کالم

ستائیں رجب المرجب ۔ معراج النبی

معراج ہونے کے متعلق علماء کرام کے مختلف اقوال ہیں ۔مورخین اور سیرت نگاروں کی اکثریت اس پر متفق ہیں کہ معراج کا واقعہ حضرت خدیجة الکبرٰی کی وفات کے بعد اور بیعت عقبہ سے پہلے ہوا تھا لیکن عام خیال یہ ہے کہ ماہ رجب کی ستائیسویں رات تھی اور یہ نبوت کا بارواں سال تھا۔اسراء سے مراد زمینی سفر ہے یعنی رات کے ایک حصہ میں حضور اکرم ۖ کا مسجد الحرام (مکہ معظمہ ) سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) تک تشریف لے جانا اسراء کہلاتا ہے۔معراج سے مراد آسمانی سفر ہے یعنی بیت المقدس سے سدرة المنتہیٰ تک عروج کرنے کو معراج کہتے ہیں۔سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے” وہ ذات پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام (خانہ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس)تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اُسے اپنی نشانیاں دکھائیں بے شک وہ سُننے والا اور دیکھنے والا ہے "سورة بنی اسرائیل کی آیت نمبر 60 میں ارشاد خدا وندی ہے "اور جو نمائشیں ہم نے تمہیں دکھائی اس کو لوگوں کیلئے آزمائش کیا "۔ سورہ نجم کی ابتدائی آیات میں ےُوں ارشاد ہے” تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے کہ تمہارا رفیق (محمد ۖ) نہ راستہ بھولے ہیں نہ بھٹکے ہیں اور نہ خواہش نفس سے مُنہ سے بات نکالتے ہیں ۔یہ قرآن تو حکم خدا ہے جو (اُن کی طرف) بھیجا جاتا ہے۔اُن کو نہایت قوت والے نے سکھایا(یعنی جبرائیل )طاقتور نے”۔پھر وہ پورے نظر آئے۔اور وہ (آسمان کے )اُونچے کنارے میں تھے پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے تو دو کمانوں کے فاصلے پر یا اس سے بھی کم ۔پھر خدا نے اپنے بندے کی طرف جو بھیجا سو بھیجا ۔جو کچھ اُنہوں نے دیکھا ۔اُن کے دل نے جھوٹ نہ جانا ۔کیاجو کچھ وہ دیکھتے ہیں تم اُس میں اُن سے جھگڑتے ہو ۔اور اُنہوں نے اُ سکو ایک اور بار بھی دیکھا ہے پرلی حد کی بیری کے پاس ۔اسی کے پاس اپنے کی جنت ہے جبکہ اس بیری پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا اُن کی آنکھ نہ تو اور طرف مائل ہوئی اور نہ (حد سے )آگے بڑھی۔اُنہوں نے اپنے پروردگار کی (قدرت ) کی کتنی ہی بڑی نشانیاں دیکھیں۔حضور سرور کائنات ۖ کا فرمان ہے کہ جبرائیل اور میکائیل دو فرشتے آئے میرا سینہ چاک کیا ۔دل کو آب زم زم سے دھویا۔اُسے ایمان اور حکمت سے لبریز کرکے اپنے مقام پر رکھ دیا۔اس کے بعد آپ ۖ کا مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک کا زمینی سفر جبریل امین کی معیت میں شروع ہو گیا۔راستہ میں ایک مقام پر کھجوروںکے جُھنڈ نظر آئے پوچھنے پر جبرائیل نے عرض کیا یہ آپ کا دارالحجرت ہے ۔آ پ ۖ نے رُک کر اُس مقام پر دو نفل ادا کئے ۔آگے بڑھے تو طور سینا پر جا کراُس مقام پر دو نفل ادا کئے جہاںحضرت موسیٰ کلیم اللہ بنے تھے۔