
فرعونوں کے زمانے میں ایک لاشوں کو حنوط کرنے کا پورا ایک محکمہ موجود تھا۔ امیر لوگ لاشوں کو نسبتا زیادہ رقم دے کر اچھی طرح حنوط کرواتے تھے۔ انکی اس سوچ کے پیچھے انکا مذہبی نقطہ نظر تھا۔ حنوط کرنے کے دوران لاش کے اندر کے سارے اعضاء نکال کر جسم کے اْوپر اور اسکے ایک طرح کا مادہ نٹروں لگا دیا جاتا تھا۔ جو جسم کا سارا پانی چوس لیتا تھا۔ اس طرح خشک ہو جانے والی لاشوں کو تابوت میں بند کر کے احراموں میں رکھ دیا جاتا تھا۔ اگر کوء بڑے عہدے والا مر جاتا۔ تو اسکے ساتھ اسکے نوکر چاکر ، دولت اور گھوڑے وغیرہ بھی ساتھ ہی احرام میں دفن کر دئیے جاتے تھے۔ کیونکہ قدیم مصریوں کا عقیدہ تھا کہ اس سے ان کو یہ لوازمات بعد ازموت بھی حاصل ہو جاتے ہیں۔ یہ جو آثارِ قدیمہ کے دوران ممّیاں ملتی ہیں۔ یہ وہی تو ہیں۔ قدیم مصر میں خواتین اور مردوں کی اْوسط عمر 34 سال تھی۔وہ اس لیے کہ بادشاہوں کے غلام ہونے کے ناطے بیچارے بادشاہ کی موت کے ساتھ ہی ان کو بھی جانا پڑتا تھا۔ ایک واقعہ مجھے یاد آ گیا ہے کہ ایک مشہور ڈاکو کچھ نیک لوگوں کی صحبت اور تبلیغ کی وجہ سے ڈاکے مارنے سے تائب ہو گیا۔ مگر پھر وقت کچھ ایسا آیا کہ بیروزگاری اور غربت کی وجہ سے گھر میں نوبت فاقوں تک آن پہنچی۔ تو وہ ایک دن ایک بڑے ولی کے مزار پر گیا اور دعا مانگنے کے بعد دن دیہاڑے وھاں چھت پر لٹکتا انتہائی قیمتی فانوس اتار لایا۔ مزار پر بیٹھے مجاور اسے جانتے تھے کہ بہت بہادر لڑاکا اور جنگجو ھے۔ سو اسے کچھ کہنے یا مزاحمت کرنے کی جرآت نہ کرسکے۔ ڈاکو نے وہ فانوس بیچ دیا۔ مزار کے گدّی نشین اور مجاوروں نے ڈکیتی کا پرچہ کروا دیا اور کیس عدالت میں چلا گیا۔ جج صاحب نے ڈاکو کو عدالت میں طلب کیا ( یہ واقعہ حیدر آباد سندھ کے ایک مشہور مزار کا ھے ) جج صاحب نے ڈاکو سے پوچھا : تم نے مزار سے فانوس اتارا ہے ؟بڈاکو نے کہا : جی اتارا ہے ؟ پوچھا : کیوں اتارا ہے؟ جواب دیا کہ گھر میں نوبت فاقوں تک آ گئی تھی. میں صاحب مزار ( قبر میں مدفون ) کے پاس حاضر ھوا کہ میری حاجت روائی فرمائیں۔ صاحب مزار نے قبر کے اندر سے فرمایا "یہ فانوس تیرا ہوا. بیچ کر ضرورت پوری کر لے”۔ سو میں نے فانوس اتار کر بیچ دیا اور اپنی ضرورت پوری کر لی۔ جج صاحب نے سر جھکا لیا اور کچھ دیر تؤقف کے بعد گدّی نشین اور مجاوروں سے مخاطب ہوئے کہا کہ یا تو اپنا عقیدہ بدل لو اور لکھ کر دے دو کہ ” ولی قبروں میں نہ سنتے ہیں اور نہ حاجت روائی کرتے ہیں” تو کیس آگے چلاتے ہیں ! یا پھر ہم آپ کے عقیدے کے مطابق مان لیتے ہیں کہ ڈاکو ٹھیک کہتا ہے۔ بڑے گدی نشین اور مجاروں نے کچھ دیر صلاح مشورے کے بعد اپنا کیس واپس لے لیا۔ یہی کچھ تو پہلے تھا۔ حکایت رومی ! حضرت عمر کے زمانہ خلافت میں ایک شہر کو آگ لگی۔ وہ اس بلا کی آگ تھی کہ پتھّر کو خشک لکڑی کی طرح جلا کر راکھ کر دیتی تھی۔ وہ مکانوں اور محلّوں کو خاک سیاہ کرتی ہوئی پرندوں گھونسلوں اور آخر کار ان کے پروں میں بھی لگ گئی۔ اس آگ کے شعلوں نے آدھا شہر لے ڈالا۔ یہاں تک کہ پانی بھی ان شعلوں کی تاب نہ لاتا تھا۔ اہلِ تدبیر ان پر پانی اور سرکہ پر نالے بہاتے تھے۔ مگر معلوم ہوتا تھا کہ پانی اور سرکہ آگ بھڑکانے میں اور مدد پہنچاتا ہے۔ آخر کار خلقت حضرت عمر کے پاس دوڑی آئی اور عرض کی کہ ہماری آگ کسی پانی سے نہیں بجھتی۔ آپ? نے فرمایا کہ یہ آگ خدا کے غضب کی علامت ہے اور یہ تمہارے بخل کی آگ کا صرف ایک شعلہ ہے۔ لہٰذا پانی کو چھوڑو اور روٹی تقسیم کرو اور آئندہ کے لیے ، اگر میرے متبع ہو۔ تو بخل کو ترک کرو۔ خلقت نے کہا ہم نے پہلے سے دروازے کھول رکھے ہیں اور ہم ہمیشہ سے صلہ رحم کرنے والے اور سخی رہے ہیں۔ حضرت عمر نے جواب دیا کہ وہ سخاوت تم نے از روئے رسم و عادت کی تھی۔ تم نے خدا کی راہ میں دروازہ نہیں کھولا تھا۔ تم نے جو کچھ دیا وہ شیخی اور اپنی بڑائی دکھانے کے واسطے دیا۔ خدا کے خوف اور عاجزی سے نہی دیا تھا۔ مخلوق خدا کی مدد کرو۔ اپنے عمل سے ، اپنے علم سے ، اپنی دنیاوی دولت سے ، خدا کے دئیے ہوئے رزق سے ، اپنی زبان سے ، اپنی صدقات و خیرات سے اور خوف خدا سے۔ اللہ پاک کی ذات تمھاری تمام تر مشکلات کو ٹال دے گا۔ ایک شرابی کے ہاں ہر وقت شراب کا دَور رہتا تھا۔ ایک مرتبہ اس کے دوست احباب جمع تھے۔ شراب تیار تھی۔ اس نے اپنے غلام کو چار درہم دیے کہ شراب پینے سے پہلے دوستوں کو کھلانے کے لیے کچھ پھل خرید کر لائے۔ وہ غلام بازار جا رہا تھا کہ راستے میں حضرت منصور بن عمار بصری کی مجلس پر گزر ہوا وہ کسی فقیر کے واسطے لوگوں سے کچھ مانگ رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ "جو شخص اس فقیر کو چار درہم دے۔ مَیں اس کو چار دعائیں دوں گا”۔ اس غلام نے وہ چاروں درہم اس فقیر کو دے دیے۔ منصور بصری نے کہا؛ بتا کیا دعائیں چاہتا ہے ؟ غلام نے کہا میرا ایک آقا ہے۔ مَیں اس سے خلاصی چاہتا ہوں . منصور بصری نے دعا فرمائی اور پوچھا دوسری دعا کیا چاہتا ہے ؟