26 جنوری کا دن بھارت میں یوم جمہوریہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ قومی ایام میں اسے خصوصیت حاصل ہے اور اس دن دہلی میں ایک رنگا رنگ پریڈ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس دن کی مناسبت اس بات سے جڑی ہے کہ 26 نومبر 1949 کو برطانوی پارلیمنٹ کے 1935 کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کو منسوخ کر کے بھارت نے اپنا آئین بنایا جسے پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد 26 جنوری 1950 کو نافذ کر دیا گیا اس طویل آئین کو بھارت نے اپنے آپ کو ایک مستحکم جمہوریت تسلیم کیے جانے کی دلیل کے طور پر پیش کیا۔ اور 26 جنوری کو مستقلا ایک جشن جمہوریت کے طور پر اپنے ملک کی روایات میں شامل کر لیا۔ یہ آئین ریاستی ذمے داریوں اور بھارتی شہریوں کے حقوق و فرائض کی بالتفصیل وضاحت کرتا ہے۔ یہ آئین بیان کرتا ہے کہ بھارت کے ہر شہری کو بلا تمیز مذہب، نسل، رنگ یا جائے پیدائش بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ یہ بنیادی حقوق مساوات کا حق، آزادی کا حق، غصب کے خلاف حق، مذہب، ثقافت اور تعلیم کی آزادی کا حق پر مشتمل ہیں۔ اس آئین کی رو سے حکومت ریاست اس چیز کی ذمے دار ہے کہ وہ تمام بھارتی شہریوں کے ان بنیادی حقوق کی فراہمی کو نہ صرف یقینی بنائے بلکہ کسی بھی فرقے یا مکتب فکر کی جانب سے اس کے خلاف ہونے والے کسی بھی اقدام پر سختی سے قانونی چارہ جوئی اور پھر تعزیری عمل کرائے۔ لیکن بھارت کے لیے یہ انتہائی افسوس ناک اور بد قسمتی کا مقام ہے کہ آئین پر عمل کرنا یا کرانا تو بہت دور کی بات ابتدا ہی سے آئین کی بیحرمتی کی گئی مگر بھارتیا جنتا پارٹی کے دور میں تو یہ بدقسمتی کی انتہا کو پہنچ گئی۔1951 میں بھارتی سیاستدان شیاما پرساد مکر جی نے بھارتیا جنا سنگھ کی بنیاد رکھی جو ارتقا کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے 1980 میں بی جے پی کا روپ اختیار کر گئی۔ جس نے 1984 تک تو الیکشن میں صرف دو سیٹیں ہیں حاصل کی مگر پھر 1996 اور 1998 الیکشن میں بی جے پی بہاری واجپائی کی قیادت میں مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ بی جے پی جس کی بنیاد پہلے ہی سے تعصب پر تھی ہندو اکثریت کی نبضیں پہچان گئی۔ بابری مسجد کی شہادت اور گجرات کے مسلم کش فسادات کو اپنی فتح سے تعبیر کرنے والا نریندرا مودی 2014 کے عام انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ 2019 میں ایک بار پھر نریندرا مودی نے ہندوستان میں حکومت بنا لی۔ حکومت پانے کے بعد بی جے پی نے تیزی سے اپنی تھیوری کو عملی شکل دینا شروع کر دی اور بھارت کی اقلیتیں بنیادی حقوق تو دور کی بات اپنی جان بچانے اور باعزت زندگی گزارنے سے بھی عاجز ہو گئیں۔ہندوستانی تاریخ دان گیندرا پانڈے نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ برطانوی سامراج تھا جس نے اپنے اقتدار کی خاطر ہندوستان میں مذہبی تقسیم اور فرقہ واریت کو جنم دیا۔ لیکن ہندوستانی تاریخ اور بعد میں آنے والے واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ رجحان پہلے سے موجود تھا اور بعد میں آنے والوں نے اسے انتہا کو پہنچایا۔ بی جے پی نے اپنی سوچ کی بنیاد ہی ہندوتوا پر رکھی جو ہندو انتہا پسند تنظیموں کا مشترکہ نظریہ ہے۔ سنگ پریوار دراصل انتہا پسند تنظیموں کا خاندان ہے جس کے تقریبا 52 ارکان ہیں، جن میں سے اہم بی جے پی، آر ایس ایس، شیو سینا، وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل ہیں۔ ہندو ازم میں نفرت پھیلانے کے پیامبر ہیں۔ وہ نفرت جس کا سب سے بڑا شکار بے شک مسلمان ہے لیکن عیسائیوں، بدھوں، دلتوں اور شمال مشرقی صوبوں کے ماو باشندوں سمیت کوئی بھی ان سے نہیں بچا ہوا۔26 جنوری کو یوم جمہوریہ منانے والا بھارت بے شک میڈیا میں اس کو جتنا چاہے مشتہر کر لے لیکن اس کے دامن پر جگہ جگہ لگے انسانی خون کی چھینٹے بھارت میں اس کی ارزانی پر گواہ ہیں وہاں انسانی برادری میں کھلم کھلا اس کی بدنامی کا باعث ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انٹرنیشنل کونسل فار کرائم جیسی تنظیمیں بار بار بھارت میں ہونے والے جرائم کی نشان دہی کر رہی ہیں جن کی ایک نہ ختم ہونے والی فہرست بابری مسجد شہادت فسادات، جمشید پور فسادات، ممبئی فسادات، سکھ فسادات اور منی پور فسادات کی شکل میں انمٹ ہے۔ گرام اسٹین نامی ایک اسٹریلوی مشنری کو اس کے دو نوجوان لڑکوں سمیت زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ بجرنگ دل 39 عیسائیوں کو قتل کرنے کے بعد سیکڑوں چرچ جلا دیتے اور ہزاروں گھر لوٹ لیتے ہیں اس دوران زنا بالجبر اور مثلہ جیسے واقعات عام ہوتے ہیں۔ کورونا کے دوران دہلی میں تبلیغی جماعت پر کورونا جہاد جیسے مضحکہ خیز الزامات، پروپیگنڈا وار اور اس کے نتیجے میں ہونے والا ظلم جمہوریت کے نام پر ایک طمانچہ ہیں۔ جمہوریت سے ہونے والا ایک اور گھناونا مذاق مقبوضہ کشمیر کی مسلمہ متنازع حیثیت کو ختم کر کے اسے آئینی تبدیلی کے ذریعے ضم کرنے کی ناکام کوشش ہے۔ اور اس کا تازہ ترین سلسلہ بابری مسجد کی جگہ رام ایودھیا مندر کی تعمیر پر وہاں ایک بین الاقوامی اجتماع کا انعقاد کرنا ہے۔ وہ ایودھیا مندر جس پر ارکیولاجیکل سروے آف انڈیا کی منفی رپورٹ کے باوجود انڈیا کی عدالت عظمی نے کمال ڈھٹائی سے کام لیتے ہوئے اس کے حق میں فیصلہ دیا۔ غرض یہ کہ یوم جمہوریہ منانے والے بھارت میں جمہوریت ہی سب سے زیادہ تشدد کا شکار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اس کا کما حقہ نوٹس لیا جائے اور مصلحتوں کو نظر انداز کر کے حق سچ کا ساتھ دیا جائے۔
0 45 4 minutes read