تیسرے مقا م کے متعلق حضرت جبرائیل نے بتایا کہ حضرت عیسیٰ کی جائے پیدائش ہے ۔آپ ۖ نے وہاں بھی نماز ادا کی ۔اسرا کے سفر کی آخری منزل مسجد اقصیٰ تھی ۔اس کے بعد آپ ۖ اُس سر سبز و شاداب سرزمین پر تشریف لے گئے جہاں رحمتیں اور برکتیں تھیں ۔بیشتر انبیاء کرام کی جائے پیدائش تھی اور حضرت سلیمان کا بنایا ہوا ہیکل تھا ۔جونہی آپ ۖپہنچے تو فرشتوں کے انبوہ کثیر نے استقبال کرتے ہوئے السلام علیکم یا رسول اللہ کہہ کر سلام پیش کیا اور یا ائول ،یا آخر، یا حاشر کے نعرے بلند کئے۔حضرت جبرائیل نے عرض کیا یا رسول اللہۖ !آپ ۖ ائول با اعتبار شفاعت ہیں ۔آخر سلسلہ انبیاء کے ہیں ۔حاشر یوں کہ آپ ۖ کا اور آپ ۖ کی اُمت کا ائولین حشر ہو گا ۔رحمت اللعالمین ہیکل سلیمانی میں داخل ہوئے تو تمام انبیاء کرام آپ ۖ کے منتظر تھے۔نماز کیلئے صفیں سیدھی کی گئیں۔ہر کوئی اس انتظار میں تھا کہ امامت کون کرائے گا ۔جبرائیل امین نے حضور اکرم ۖ کا دست مبارک پکڑ کر مصلٰی پر کھڑا کر دیا اور خود اقامت کہنے لگا۔اس طرح تمام فرشتوں اور انبیاء کرام نے آپ ۖ کی اقتدا میں نماز ادا کی۔نماز کے بعد تمام انبیاء نے باری باری اپنا تعارف کرایا۔جب سب اپنا تعارف کرا چکے تو حضور اقدس ۖ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد اپنا تعارف کراتے ہوئے فرمایا "اللہ تعالیٰ نے مجھے رحمت اللعالمین بنایا۔تمام انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔بشیر و نذیر بنایا ۔آخری کتاب (قرآن مجید )مجھ پر نازل کی ۔میری اُمت کو اُمت وسطیٰ بنایا۔میرے نام کو بلند فرمایا۔مجھے فاتح اور خاتم قرار دیا "۔حضرت ابراہیم نے تمام انبیاء کرام کی طرف سے تصدیق کرتے ہوئے فرمایا "واقعی آپ ۖ تمام انبیاء سے افضل ہیں "نماز کے بعد جب مسجد سے باہر تشریف لائے تو دو پیالے پیش کئے گئے ایک میں شراب جبکہ دوسرے پیالے میں دودھ تھا۔آپ ۖ نے دودھ کا پیالہ اُٹھا لیا اور شراب کے پیالے کو ہاتھ تک نہ لگایا۔حضرت جبرائیل نے عرض کیا آپ ۖ نے فطرت کو پسند کیا ورنہ آپ ۖ کی اُمت گمراہ ہو جاتی۔ اس کے بعد جبرائیل امین آپ ۖ کو صخرہ پر لے آئے جہاں سے فرشتے آسمانوں کی طرف عروج کرتے ہیں۔یہاں سے آپ ۖ کا معراج یعنی آسمانی سفرکا آغاز ہوا ۔آسمانوں پرفرشتوں نے استقبال کیا ۔اس کے بعد حضرت آدم ۔حضرت یحییٰ ۔حضرت عیسیٰ ۔حضرت یوسف ۔حضرت ادریس ۔حضرت ہارون ۔حضرت موسیٰ کلیم اللہ ۔اور آخر میں حضرت ابراہیم سے ملاقات ہوئی۔اسکے بعد آپ ۖ نے بدکردار ،بد اعمال لوگوں کو طرح طرح کی سزائیں جھیلتے ہوئے دیکھا۔زمین پر کعبة اللہ کے عین اُوپر بیت المعمور فرشتوں کا کعبہ ہے اُ سکے گرد فرشتے طواف کر رہے تھے۔اس کے بعد آپ ۖ سدرة المنتہیٰ تک پہنچے ۔یہاں بھی آپ ۖ نے دودھ کا پیالہ اُٹھایا اور جبرئیل نے کہا یہ فطرت کی طرف رہنمائی ہے جو آپ ۖ کی اُمت کا طرہ امتیاز ہے۔