
مجھے اقبالیات سے اول دن سے لگاؤ تھا، جب سے سکول میں لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری، درد اور سوز سے پڑھنا شروع کی تھی، روح میں ایک ایسا احساس جاگتا تھا کہ کتنا بڑا آدمی ھو گا جس نے یہ دعا لکھی ھوگی، اتنی جاذبیت اور کشش تھی اس دعا میں کہ میں بچہ ھونے کے باوجود اس کے سوز میں دن گزار دیتا تھا، یہی عشق اقبال بچپن سے پروان چڑھتا رہا مگر وقت کے ساتھ ساتھ خود شعر کہنے کی جسارت کی تو الفاظ معنی اور تصور و خیال اتنا کم معنی لگنے لگا کہ فیصلہ کیا کہ شاعری کبھی نہیں کروں گا، کیونکہ جب اقبال کے پائے کی شاعری نہیں کر سکتا تو بیکار ہے شاعری محض بے مقصد خیالات کا مجموعہ بن جائے گی، غالب کو پڑھا تو فن و فلسفہ بھی ہیچ محسوس ھونے لگا، میر تقی میر تک پہنچے تو ردھم، موسیقیت اور چھوٹی بحر میں خیالات اور درد کا وہ لامتناہی سلسلہ ملا کہ اپنے اندر اور کم مائیگی کا احساس ھوا، میر درد کا تصوف کے پاس پہنچے تو عجز و انکساری اور دامن گیر ھو گئی، یہ میری زندگی میں ایک انوکھا واقعہ تھا کہ اقبالیات کا جنون بانگ درا، کے بعد بال جبریل تک آیا مجھے سید سلمان ندوی، مولانا مودودی اور ڈاکٹر پروفیسر رفیع الدین ہاشمی کو پڑھنے کا موقع ملا تو اقبال فہمی کا احساس گہری سے دامن گیر ھونے لگا، اور سوچا کہ اقبالیات میں پی ایچ ڈی کروں گا، اقبال کی شاعری، فکر آور فیض کی فکر و شاعری نے انقلاب کے سرخ اور سبز ریشم میں الجھا دیا، لیکن انقلابی جذبات نے گیر لیا جس سے فکر مقصد تک محدود ھو گئی، قرآن مجید کی تفسیر کی طرف بڑھے تو اقبال کی سوچ جابجا سامنے آتی رہی، یہ ارتقاء خود اقبال کی زبانی سنا کہ انسان کے علمی، فکری اور نظریاتی ارتقاء ھمیشہ سفر میں رہتا ہے، اقبال کے نزدیک اگر پتھر کی سل، مسلسل پانی پڑنے سے گھس سکتی ہے تو انسانی فکر میں بھی جدت اور ارتقاء فطرت کا تقاضا ہے، پھر جاکر کچھ اطمینان ھوا اور تھوڑا بہت لکھنا شروع کیا، میری زندگی اور اقبال کے فن و فکر کو چند فیصدی سمجھنے میں سب برا کردار ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کا ھے، جن کتاب ”اقبال کی طویل نظمیں، فنی اور فکری مطالعہ” پڑھنے کو ملی مجھے ایسا لگا کہ میں نے تاریخ اسلام، اقبال کی فکر، اور تاریخ و فلسفہ سارا پڑھ لیا، آپ یہ کتاب ضرور پڑھیں، یوں تو ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی میرے خیال میں اقبالیات پر کام کرنے والے منفرد اور ممتاز محقق ہیں، ان کی بیشتر کتابیں، اقبالیات پر ہیں، خطوط اقبال، اقبال کے سو سال، سمیت لاتعداد کتابیں اقبال فہمی کا بہترین ذریعہ ہیں، آج وہ دنیا سے رخصت ہوئے تو یوں لگا اقبال بھی آج ہی رخصت ہوئے ہیں،