غلام نے کہا مجھے ان درہموں کا بدل مل جائے۔ منصور بصری نے اس کی بھی دعا کی پھر پوچھا؛ تیسری دعا کیا ہے ؟ غلام نے کہا حق تعالٰی شانہ میرے سردار کو توبہ کی توفیق دے اور اس کی دعا قبول کرے۔ منصور بصری نے اس کی بھی دعا کی، پھر پوچھا چوتھی دعا کیا ہے ؟ غلام نے کہا حق تعالٰی شانہ میری ، میرے سردار کی ، تمہاری اور یہاں مجمعے میں موجود ہر شخص کی مغفرت کرے . منصور بصری نے اس کی یہ بھی دعا کی . اس کے بعد وہ غلام خالی ہاتھ اپنے سردار کے پاس واپس چلا گیا . سردار اسی کے انتظار میں تھا. دیکھ کر کہنے لگا۔ اتنی دیر لگا دی ؟۔غلام نے قصہ سنایا.۔سردار نے ان دعاؤں کی برکت سے بجائے غصہ ہونے اور مارنے کے یہ پوچھا کہ کیا کیا دعائیں کرائیں ؟ غلام نے کہا پہلی تو یہ کہ میں غلامی سے آزاد ہو جاؤں۔ سردار نے کہا میں نے تجھے آزاد کر دیا. دوسری کیا تھی؟ غلام نے کہا مجھے ان درہموں کا بدلہ مل جائے۔ سردار نے کہا میری طرف سے تمہیں چار ہزار درہم نذر ہیں. تیسری کیا تھی ؟ غلام نے کہا حق تعالٰی شانہ تمہیں شراب وغیرہ فسق و فجور سے توبہ کی توفیق دے۔ سردار نے کہا میں نے اپنے سب گناہوں سے توبہ کر لی. چوتھی کیا تھی؟ غلام نے کہا حق تعالٰی شانہ میری ، آپ کی ، ان بزرگ کی اور سارے مجمع کی مغفرت فرما دے۔ سردار نے کہا کہ یہ میرے اختیار میں نہیں ہے،رات کو سردار کو خواب میں ایک آواز سنائی دی۔ جب تو نے وہ تینوں کام کر دیے۔ جو تیرے اختیار میں تھے تو کیا تیرا یہ خیال ہے کہ اللہ وہ کام نہیں کرے گا جس پر وہ قادر ہے۔ جس پر اْسکا اختیار ہے ؟ تو اے بندے سْن اللہ نے تیری ، اور اس غلام کی ، منصور کی ، اور اس سارے مجمعے کی مغفرت کر دی ہے . سبحان اللہ ان سب میں حقیقت کیا ہے اور ہمارے ایمان کیا ہیں یہ آپ خود دیکھ لیں کہ ہماری ساری پریشانیاں ، ہمارے دکھ ، ہماری بے سکونی اور ہمارے اعمال کیسے ہیں۔ سلطان ھارون رشید نے بہلول داناکو ھدایت کی کہ بازار جائیں اور قصائیوں کے ترازو اور جن پتھروں سے وہ گوشت تولتے ھیں وہ چیک کریں اور جن کے تول والا پتھر کم نکلے۔ انھیں گرفتار کرکے دربار میں حاضر کریں۔ بہلول دانا بازار جاتے ہیں۔ پہلے قصائی کا تول والا پتھر چیک کرتے ہیں۔ تو وہ کم نکلتا ھے۔ قصائی سے پوچھتے ہیں کہ حالات کیسے چل رھے ھیں۔ قصائی کہتا ہے کہ بہت بْرے دن ھیں دل کرتا ہے کہ یہ گوشت کاٹنے والی چھری بدن میں گھسا دوں اور ابدی ننید سو جاوں