سدرة المنتہیٰ عالم خالق رب السمٰوات والا رض کے درمیان حد فاصل ہے ۔اسکے آگے عالم ا لغیب ہے ۔اسی مقام پر جنت الماویٰ ہے جس کا ذکر سورة نجم میں ہے ۔اس کے بعد آپ ۖ نے جنت کا مشاہدہ کیا ۔سدرہ سے کچھ آگے جاکر جبرائیل امین رُک گئے اور عرض کیا اگر اسی مقام سے بال برابر بھی آگے بڑھوں تو جل کر خاک ہو جائوں ۔حضور سرور کائنات ۖ اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوگئے ۔بارگاہ ایزدی میں سلام عرض کرنے کیلئے یہ الفاظ القا ہوئے ۔التحیات للہ والصلوٰاة والطیبٰت ۔تمام قولی اور بدنی عبادتیں اللہ کے لئے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کا جواب آیا السلام علیک ایھا النبی و رحمةاللہ وبرکا تہ ۔سلام ہو آپ ۖ پر اے نبی اور اللہ کی رحمت اور اسکی بر کتیں ۔آپ ۖ نے دوبارہ عرض کیا السلام علینا وعلیٰ عباد اللہ الصٰلحین۔سلام ہو ہم پر اور اللہ تعالیٰ کے تمام نیک بندوں پر ۔اس پر حضرت جبرائیل اور ملائکہ کی آواز سنائی دی ۔اشھد ان لاالٰہ الا اللہ و اشھد ان محمد عبدہ و رسولہ ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں۔سورہ بقرہ کی آخری دو آیات بغیر واسطے کے براہ راست عطا ہوئیں۔سوائے شرک کے تمام گناہوں کے بخشنے کی بشارت دی گئی۔نماز کی تعداد 50 سے کم کرکے 5 کر دی گئی۔جن کا ثواب 50 کے برابر رکھا گیا۔نیکی کا ارادہ کیا مگر عمل نہ کیا تو ایک نیکی لکھی جائیگی اگر عمل کیا تو اُس کا ثواب ملے گا۔برائی کا ارادہ کیا مگر عمل نہ کیاتو نامہ اعمال صاف رہیگا۔اگر برائی کی تو صرف ایک گناہ لکھا جائیگا۔یہ تخفے حضور سرور کائناتۖ کو معراج کے موقعے پر اُن کی وساطت سے اُن کی اُمت کو نصیب ہوئے۔واپسی پر مکہ معظمہ آتے ہوئے چند قافلوں کے اُوپر سے گزر ہوا ۔ایک قافلہ مقا م روھامیں ٹھہرا تھا۔اُن کی اونٹنی گم ہوگئی تھی وہ لوگ تلاش میں گئے ہوئے تھے۔وہاں آپ ۖ نے پانی پیا۔دوسرا قافلہ مقام طویٰ میں ملا۔اُن کا اُونٹ گر پڑا ۔اُس کا پائوں ٹوٹ گیا
۔مقام تنعیم کے کارواں کے آگے آگے ایک بھورا اونٹ چل رہا تھا جس پر ایک حبشی سوار تھا جس نے سورج غروب ہونے تک مکہ معظمہ پہنچنا تھا۔مقام ذی طویٰ میں رحمة اللعالمین نے سید الملائک حضرت جبرائیل سے دریافت کیاکہ کیاقریش مکہ اس واقعہ کو مان لیں گے تو جبریل امین نے عرض کیا ابو بکر صدیق اس کی من و عن تصدیق کریں گے۔صبح آپ ۖ نے یہ واقعہ حرم شریف میں کفاران قریش کو سنایا ۔ابو جہل کچھ لوگوں کو ساتھ لے کر حضرت ابو بکر کے گھر گیا اُس کا خیال تھا کہ وہ راتوں رات کا سفر والا معاملہ تسلیم نہ کریں گے اور اس طرح ایک معزز ہستی اُن سے الگ ہو جائیگی کیونکہ بیت المقدس آنے جانے کا دو ماہ کا سفر تھا۔لیکن ہوا اس کے با لکل اُلٹ ۔