کالم

غلطیاں ہی سبق سکھاتی ہیں

اس بار انتخابات کے نتائج آنے سے پہلے ہی انتخابی نتائج کے اعلانات ہو نے لگے ہیں ، مسلم لیگ( ن )قیادت اعلان کررہے ہیں کہ آئندہ حکومت بنانے جارہے ہیں ، جبکہ پیپلز پارٹی قیادت کا کہنا ہے کہ ہم سب کو ساتھ لے کر حکومت بنا ئیں گے ،تاہم اس انتخابات کے بعد جس کسی کی بھی حکومت بنے گی، اْس کے سامنے کونسے چیلنجز ہو ں گے، اس بارے کوئی سوچ رہا ہے نہ ہی کسی کے پاس کوئی پلان ہے ، ہر ایک کو حصول اقتدار کی ہی پڑی ہے ،لیکن یہ اقتدار ملنے کے بعد پھر وہی کہیں گے کہ اقتدار ملا، اختیار نہیں ملاہے ، یہ ایک بار پھر کام نہ کرنے کا بہانہ ہے، یہ سیدھے سادھے کیوں نہیں کہتے ہیں کہ ملک کے مسائل کا حل کسی ایک سیاسی جماعت کے بس کی بات ہی نہیں ہے، یہ سارے مسائل سب مل کر ہی حل کریں گے تو حل ہوں گے، ورنہ کچھ بھی حل ہوتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے،بلکہ مزید بگڑتا ہی نظر آرہا ہے،اگر ہم نے اپنے بگاڑ کو درست کر نا ہے تو اپنی ذاتیات پر قومی مفاد کو تر جیح دینا ہو گی ، لیکن یہاںکوئی اپنی ذات پر قومی مفاد کو تر جیح دینے کیلئے تیار ہی نہیں ہے۔
اگر دیکھاجائے تو ہمارے ہاں اُلٹی ہی گنگا بہہ رہی ہے ، یہاں پر عر صہ دراز سے اپنی ذات کو ہی قومی مفاد پر ترجیح دیتے آرہے ہیں، اگر مسلم دنیا کا ہی جائزہ لیا جائے توہر مسلم ملک اپنے ہی مفاد کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل دکھائی دیتا ہے، ہر مسلم ملک سوچتا ہے کہ سب سے پہلے اپنی سلامتی ، معیشت مضبوط ویقینی بنانی ہے، اس کے بعد کسی دوسرے کے لیے سوچنا ہے، او آئی سی کو ہی دیکھ لیاجائے تو اب تک ایک فعال تنظیم نہیں بن سکی ہے، کیونکہ اس کا ہر رکن ملک پہلے اپنا سوچ رہا ہے کہ اسے کیا ملے گا؟اگر او آئی سی ایسا سوچتی ہے تو پھر پاکستان بھی ایسی ہی تنظیم کا رکن ہے ، ہمیں بھی اُن کی ہی طرح سوچنا چاہئے ،لیکن ہماری سیاسی جماعتیں ہی نیشنلسٹ نہیں ہیں، یہ قومی اتحاد کا مظاہرہ ہی نہیں کرتی ہیں،اگر ہمارے میں اتنی تفریق نہ ہوتی تو بھارت میں کبھی اتنی جرأت نہ ہوتی کہ مشرقی پاکستان کے لیے سولہ دسمبر اور کشمیر کے لیے پانچ اگست جیسا فیصلہ کرتا، ہم چونکہ ایک نہیںہیں،اس لیے ہی دشمن اپنی سازشوں میں کامیاب ہوتا دکھائی دیے رہاہے۔
ہمارے ازلی دشمن کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ پا کستان عدم استحکام کا ہی شکار رہے اور ہماری سیاسی پارٹیاں ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کر کے دشمن کا کام آسان بنائے جارہی ہیں ، ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کے ذریعے سوچا جارہا تھا کہ سیاسی استحکام آجائے گا ،مگر اس بار انتخابات کے انعقاد سے پہلے ہی جیسے انتخابات متنازع ہو رہے ہیں،اس سے تو ایسا لگتا نہیں ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام آئے گا ، بلکہ اس متنازع انتخابی عمل کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے ایک بہت بڑا طوفان آنے والا ہے ، ایک ایسا طوفان کہ جس میں سب کچھ ہی بہہ جائے گا، لیکن اس کی کوئی فکر دکھائی دیتی ہے نہ کوئی بگڑے معاملات سلجھانے کی کوشش کررہا ہے ، یہاںہر کوئی ایک دوسرے کو گراکے اقتدار کی کر سی حاصل کرنے میں ہی کو شاں دکھائی دیے رہاہے ۔
