کالم

خون سے سینچا کشمیر

نویں جماعت کا امتحان نمایا ں نمبرات سے پاس کرنے کے بعد ابھی دہم میں داخلہ ہی لیا تھا کہ کشمیر میں حالات مزید کشیدہ ہوگے، گولوں اور گولیوں کی ترتراہٹ ، ڈم ڈم کی آوازوں نے کان بند کردیئے تھے، 90 ء کی دہائی میں ہم کیا چاہتے ہیں آزادی کے نعرے کانوں میں جیسے رس گول رہے تھے جیسے منزل قریب سے قریب تر ہو ۔ 33 سال قبل کی آب بیتی سناتے ہوئے آزادی کے ایک مسافر نے بتایا کہ وہ دو بھائی تھے زمین جائیداد یعنی اللہ کا دیا سب کچھ تھا ، ریڈیو پاکستان ، بی بی سی اردو سروس کے ذریعے حالات حاضرہ سے کشمیر میں بہتے لہو پر ایک سوچ نے سیدھی سادھی زندگی کو انقلاب میں بدل دیا جس کا تصور تک نہ تھا۔ایک بھائی تو پہلے سے ہی معذور تھا دوسرا بھائی والدین کیلئے ایک امید تھی جو کشمیر میں چیخ و پکار سن کر اٹھ کھڑا ہو گیا ، والدین نے اسے ڈاکٹر بنانے سمیت نہ جانے آنکھوں میں کیا کیا خواب سجھائے تھے کیا معلوم تھا کہ قدرت اسے کسی اور سمت پر لے جارہی تھی، قابض علاقوں میں بھارتی فورسز کی بڑھتی سرگرمیوں پر پرامن احتجاج سے پرتشدد اور پھر نہ جانے کونسا لمحہ ایسا آیا کہ ہاتھ میں پتھر اور پھر بندوق تھی اور نشانے پر بھارت کی وہ فورسز تھیں جنہوںنے کشمیر کے گلی کوچے کو لہو لہو کررکھا تھا، ایسا جذبہ تھا کہ کانٹے بھی پھولوں کی مالا نظر آتے تھے۔ 47سالہ زندگی کے وہ 33برس کیسے اپنے والدین و عزیز اقارب سے دور گزر گئے یہ سفر صدیوں پر محیط نظر آتا ہے، چونکہ اس کٹھن سفر میں جہاں شوق شہادت کے جذبات تھے وہیںآزادی کی امید بھی توانا رہتی تھی، ایمان کی تازگی نے احساس ہی نہیں ہونے دیا تھا کہ اس زندگی میں وہ اپنابچن کتنا پیچھے چھوڑ چکا ہے جس میں اس کے دوست، عزیز و اقارب اور بالخصوص والدین تک جدا ہوگئے ہیں۔ 1989ء سے 1993 تک بھارت کا ظلم و جبر اپنے عروج پر تھا، کشمیر کا نوجوان بھارت کیخلاف علم بغاوت پر اتر چکا تھا، بھارت اور کشمیر کے ننھے منے مجاہدین کے درمیان شدید جنگ میں بالخصوص خاندان کے خاندان سفر کرنے پر مجبور ہو گئے اور اپنا گھر بار اس امید کیساتھ چھوڑ کر آزادکشمیر ہجرت پر مجبور ہوئے کہ وہ جلد ہی اپنی آزادی کی منزل حاصل کر لیں گے، ، ہجرت کا سفر کانٹوں کی سیج کے سوا کچھ نہیں ہوتا، تاہم آزادکشمیر کے انصار نے مہاجرین کو اپنے سینے سے لگا کر انصار مدینہ کی یاد تازہ کی، 90 ء سے 95 ء تک مظفرآباد میںالگ سا سماں تھا، سکولوں کے سکول خالی کردیئے گے اور مہاجرین کو پناہ دی گئی ۔ وقت گزرتا گیا اور یوں 43ہزار نفوس پر مشتمل کشمیری مہاجرین آزادکشمیر کے مختلف علاقوں میں آباد ہو کر آزادی کا خواب سجھا ئے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی حالات اور آزادکشمیر کے حکمرانوں کے مفادات سے بالخصوص ا ن کشمیری مہاجرین کیلئے ہر آنیوالا دن مشکل سے مشکل تر ہو تا جارہا ہے چونکہ مقبوضہ جموں وکشمیر کے حالات اب پہلے جیسے نہیں رہے ہیں، وہ انقلابی سفر بھی