نہیں کہ اس کا جنازہ نہ پڑھے اور اسے سمندر برد کر دے کیا جو لوگ سنت نبویی? پر عمل نہیں کرتے کیا انہیں سمندر برد کر دینے کا کسی نے حکم صادر کر رکھا ہے۔کیا سمندر برد کرنے والے گناہگار نہیں ہورہے ۔ ہم نے تو سن رکھا ہے کہ ایک طواف نے پیاسے کتے کو کنویں سے پانی نکال کر پلایا تھا تو اس کی بخشش ہو گئی تھی۔ لہذا ہم کون ہوتے ہو کسی کو سمندر برد کریں۔ سوائے خدا کی ذات کے کسی کو نہیں معلوم کون جہنبی ہے اور کون جنتی ہے کوئی نہیں جانتا کہ کون عمر کے کس حصہ میں راہ راست پر آجائے ۔ہو سکتا ہے اسے زندگی کے آخری ایام میں سمجھ آجائے اور وہ گناہوں سے توبہ کر لے کیونکہ توبہ کے دروازے تو ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔لہذا ضروری ہے کہ ہم وہ کام کریں جس سے کسی کی دلآزاری نہ ہو۔ ہم اپنے حقوق العباد کا خیال رکھیں، خدا کے کام خدا کو ہی کرنے دیں ،بندہ خدا نہ ہی بنے تو بہتر ہے۔ کسی انسان کو اس کے کرتوتوں سے اسے مرنے کے بعد سمندر برد نہ کریں ۔اچھے برے کام کا علم بندہ اور خدا کو ہی ہے۔ کیاجو شخص مسلمان کہلاتا ہے مگر پھر بھی انسانوں کو مردار گوشت بیچ دیتا ہے تو کیا ایسے شخص کو سمندر برد کسی نے کبھی کیا ہے یا جو شخص اشیا میں ملاوٹ کرتا ہے جس سے دوسرے انسانوں کی صحت خراب ہوتی معاشرہ تباہ ہوتا ہے
کیا ایسے شخص کو سمندر برد کسی نے کیا ہے یا وہ شخص جو کسی پر غلط الزام لگاتا ہے جس سے گھر اجڑ جاتا ہے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں کیا اس شخص کو کسی نے سمندر برد کیا یا کوئی شخص اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے۔ غلط کام کرنے کو کہتا ہے۔ نہ کرنے پر اسے او ایس ڈی بنا دیتا ہے توکیا ایسے شخص کو سمندر برد کسی نے کیا۔ یا ہیرا پھیری سے امیر بن جاتا ہے۔ یا کوئی شخص کسی یتیم بیوہ کی جائیداد پر جعلی کاغذات بنا کر قبضہ کر لیتا ہے تو کیا ایسے شخص کو کسی نیسمندر برد کیا۔ یہ لوگ تو طواف سے زیادہ گناہگار ہیں۔ لیکن ایسے لوگ سمندر برد نہیں ک? جاتیصرف طواف کو ہی سمندر برد کیوں۔ ہر دور میں ایسے لوگ رہے ہیں جو انسان نہیں خدا بن کر حکم دیتے ہیں۔ جنازہ نہیں پڑھتے دفنانے نہیں دیتے۔ حضرت بابا بلھے شاہ وہ خوبصورت شخصیت ہیں جنکے کلام پر سکالر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ انسانی اقدار اور فکروعمل کے باعث ہندو مسلمان سکھ اور مختلف عقیدوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ان سے یکساں محبت رکھتے ہیں بلھے شاہ کی موت کے وقت ان کی انقلابی فکرو عمل کے باعث اس وقت کے ملاؤں نے انہیں عام قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہ دی تھی جنازہ نہ پڑھایا ۔ جس کے بعد انہیں ایک ویرانے میں دفنا دیا گیا تھا لیکن اج ان کے مزار کے گرد سارا شہر قصور آباد ہو چکا ہیان پر کفر کا فتویٰ لگانے والوں کا کوئی نام لیوا نہیں مگر بابا بلھے شاہ آج بھی اپنے کروڑوں عقیدت مندوں اور مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ بلھے شاہ اساں مرنا نہ ہیں گور پیا کوئی اور۔ بابا بلھے شاہ فرماتیہیں ،
کر غور ہتھ دیاں انگلیاں تے
ہر اک وچ فرق ضرور ہے
انج فرق ہے ساری دنیا وچ
کوئی ظالم تیکوئی مجبور اے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button