ملک میں انتخابی دنگل سجنے کو ہے پی ٹی آئی کو ختم کرنے کے لیے پوری قوت سے زور لگایا جارہا ہے کاغذات جمع کروانے والوں کوہی نہیں بلکہ انکے تائید کنندہ اور تجویز کنندہ افراد کو بھی گرفتار کیا جارہا ہے جن کے کاغذات منظور ہو چکے ہیں انکے انتخابی نشانات تبدیل کیے جارہے ہیں ان حالات میں اگر ہماری عدلیہ قانون پر عملدرآمد نہ کرواتی تو شائد پی ٹی آئی کا کوئی امیدوار آزاد حیثیت میں بھی کاغذات جمع نہ کرواپاتا انہی حالات کو دیکھتے ہوئے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیے ہیں کہ قانون کی پاسداری نہ ہو، عدلیہ آنکھیں بند کرلے تو جنگل کا قانون ہوتا ہے ویسے تو جنگل میں بھی جانوروں کا اپنا قانون ہوتا ہے وہاں پر بھی انسان ہی جاکر غیر قانونی کام کرتے ہیں پاکستان میں یہ قانون چونکہ پہلے دن سے ہی لاگو ہوگیا تھا اور شائد اسی کو دیکھتے ہوئے 1995میں جنگل کا قانون کے نام سے صفدر خان نے پولیٹیکل ایکشن فلم بنائی تھی جسکی ہدایت کاری مسعود بٹ نے کی اس فلم میں اداکارسلطان راہی، ندیم، غلام محی الدین اور ہمایوں قریشی نے بہترین اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں خیر میں بات کررہا تھا الیکشن کی جس میں ہم نے کبھی بھی مفادات سے ہٹ کر ووٹ نہیں دیا آج بھی ووٹوں پر پیسے بانٹے جارہے ہیں تو کہیں ووٹوں کے نام پر کھابے کھلائے جارہے ہیں جنہیں ہم لالچ میں آکر ووٹ دیتے ہیں پھر وہ ہم پر مسلط ہوکر ہمارے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیتے ہیں اور جاتے جاتے پوری قوم کو غربت ،بے روزگاری اور قرضوں کی دلد ل کا تحفہ دے جاتے ہیں اگر آپ ہمارے حکمرانوں کا ماضی اور حال دیکھ لیں تو سمجھ آجائے گی کہ انہوں نے ہمیں لوٹ لوٹ کر اربوں کی جائیدادیں بنا لیں اور غریب انسان آج بھی فٹ پاتھ پر سردی سے ٹھٹھرکر مر رہا ہے شائد ہمارے ہاں تعلیم اور شعور کی کمی ہے تعلیم سے یاد آیا کہ 24جنوری کوتعلیم کاچھٹا عالمی دن بھی ہے جو پاکستان میں کم لیکن دنیا بھر میں جوش وخروش سے منایا جائیگا اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم امن و ترقی کے لیے تعلیمی اہمیت کو فروغ دیں تعلیم کایہ عالمی دن 24 جنوری 2019 ء کو پہلی مرتبہ منایا گیا تھا اقوامِ متحدہ کے بین الاقوامی چارٹر برائے انسانی حقوق کے سیکشن 26 کے تحت تعلیم انسان کا بنیادی حق ہے جس میں عوام کو مفت اور لازمی بنیادی تعلیم فراہم کرنا ریاست کا فرض قرار دیا گیا ہے دسمبر 2018کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے تعلیم کا دن منانے کی قرارداد منظوری دی تھی اگر ہم پاکستان میں تعلیم کی بات کریں تو ہمارے ہاں یہ شعبہ سنگین مسائل سے دوچار ہے اور یہاں ہنگامی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے بدقسمتی سے قیامِ پاکستان سے آج تک کسی بھی حکومت نے ملک میں تعلیمی اصلاحات کو مکمل طور پر نافذ کرنے کے لیے بجٹ نافذ نہیں کیا جس کے سبب اساتذہ قلیل تنخواہ میں بنا کسی مناسب تربیت کے پڑھانے پر اور طالب علم بغیر سہولیات اور جدید ٹیکنالوجی کے پڑھنے پر مجبور ہیں آج بھی پاکستان میںلاکھوں افراد ایسے ہیں جو یا تو اسکول میں داخل نہ ہوسکے یا پھر انہیں عمومی تعلیم مکمل کرنے کا موقع نہ مل سکا ہمارے اساتذہ آئے روز اپنے مطالبات کے لیے سڑکوں پر احتجاج کررہے ہوتے ہیں جس فرد نے قوم کی تربیت کرنی ہے اور ملک کا مستقبل سنوارنا ہے اسے ہم کلرکوں کے ہاتھوں ذلیل و رسوا کروانے کے ساتھ ساتھ معاشی پریشانیوں کی دلدل میں بھی دھکیل رہے ہیں ایک ایم اے یا ایم ایس سی استاد کی تنخواہ میٹرک پاس پولیس کانسٹیبل سے بھی کم ہے اس تنخواہ میں وہ اپنے مستقبل کی فکر کریگا یا بچوں کو روشن پاکستان کی تربیت دیگااگر ہم اپنی شرح خواندگی کو دیکھیں تو دنیا سے ہم بہت پیچھے ہیں پاکستان میں تعلیم کی نگرانی وفاقی وزارت تعلیم اور صوبائی حکومتیں کرتی ہیں وفاقی حکومت زیادہ تر نصاب کی ترقی، ایکریڈیٹیشن اور تحقیق و ترقی کے لیے مالی معاونت کرتی ہے پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 25ـA ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی معیاری تعلیم فراہم کرے لیکن اس پر حکومت نے ہاتھ کھڑے کررکھے ہیں تعلیم اس قدر مہنگی ہے کہ مڈل کلاس فیملی بھی اپنے بچوں کو اچھے سکول میںپڑھانے سے قاصر ہے اور غریب لوگ تو اس بارے میں سوچتے تک نہیں وہ بچوں کے ہوش سنبھالتے ہی کسی نہ کسی کام پر لگا دیتے ہیں تاکہ وہ چار پیسے لائے تو گھر کا خرچہ چل سکے جن بچوں کو انکے والدین محنت مشقت کروا کر پڑھالیتے ہیں انہیںنوکری نہیں ملتی اور پھر ان افراد کوجب بھی موقع ملتا ہے وہ فورا ملک چھوڑنے کا انتخاب کرتے ہیں جس سے ہمارے ہاں برین ڈرین کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے پاکستان میں تعلیمی نظام کو عام طور پر چھ درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے پری اسکول (3 سے 5 سال کی عمر کے لیے)، پرائمری ( ایک سے پانچ)، مڈل (چھ سے آٹھ )، سیکنڈری ( میٹرک )ہائیر سیکنڈری ( انٹرمیڈیٹ ) اور یونیورسٹی کے پروگرام جو گریجویٹ اور ماسٹر ڈگریوں کی طرف لے جاتے ہیں ہمارے ہاں جو بچے پڑھتے ہیں وہ اس نیت سے پڑھتے ہیں کہ آگے چل کرانہوں نے نوکری کرنی ہے تعلیم کو بطور علم ہمارے ہاں بہت کم لوگ حاصل کرتے ہیں ہماری خواتین تعلیم کے میدان میں مردوں سے بہت آگے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں صنف کے لحاظ سے خواندگی کی شرح مختلف ہے ہمارے ہاں مردوں کی خواندگی 72.5 فیصد ہے جبکہ خواتین کی خواندگی 51.8 فیصد ہے حالانکہ خواتین کے لیے تولعلیم انتہائی ضروری ہے کل جب وہ ماں بنے گی تو بچوں کو پڑھانا،سمجھانا اور سکھانا واسی کی ذمہ داری بن جاتی ہے ہمارے ہاں زریعہ تعلیم مشکل ہے اور اس سے بھی مشکل زریعہ معاش ہے جب تک ایک خاندان معاشی لحاظ سے مستحکم نہیں ہوگا تب تک اس خاندان کے بچے تعلیم کے میدان میں بھی سرخرو نہیں ہوسکتے ہمارے ہاں ریڈ ڈاٹ والے سینکڑوں بچے بھوک ،افلاس اور غربت کی نظر ہورہے جنہیں دنیا تلاش کرنے میں اربوں روپے ضائع کردیتی ہے اور وہ ہمارے ہاں ہمارے سامنے ہمارا روشن مستقبل سڑکوں کی خاک چھان رہا ہوتا ہے ہمارے پاس سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد دنیا میں دوسرے نمبر ہے ہم سے پہلے بھی ایک ملک نائیجیریاہے جہاں ہم سے بھی برے حال میںلوگ رہ رہے ہیں جہاں جہاں تعلیم عام ہے وہاں کے لوگ بھی خوشحال ہیں اور ملک بھی وہاں کا سیاسی سسٹم بغیر کسی لالچ ،بریانی اور نوٹوں کے چلتا رہتا ہے وہاں کے سیاستدان اپنے ملک میں ہی رہتے ہیں الیکشن لڑنے یا اقتدار کی باریاں لینے نہیں جاتے انکی اولادیں بھی اسی ملک میں رہتی ہیں جہاں وہ سیاست کرتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنی قوم کو بیوقوف بناتے ہیں اور نہ ہی انکی قوم جاہل ہوتی ہے جب تک ہم تعلیم کو بطور علم نہیں سیکھتے تب تک ہم خوشحال بھی نہیں ہوسکتے ویسے تعلیم کے شعبے میںآجکل وفاقی سیکریٹری تعلیم محی الدین وانی جو کام کررہے ہیں وہ ماضی میں آج تک کسی نے نہیں کیا اگر ہم ملک بھر میںتعلیم کی ذمہ داری ایمانداریسے انہیں دیدیں تو ہماری آنے والی نسلیں سدھر سکتی ہیں جس سے پاکستان بھی خوشحال ہوگا اور لوٹ مار کی سیاست سے بھی جان چھوٹ جائیگی
0 44 5 minutes read