اس ملک میں عوام کبھی کسی کی تر جیح رہے ہیں نہ ہی اب کسی کی ترجیحات میں شامل ہیں ، عوام آئے روز بڑ ھتی مہنگائی ،بے روز گاری سے تنگ خو کشیاں کرہے ہیں ،ملک چھوڑ رہے ہیں ،مگر یہاں کسی کو کوئی پروا ہی نہیں ہے ،گزشتہ سال کوئی آٹھ لاکھ کے قریب نوجوان روز گار کے لیے ملک چھوڑ گئے ہیں،لیکن کیا کسی نے سوچا کہ ہماری کریم ملک سے باہر کیوں جارہی ہے؟ اہل سیاست کے پاس ایسی باتیں سو چنے کا وقت ہی نہیں ہے ،وہ حصول اقتدار میں شب روز مصروف عمل ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی طرح ایک بار پھر اقتدار مل جائے ،لیکن اقتدار حاصل کر نے کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں، ہماری سیاسی جماعتوں کے منشور ہی دیکھ لیے جائیںتو پتہ چلتا ہے کہ کسی سیاسی جماعت کے منشور میں یہ بات شامل ہی نہیں ہے کہ ملک و عوام کے بڑھتے مسائل کا تدارک کیسے کیا جائے گا، مہنگائی بے روز گاری کا خاتمہ کیسے کیا جائے گا، بیرون ملک جانیوالے باصلاحیت نوجوانوں کو کیسے واپس لایا جائے گا اور اُن کی تعلیم وصلاحیت کے مطابق باعزت روزگار دیا جائے گا،ہر سیاسی قیادت کی انتخابی مہم ہی دیکھ لیجیے، صرف تقریری مقابلے ہورہے ہیں، جگت بازی ہورہی ہے، وہی پرانے چھوٹے وعدے،دعوئے دھرائے جارہے ہیں، اس پرباشعور پا کستانی عوام بہت زیادہ پر یشان ہو نے کے ساتھ انتہائی مایوس بھی دکھائی دیے رہی ہے ، کیو نکہ اُن کے نزدیک صورتحال سلجھنے کے بجائے مزید الجھتی ہی جا رہی ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ہمیں بہت سارے مسائل درپیش ہیں اور ان کا حل صرف اور صرف جمہوری اصولوں اور روایات کی پا سداری کرکے ہی نکالا جاسکتا ہے،اس حوالے سے ہمارے اہل سیاست کو سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے،آجکل سیاست دان جن مسائل میں الجھے ہو ئے ہیں، ان میں عوامی مسائل کہیں دب کر ہی رہ گئے ہیں ، سیاست دانوں کا اولین فرض عوام کے مسائل کا حل نکالنا ہے اور کچھ بھی نہیں ہے، لیکن اہل سیاست اقتدار کے پیچھے ہی دوڑے چلے جارہے ہیں، اہل سیاست اقتدار کے کھیل سے نکل کر بھی کچھ سوچیں اور اپنی سوچ کے دائرہ کو وسیع کریں،اپنی غلطیاں بار بار دہرانے کے بجائے اپنی غلطیوں سے سبق سکھیں، دوسروں کے آلہ کار بنے کے بجائے عوام کے حقیقی نمائندے بنے کی کوشش کر یں ، عوام کی عدالت میں جائیں اور عوام کو نہ صرف آزادانہ فیصلہ کر نے کا حق دیں ، بلکہ عوام کے ہی فیصلے کو ما نیں تو ہی ملک کو ترقی و خوشحالی کے راستے پر ڈالا جاسکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button