بلاول بھٹو اپنی دھواں دھار انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی تمام تر انتخابی مہم کا بوجھ انہوں نے اٹھایا ہوا ہے۔ جناب آصف زرداری کی صحت انہیں زیادہ محنت کی اجازت نہیں دیتی۔ ویسے بھی مزاجاً وہ انتخابی مہم چلانے والے بندے نہیں ہیں۔ وہ مفاہمت اور مذاکرات کے شہنشاہ ہیں۔ اس وقت عملی طور پر پیپلز پارٹی کے دو ونگ بن چکے ہیں۔ ایک جارحانہ ونگ اور دوسرا مذاکراتی ونگ۔ جارحانہ ونگ کی قیادت بلاول بھٹو زرداری کے پاس ہے جبکہ مذاکراتی یا مفاہمتی ونگ کے قائد آصف زرداری ہیں۔ دونوں ونگز شانہ بشانہ اپنی اپنی ذمہ داریاں بطریقِ احسن نبھا رہے ہیں۔بلاول نے انتخابی معرکے کو گزشتہ ایک ماہ سے بھرپور گرم کر رکھا ہے۔ سب سے پہلے انتخابی مہم بھی انہوں نے ہی شروع کی تھی۔ وہ انتھک نوجوان ہیں۔ ابھی تک پہلے دن کی طرح تازہ دم ہیں۔ وہ اپنے سیاسی مخالفین پر تاک تاک کر نشانے لگا رہے ہیں۔ اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کے حملوں میں شدت آ رہی ہے۔ انہوں نے مسلم لیگ ن اور میاں نواز شریف کو اپنے خاص نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ جس حکومت میں سولہ ماہ تک وہ وزیرِ خارجہ رہے ہیں اسی کی کارکردگی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ اسے ناکام حکومت قرار دینے کے ساتھ ساتھ مہنگائی کا ذمہ دار بھی قرار دے رہے ہیں۔ کوئی سوال کرے تو گھڑا گھڑایا جواب ان کے پاس ہوتا ہے کہ وہ اپنی وزارت کے جواب دہ ہیں اور ان کی وزارت کی پرفارمنس شاندار رہی ہے۔ بلاول بھٹو پی ڈی ایم کی حکومت کا حصہ ہوتے ہوئے بھی خود کو اس کے ڈی میرٹس سے بری الذمہ قرار دیتے ہیں اور اپنی وزارت کے میرٹس میں حکومت کو کریڈٹ بھی نہیں دینا چاہتے۔ شاید وہ پاکستانی عوام کو عقل سے بالکل ہی عاری سمجھتے ہیں۔ لاہور کے جلسے میں بلاول نے پی ٹی آئی کے ورکرز کو انتہائی معصوم اور شیرخوار سمجھتے ہوئے مشورہ دیا کہ وہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں۔ اس کی توجیہہ انہوں نے یہ دی کہ اگر نواز شریف برسرِ اقتدار آ گئے تو وہ پی ٹی آئی کے ورکرز سے انتقام لیں گے جبکہ بلاول اگر برسرِ اقتدار آ گئے تو ایسا نہیں کریں گے۔ اس بات کا ایک مطلب یہ بھی تھا کہ ان کی نظر میں اب پی ٹی آئی کے الیکشن جیتنے کے امکانات نہیں ہیں۔ الیکشن پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ن ہی جیتیں گی۔ پی ٹی آئی کے ورکرز کی بجائے بلاول بھٹو کی اس ”شاندار پیشکش” کا جواب جیل میں بیٹھے عمران خان نے اخبار نویسوں کے ذریعے اپنے ورکرز اور بلاول تک بذاتِ خود پہنچا دیا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ بلاول پی ٹی آئی کے ووٹرز کی بجائے ان سے جا کے مدد مانگے جن کے ساتھ مل کر سولہ ماہ حکومت کی تھی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ آج ایک دوسرے کی مخالفت کر رہے ہیں لیکن اندر سے ملے ہوئے ہیں۔ بلاول بھٹو کا جب یہ تیر نشانے پر نہیں لگا تو انہوں نے فوراً ہی پینترا بدل کر اس خواہش کا اظہار کر دیا کہ وہ جناب آصف زرداری کو پاکستان کا صدر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم پہلے بھی انہی سطور میں لکھ چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ابتدائی بات چیت ہو چکی ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی آئندہ حکومت مل کر بنائیں گی۔ دونوں پارٹیوں میں سے قومی اسمبلی کی زیادہ سیٹیں لے جانے والی پارٹی کا وزیرِ اعظم اور دوسرے نمبر پر آنے والی پارٹی کا صدرِ مملکت ہو گا۔ اس وقت زیادہ سیٹیں لے جانے کے لیے دونوں پارٹیوں میں ریس لگی ہوئی ہے۔ ایک دوسرے کی مخالفت صرف وزارتِ عظمیٰ کی دوڑ کے لیے ہے۔ مستقبل کی یہ دونوں حکومتی اتحادی پارٹیاں ہیں۔ یہاں پر پیپلز پارٹی کے مذاکراتی یا مفاہمتی گروپ کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ جس طرح بلاول انتخابی محاذ پر سرگرم ہیں اسی طرح مذاکراتی گروپ جناب آصف زرداری کی سربراہی میں پسِ پردہ بہت زیادہ متحرک ہے۔ ایک طرف تو مسلم لیگ ن کے ساتھ مستقبل میں تقسیمِ اقتدار کے فارمولے پر بات چیت چل رہی ہے جبکہ دوسری طرف پی ٹی آئی سے بھی پینگیں بڑھائی جا رہی ہیں۔ اس فارمولے پر بات چیت چل رہی ہے کہ اگر پیپلزپارٹی ساٹھ سے ستر سیٹیں لے جانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پی ٹی آئی کے آزاد حیثیت میں جیتنے والے ارکان کی مدد سے یہ تعداد سو کے قریب پہنچ سکتی ہے۔ آصف زرداری جیسے گھاگ سیاست دان کے لیے اتنا فِگر کافی ہے۔ باقی آزاد ارکان کی سب سے زیادہ بولی وہی لگا سکتے ہیں۔ باپ، ایم کیو ایم، جی ڈی اے، اے این پی، جے یو آئی، آئی پی پی وغیرہ کو اچھی آفرز دے کر ساتھ ملانے کے ہنر سے وہ بخوبی آگاہ ہیں۔ اس طرح ممکن ہے وہ بلاول بھٹو کو اپنی زندگی میں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہونے کا خواب پورا کر سکیں۔
دوسری طرف مسلم لیگ ن بھی چوکنا ہے۔ اس نے بلاول بھٹو کے تابڑ توڑ بائونسرز کو ڈک کرنے کا سلسلہ ترک کر کے اب ہر بائونسر پر چھکا مارنا شروع کر دیا ہے۔ میاں شہباز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز کے ساتھ ساتھ خود میاں نواز شریف بھی میدان میں آ چکے ہیں اور روزانہ جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ انہوں نے بلاول اور پیپلز پارٹی پر کھل کر تنقید شروع کر دی ہے۔ الیکشن کے انعقاد تک یہ نورا کشتی چلتی رہے گی۔ ممکنہ طور پر الیکشن کے بعد آزاد امیدواروں کی اکثریت مسلم لیگ ن کو جوائن کر لے گی۔ کیونکہ پیا کی یہی مرضی ہو گی۔ اگر آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد مسلم لیگ ن کی سیٹوں کی تعداد 150 کے قریب ہو گئی تو پھر عین ممکن ہے بلاول بھٹو کو اپوزیشن لیڈر بننا پڑ جائے۔ کیونکہ جے یو آئی، ایم کیو ایم، اے این پی اور آئی پی پی یقینی طور پر میاں نواز شریف کے ساتھ ہوں گی اور انہیں پیپلز پارٹی کی
ضرورت سے آزاد کر دیں گی۔ انتخابی مہم میں بہت تیزی آ چکی ہے۔ پی ٹی آئی کے سوا تمام پارٹیاں سیاسی ماحول کو گرما چکی ہیں۔ اپنی خوبیوں کی بجائے دوسروں کی خامیوں کو زیادہ اجاگر کیا جا رہا ہے۔ البتہ پی ٹی آئی کی طرف سے قابلِ ذکر جلسے نہیں ہو پا رہے۔ ان کے بڑے لیڈر بھی اپنے حلقوں تک ہی محدود ہو کر اپنی ذاتی سیٹ کی کمپین ہی کر پا رہے ہیں۔ انتخابی جلسوں میں مین سٹریم لیڈرشپ کی شمولیت اپنا ایک اثر رکھتی ہے جس سے فی الحال پی ٹی آئی محروم ہے۔ بہرحال واقعی سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ یہ مفادات کا کھیل ہے اور اس کا عملی مظاہرہ حکومت سازی کے دوران دیکھنے کو ملے گا
0 45 4 minutes read