سارا ماجرہ سُن کر حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا کہ اگر حضور ۖ نے یہ فرمایا ہے تو یہ با لکل سچ ہے اور اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی کیونکہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ اُن کے پاس ہر روز آسمانوں سے وحی آتی ہے چنانچہ اُن سے پوچھے بغیر میں اس کی تصدیق کرتا ہوںکہ یہ واقعہ سچا ہے۔اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق حرم شریف میں آئے جہاں ابھی تک مسجد اقصیٰ کے بارے میں سوالات کا سلسلہ جاری تھا۔حضرت سیدنا ابوبکر نے عرض کیا ۔یا رسول اللہ ۖ !کیا یہ بات ہوئی ہے جب آپ ۖ نے تصدیق کی اور کہا کہ بیت المقدس میرا دیکھا ہوا ہے تو صدیق اکبر نے عرض کی یا رسول اللہ ۖ اِن کی تسلی کریں ۔چنانچہ جب انحضرت ۖہر سوال کا جواب دیتے تو آپ ان کی تصدیق کرتے جاتے ۔اس طرح اس واقعہ کو جھٹلانے والوں کے حوصلے پست ہوگئے ۔ان واقعات کی تصدیق بعد میں آنے والے قافلے والوں نے بھی کر دی تھی۔اسی موقعہ پر صاحب المعراج حضور اکرم ۖ نے سیدنا ابو بکر کو صدیق کے لقب سے نوازااور فرمایا کہ آپ پیکر صدق و یقین ہیں۔واقعہ اسراء و معراج میں جہاں اور بے شمارنکات مضمر ہیںوہاں یہ بات کھل کرسامنے آجاتی ہے کہ حضور سرور کائنات ۖ نبی قبلتین بھی ہیں اور امام قبلتین بھی اسلئے کہ آپ ۖ نے دونوں طرف رُخ کر کے نماز پڑھی۔ آپ ۖ کی ذات گرامی سے یہ دونوں مقامات ہم آغوش ہوئے۔مسجد اقصیٰ میں اپنے سے پیشتر تمام انبیاء علیہم السلام کی امامت فر ما کر ثابت ہوگیا کہ آپ ۖ اُن کے وارث ہو گئے اور آئندہ کیلئے بنی نوع انسان کے رہبر ۔رہنما۔ہادی اور رسول ہو گئے۔یہ تمام حقائق در اصل پیغام محمدیۖ کی عمومیت ،دعوت اسلام کی آفاقیت اور محمد ۖ رسول اللہ کی ابدیت کی تصدیق کرتے ہیں۔اسی لئے دین اسلام کو خالق کائنات نے بنی نوع انسان کیلئے پسند فرمایا اور آپ ۖ کو اسی مذہب کا آخری نبی بنا کر بھیجا۔مخلوق کے ہاتھوں سائنس اور ٹکنالوجی نے ترقی کرکے ایسی ایسی ایجادات کی ہیں کہ عقل حیرت زدہ رہ جاتی ہے ۔انسانی قدم چاند پر پہنچ گئے ۔آواز سے تیز رفتار سُپر سانک طیارے ،خلا میں آئے دن چھوڑے جانے والے راکٹ ،ریڈیو ،ٹیلیویژن ،بغیر تاروں کے پیغام رسانی وغیرہ تمام ایجادات نے عقل انسانی کو دنگ کر دیا ہے۔معراج کی شب خالق کائنات نے نظام زماں و مکان کو معطل کر کے اپنے حبیب ۖ کو آن کی آن میں زمین و آسمان کی سیر کرائی۔اس میں بھلا چوں و چراں کی کیا گنجائش ہو سکتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نبی آخر الزمانۖ نے جن سے بڑھ کر نہ کوئی صادق ہو سکتا ہے نہ امین خود ان واقعات کی شہادت دی اور فراست صدیقی نے ان کی حرف بحرف تصدیق کر دی۔مزید آنکہ یہ واقعہ نہ صرف ایمان کی کسوٹی ہے بلکہ یقین کا امتحان بھی ہے ۔اسطرح معراج کے عظیم واقعہ نے فکر انسانی کو ایک نیا موڑ عطا کیا جس پر ایمان لانے کیلئے فکر و نظر کے سرمایہ اور بالغ النظری کی ضرورت ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button