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی 9 فروری 1940ء کو ضلع چکوال میں پیدا ہوئے اور 25 جنوری 2024ء کو وفات پائی، وہ اورینٹل کالج لاہور سے ایم اے اردو فرسٹ ڈویژن حاصل کرنے والے چند لوگوں میں سے تھے، ایک زمانہ تھا کہ ایم اردو اور ایم انگریزی میں فرسٹ ڈویژن حاصل کرنا اتنا ھی مشکل تھا جتنا آج کے زمانے میں میڈیکل کی سیٹ حاصل کرنا ھو، وہ اقبالیات میں پی ایچ ڈی کرنے والے بھی منفرد صاحب اقبال شخصیت تھے، اورینٹل کالج ھماری یادوں کا بھی کچھ حصہ ھے، اور ڈاکٹر صاحب کی چہرہ شناسی اور لمس گفتگو کا احساس آج تک زندہ ھے، ایسی علمی شخصیت اور جب جنون اقبال ھو تو ایک لمحہ بھی بیٹھنا ھمارے لئے اعزاز ھے، وہ خود کئی ایوارڈ حاصل کر چکے تھے مگر ھمارے لئے ان سے ملنا ھی بڑا اعزاز تھا، وہ جسے کہتے ہیں نا نرم دم گفتگو، ڈاکٹر صاحب اس کی عملی تصویر تھے، ترقی پسند شعراء میں احمد ندیم قاسمی صاحب مرحوم، اور پروفیسر یوسف حسن صاحب مرحوم سے اکثر نشتیں ھو جایا کرتی تھیں اور مباحث میں اقبال سر فہرست تھے کیونکہ ھم جنون اقبال اور مقصدیت کی تلاش میں تھے اور وہ ادب برائے ادب کے منصب پر فائز تھے، دو مختلف افکار پر بحث تو بنتی تھی وہ بھی کھلے دل سے سنتے اور ھم بھی کھل کر بولتے تھے، آج یہ مشکل ھو چکا ھے، یونیورسٹی میں اساتذہ طلبہ کو نمبروں کے وجہ سے ذلیل کرتے اور طلباء کو کتابوں سے الرجی کا مرض لاحق ھوتا ھے، پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ان تمام حدود سے باہر نکل کر اقبال شناسی میں گم تھے، اقبال کی نظموں، غزلوں اور فن و فکر پر ایسے لکھتے اور بولتے تھے کہ آپ دنگ رہ جائیں، ”مسجد قرطبہ”، ساقی نامہ”، ابلیس کی مجلس شوریٰ” جیسی نظموں پر ایسی تاریخ مرتب کر دی کہ آپ اقبال کی طویل نظموں کا فنی و فکری مطالعہ پڑھیں تو اقبال کو سمجھنے میں آسانی ہو گی، میرے اس لئے بھی محسن ہیں کہ ماسٹر کرتے وقت یہ کتاب میرے لئے سب سے بڑی نعمت ثابت ھوئی، بلکہ اقبال فہمی کا ایک بیس انہوں نے فراہم کر دیا، کتابوں کے نام محو ہو گئے مگر الفاظ اور فکری نکات آج بھی ذھن میں محفوظ ہیں ڈاکٹر اقبال نہیں رہے ان کے سچے شاگرد نہیں رہے، مگر اقبال فہمی کا جو راستہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی دے گئے وہ ھمیشہ رہے گا ان کے ایک شاگرد نے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی کاوشوں کو جرمن، فارسی اور عربی تک بھی پہنچا دیا جو ایک بڑا کام ہے، ڈاکٹر صاحب اورینٹل کالج کے اردو کے چیئرمین بھی رہے اور حکومت پاکستان نے انہیں خدمات کے اعتراف پر صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا لیکن ڈاکٹر صاحب کے شاگردوں کی ایک طویل فہرست ھے جو ان کے کام کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ھوں گے، ھم تو محض ڈاکٹر صاحب کی ایک ملاقات کا احساس لئے جب تک ہیں، محبت محسوس کرتے رہینگے،