کالم

سردار عتیق مفاہمت کے بادشاہ بنیں !!

یہ پہلے بھی لکھا جا چکا کہ آج پاکستان جن حالات کی وجہ سے بربادی کے دہانے پر ہے وہ خرابیاں کب ، کہاں اور کیسے شروع ہوئی ؟ یہ کوئی ڈکھی چھپی بات نہیں۔ بہت سی خرابیوں بلکہ خرافات کے بیج تقسیم ہند کے وقت بوئے گئے ۔ قائد اعظم کے سامنے مشکلات اور مسائل کی نوعیت کیا تھی؟ کیا اس وقت بھی لیڈران پاکستان کو محب وطن ہونے کے سرٹیفیکیٹ کی ضرورت تھی ؟اگست 1947 کے دوران اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کا کوئی رول تھا یا نہیں تھا اس بارے میں ہمارے ” بڑے ” ہی کچھ بتا سکتے ہیں۔ ہمیں یہ یاد ہے کہ سکول کے زمانے بہت سے لوگوں کے بارے میں پڑھایا گیا کہ وہ غدار تھے اس فہرست میں سندھ سے جی ایم سید بھی شامل تھے ان کی جماعت کا سندھو دیش کا نعرہ سن کر ہمارا خون بھی کھولتا تھا۔ جب سکول، کالج، یونیورسٹی سے باہر آئے تو تاریخ پاکستان پر لکھی گئی مختلف لوگوں کی کتابیں پڑھیں بہت کچھ نیا سامنے آیا مثلا یہی جی ایم سید جن کو ہم سکول سے یونیورسٹی تک غدار وطن سمجھتے رہے پاکستان بنانے میں شاہ صاحب کی کتنا بڑا حصہ تھی ۔شاہ صاحب نے 1944 میں بطور ممبر سندھ اسمبلی پاکستان کے حق میں قرار داد منظور کروائی لیکن قیام پاکستان کے بعد شاہ صاحب کو قائداعظم سے ملنے نہیں دیا گیا تھا جس کی وجہ سے وہ پاکستان مخالف ہو گئے اور یہ سلسلے شروع ہو گئے یہ تمہید یا ابتدائیہ اس پس منظر میں لکھا ہے کہ پچھلے دنوں آزاد کشمیر میں دو واقعات ہوئے جنہوں نے تقریبا پاکستان کے ہر باشعور انسان کو ہلا کر رکھ دیا ہے پہلے میں ذکر کروں گا مہنگائی کے خلاف احتجاج کی تحریک جو سول نافرمانی کی شکل اختیار کر گئی اس واقعے کی وجوہ کچھ بھی ہوں مگر یہ سوالیہ نشان ہے کہ حکومت آزاد کشمیر، حکومت پاکستان اور پاکستان کے تمام خفیہ اداروں کے لئے اور دوسرے نمبر پر آزاد کشمیر کے شاعر احمد فرہاد کی گرفتاری نے حالات کو کس رخ پر پہنچا دیا ۔ احمد فرہاد کو مجھ سمیت اکثریت نے ان کی گرفتاری کے بعد جاننا شروع کیا اس گرفتاری سے پہلے لوگوں کو بلکل بھی پتہ نہیں تھا کہ آزاد کشمیر سے اتنا مشہور کوئی شاعر بھی ہے ۔ یہ سب اس لئے لکھنے کو دل چاہا کہ 6 جون کو نظروں کے سامنے ملک کے معروف اینکر کا کالم ” آزاد کشمیر غیر ملکی علاقہ ہے ” گذرا نہ صرف گذرا بلکہ اسے پڑھا بھی … میر صاحب صحافت اور کالم نگاری کا بڑا معتبر نام ہے جو معلومات ان کے پاس ہوتی ہیں وہ کم ہی کسی کے پاس ہوتی ہیں اور بہت دلائل کے ساتھ لکھتے یہ کالم بھی اس لحاظ بہت اہمیت کا حامل ہے اس کالم میں، میں جو اضافہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ایک وقت یہ بھی تھا کہ پاکستان کی فیڈرل گورنمنٹ کا ایک ڈپٹی سیکرٹری آزاد کشمیر کے حکمرانوں کا ”حاکم” ہوتا تھا اور یہ تاثر دیا جاتا تھا کہ آزاد کشمیر پاکستان کا ”مفتوح علاقہ” ہے جبکہ اس میں بہت ابہام ہیں اس بارے میں پاکستان کا آئین اور قانون بہت کچھ کہتا ہے کیا اس آئین اور قانون کی مزید وضاحت کی ضرورت نہیں ہے کیا پاکستان کے لوگوں اور حکومت کے ساتھ کشمیری خوش نہیں ہیں ۔ آزاد کشمیر کی سیاست میں سابق صدر مرحوم کے ایچ خورشید کیا خود مختار کشمیر کے حامی نہیں تھے کے ایچ خورشید، قائداعظم کے پرنسل سیکرٹری کے طور پر کام کر چکے تھے انہیں نہیں پتہ تھا کہ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شاہ رگ کہہ رکھا ہے پھر کیا وجہ ہو گئی کہ وہ خود مختار کشمیر کے حامی ہو گئے۔ اللہ پاک کروٹ کروٹ مجاہد اول سردار عبدالقیوم پر اپنی رحمتیں فرمائے جنہوں نے کشمیر کا الحاق پاکستان کا بیڑا اٹھایا تھا میر صاحب اور میری نسل کے سب لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب تک سردار صاحب حیات تھے اس وقت تک ” کشمیر بنے گا پاکستان ” کا نعرہ چاروں صوبوں میں گونجتا تھا کشمیر اور کشمیریوں کے پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ محبت کے نعرے گونجتے تھے بطور سیاسی جماعت مسلم کانفرنس کا اس میں بہت مظبوط کردار تھا سردار صاحب کا کشمیر کا الحاق پاکستان کے بارے کوئی سمجھوتہ نہیں تھا مجھے دکھ اس بات کا ہے کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ فرزند ارجمند محترم سردار عتیق صاحب آگے لے کر نہیں چل سکے تمام سیاسی مصلحتیں اپنی جگہ پر مگر سردار عتیق صاحب کو اس نعرے کا چوکیدار بن جانا چاہیے تھا جب بھی الحاق پاکستان ہو گا تاریخ میں مسلم کانفرنس اور سردار عبدالقیوم خان صاحب کا نام لکھا جائے گا بات تھوڑی سی تاریخ کی طرف نکل گئی ،۔ ہماری سردار عتیق سے گذارش ہے کہ فرزند ہونے کے ناطے نہیں بلکہ سیاسی وارث ہونے کے باعث وہ محبت کے پل کا کردار ادا کریں۔آج غیر محسوس طریقے سے کشمیریوں اور پاکستانیوں کے درمیان دوری اور بد گمانی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سردار صاحب اس سازشی تھیوری کو فوری ختم کرنے کے لئے باہر نکلیں ۔ یادش بخیر … محترم مجاہد اول پاکستان میں یا پاکستان کے باہر جب بھی دورے پر جاتے وہاں صحافیوں،ادیبوں اور اہل علم کے ساتھ نشست ضرور رکھتے تھے آج پھر اس بات کی ضرورت ہے کہ سردار عتیق صاحب مسئلہ کشمیر اور الحاق پاکستان کا نظریہ نوجوان نسل تک پہنچائیں جنہیں کشمیریوں کی قربانیوں کا بالکل بھی پتہ نہیں ہے۔ ہماری حکومت پاکستان اور اہم اداروں کے ارباب اختیار سے گذارش ہے کہ کشمیری لیڈرز جو کشمیر کے وزیراعظم یا صدر رہ چکے ہیں انہیں پاکستان کی قومی اسمبلی میں ضرور نمائندگی دلائیں تا کہ وہ پاکستان اور پاکستان سے باہر عالمی فورم پر سرکاری سطح پر پاکستانیت کے فروغ میں مثالی کردار ادا کر سکیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button