بازوں پر سیاہ پٹی باندھے قوم کے معمار مرد و زن خشک سالی کے اس موسم میں ننھے پھولوں اور مستقبل کے نونہالوں کے ہمراہ مل کر ہم کیا چاہتے ہیں آزادی کے فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے آزادکشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کی مرکزی شاہراہ گھڑی پن سے پریس کلب کی طرف ہاتھوں میں سیاہ پرچم، سیاہ غبارے ،پینا فلیکس اور پوٹریٹ اٹھائے آگے بڑھ رہے تھے ، ہر کوئی جذباتی انداز میں مقبوضہ جموں وکشمیر کی آزادی اور بھارت سے نفرت کے اظہار کیلئے کمر بستہ دکھائی دے رہا تھا، یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں مگر انداز پہلے سے کہیں زیادہ روشن چراغ کی طرح تھا ایسا دیکھائی دے رہا تھا کہ شاید کہ منزل سامنے ہو۔
26 جنوری جب بھارت اپنا یوم جمہوریہ منا رہا ہوتا ہے وہیں لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف ، پاکستان سمیت دنیا بھر میں بسنے والے مقیم کشمیری اسے یوم سیاہ کے طور پر منا تے ہیں۔ چونکہ 27 اکتوبر 1947 ء کو جب ہندوستان نے ریاست جموں وکشمیر کے ایک بڑے حصے کو طاقت کے ذریعے اپنے قبضے میں لیا تب سے کشمیر کے باسی ہندوستان کی مکارانہ چالوں کیخلاف ہر محاذ پر سینہ سپر رہے ہیں۔ سرد موسم میں 26جنوری صبح8 بجے جب گھر سے نکلنا جوانوں کیلئے بھی غیر معمولی ہے وہیں جب 4 سال سے 80سال تک کے لوگ ایک ہی بینر تلے یہ نعرہ بلند کررہے ہوں کہ کسی بھی صورت بھارت کی غلامی قبول نہیں تو منزل کا حصول ناممکن نہیں رہتا۔اتحاد جیسی طاقت کے ذریعے ہی 14 اگست 1947 ء قیام پاکستان کا وجود بھی ایسے ہی ممکن ہوا تھا اور ایک ہی بینر تھا ۔منقسم کشمیری خاندانوں کا بھارت کے جبری قبضے میں موجود علاقے سے انمٹ رشتہ ہے جسے کبھی بھی زوال ممکن نہیں ہے کیونکہ دھرتی سے محبت کی تاریخ کوئی نئی نہیں ہے اور یوں تو کشمیر بھی تاریخ کے اعتبار سے صدیوں پر محیط ہے۔ 07سالہ بچے کے منہ سے بھارت کیخلاف نفر ت بھرے الفاظ سن کر قریب پہنچ گیا، اس ننھے نونہال محمد علی سے وجہ پوچھی کہ آخر وہ کیوں یہ نعرے لگا رہا ہے، محمد علی بتاتے ہوئے رو پڑا، چونکہ اس بچے کے والد کے علاوہ باقی سارا خاندان مقبوضہ جموں وکشمیر میں موجود تھا، محمد علی نے بتایا کہ میر ے دادا دادی کشمیر میں ہیں، چچا ، پھوپھو ، کزنز بھی ادھر ہیں، کبھی کبھار بات ہوتی ہے ، میں ان کے پاس جانا چاہتا ہوں، میں دادا دادی کی گود میں بیٹھنا چاہتا ہوں، ان سے ڈھیر ساری باتیں کرنا چاہتا ہوں، انکل زیادہ نہ پوچھیں رونا آتا ہے ۔ میرے ساتھ والے کلاس فیلوز اپنے دادا دادی سے روز ملتے ہیں، اتوار کو چھٹی ہو تو پھوپھو ، چچا وغیرہ کے گھر جاتے ہیں اور پھر رو پڑا،بچا اتنا کچھ بتا گیا کس کرب کس سوچ کس فکر میں مبتلا ہے یہ پھول ۔ ایسے لوگ منزل سے زیادہ دور نہیں رہ سکتے، چونکہ منقسم خاندان تحریک آزادی میں طویل سفر کررہے ہیں تاریخ میں ایسی نظیر کہیں نہیں مل رہی ہے۔ احتجاج میں شریک ایک اور بچے کی داستان میں بھی محمد علی جیسی ہی تھی پر وہ بھی کچھ کہتے کہتے افسردہ ہوگیا کہ مقبوضہ کشمیر میں میرے دادا تو فوت ہوگئے ہیں گھر میں صرف دادی اماں ہے ، آج بھی ہم سے ملنے کیلئے تڑپ رہی ہے۔ میں دادی سے ملنا چاہتا ہوں، اب تو بات بھی نہیں ہوتی۔ 26جنوری کے روز آزادکشمیر بھر میں بھارت کا یوم جمہوریہ یو م سیاہ کے طور پر منایا گیا اور لوگوں نے باہر نکل کر مقبوضہ جموں وکشمیر کی عوام پر ڈھائے جانیوالے مظالم کیخلاف آواز بلند کی، مظفرآباد میں منقسم کشمیری خاندانوں کے افراد اور بالخصوص مہاجر کیمپوں میں نجی تعلیمی اداروں کے طلباء و طالبات نے بھی بھرپور انداز میں یوم سیاہ منایا ہے۔ بچے بچے کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا کہ بھار ت سے لیں گے آزادی ۔ عنقریب یہ نعرہ عملی شکل اختیار کرے گا اور کشمیری عوام کو آزادی کی منزل ملے گی۔ تاریخ گواہ ہے کہ آج بھی بھارت کی کئی ریاستوں کے اندر علیحدگی پسند تحریکیں اپنی جگہ ہیں لیکن 27 اکتوبر 1947 ء کے بعد ہندوستان کا وہ مکروہ چہرہ بھی سامنے آگیا ہے جب بھارت نے اکثریتی مسلم علاقے کو اپنی لالچ میں قبضے میں لیا جس کا بھارت سے کوئی رشتہ ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 7دہائیوں سے کشمیری اس جبری رشتے کیخلاف سراپا احتجا ج ہیں ۔ بھارت کی توپوں کے آگے پتھر اٹھا کر کھڑے کشمیری علم بغاوت پر ہیں ۔ بھارت نے 12سال سے 18سال کی عمر کے نوجوانوں کو 90 ء کی دہائی میں نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ آج بھی لاکھوں بے گناہ بھارت کی جیلوں میں صرف اس وجہ سے قید تنہائی میں ہیں کہ وہ صرف آزادی مانگ رہے ہیں۔ دنیا کو کشمیریوں کے اس صبر پر اپ خاموش نہیں رہنا چاہیے ، انسانیت کا تقاضہ ہے کہ عالمی برادری جس نے کشمیریوں سے وعدہ کیا تھا کہ اسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق پیدائشی حق ملے گا اور بھارت جس نے اقوام متحدہ کے سامنے کشمیریوں کو پیدائشی حق دینے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا مگر آج اسی وعدے سے مکر رہا ہے اور کشمیری ہر سال بھارت کے کسی بھی اہم دن جو وہ دنیا کو دکھانے اور اپنی ہی قوم کو بیوقوف بنانے کیلئے مناتا ہے، سوائے ڈھونک کے کچھ نہیں ہوتا، مگر کشمیر ی ان ایام میں بھارت کیخلاف احتجا ج کرتے ہیں اور نہ صرف بھارت کو یاد کروایا جاتا ہے بلکہ عالمی برادری کو بھی باور کرایا جاتاہے کہ وہ خاموشی توڑ کر جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن کیلئے اپنا ٹھوس کردار ادا کریں تاکہ کشمیریوں سے وعدہ وفا ہو اور عالمی برادری پر انسانیت کا بھروسہ بھی قائم ہوسکے۔ تاریخ گواہ ہے طاقت کے ذریعے کسی بھی قوم کو زیادہ دیر تک یرغمال نہیں بنایا جاسکتا ہے ، بھارت طاقت کے نشے میں مست رہا اور دنیا نے بھی توجہ نہ دی تو مقبوضہ جموں وکشمیر میں سلگتی چنگاری پوری دنیا کا امن تہس نہس کر کے رکھ دے گی۔
0 38 4 minutes read