اب انقلاب کے بجائے خاموشی اختیار کر چکا ہے، جہاں نوجوان اپنے خون سے تحریک آزادی کی آبیاری کرتے رہے ہیں 2003 میں پاک بھارت سیز فائر معاہد ے کے بعد کشمیر کے حالات میں کافی تبدیلی آئی ہے، کشمیر میں ظلم و جبر تو ہوتا رہا ہے لیکن لائن آف کنٹرو ل کے علاقوں میں بھارت کی اشتعال انگیزی کافی حد تک رک گئی ہے، سیز فائر کے دوران بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالات کو اپنے قابو میں کرنے کیلئے ہر و ہ حربا اپنایا ہے جس کی دنیا کسی صورت بھی اجازت نہیں دیتی ہے، ۔ جیسا کہ بھارت نے مقبوضہ جموں وکشمیر کو فوجی چھاونی میں تبدیل کیا، آزادی مانگنے والے ہر کشمیری کو حراساں کرنا شروع کیا گیا، جو بھی جدوجہد آزادی میں گھر سے باہرنکلا پھر وہ گھر نہیں جاسکا ہے،90ء کی دہائی سے 34سالہ تاریخ میں بھارت نے 1لاکھ کے قریب شہری شہید کیئے، 2لاکھ کے قریب شہری مختلف جیلوں میں قید کیئے گے ہیں، آج بھی ہزاروں خواتین نیم بیوہ زندگی گزار رہی ہیں چونکہ ان کے خاوند آج تک لاپتہ ہیں، اسی دوران بھارت نے مجموعی طور پر ایک لاکھ سے زائد بچوں کو یتیم کیا ہے، مقبوضہ جموں وکشمیرمیں حالات اس قدر مشکل بنا دیئے گے ہیں کہ کشمیری نوجوان جو یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تھے وہ اپنے ہاتھ میں بندوق اٹھانے پر مجبور ہوگئے، 22 سالہ ایک نوجوان جس نے سوشل میڈیا کے ذریعے بھارتی افواج پر لرزہ طاری کیا اور ایک بار پھر تحریک آزادی اٹھ کھڑی ہوئی اور وہ جب تک شہادت کے منصب پر فائز نہیں ہوا تھا تب تک بھارت کے ایوانوں میں خوف رہا، بھارت ایک نام نہاد جمہوری ملک ہونے کادعویٰ تو کرتا ہے مگر کبھی بھی جمہوری روایات کو پروان نہیں چڑھایا، کشمیریوں کو طاقت کے ذریعے کچلنے کے ہر وہ حربے اپنائے جسے دنیا کا کوئی بھی قانون اجازت نہیں دیتا ہے ۔ ایسے میں برہان وانی کی شہادت کے بعد ایک بار پھر آزادی کے پروانے اپنے سینوں پر گولیاں کھانے کیلئے تیار ہو گئے اور بھارت کیخلاف پھر علم بغاوت بلند کیا گیا۔05 اگست 2019 ء میں مقبوضہ جموں و کشمیر کو عملا لاک ڈائون کے ذریعے سیل کردیا گیا،لوگ کئی ماہ تک گھروں تک مقید رہے، بھارتی فورسز کی طرف سے گھر سے باہر نکلنے پر گولی مارنے کے اعلانات تک ہو چکے تھے، بھارت نے جہاں ایک طرف مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا وہیں کشمیری عوام کے گھروں کو جلانا شروع کیا، لوگوں کا کاروبار مکمل تباہ کردیا گیا، کشمیریوں کو اناج کا محتاج بنا دیا گیا اور اسی دوران بھارت نے 42لاکھ بھارتیوں کو کشمیر کے ڈومیسائل جاری کیے تاکہ کشمیری قوم کا خواب ادھورہ رہے اور بھارت اپنے مکروہ عزائم میں کامیاب ہو سکے۔ آزادکشمیر میں مقیم کشمیری سارے معاملات سے باخبر تو رہے لیکن آزادی کے مسافر جو تحریک میں اپنا بچپن ، جوانی تک لٹا گئے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ تو سکتے ہیں مگر اس کیلئے کوئی بھی ٹھوس کردار ادا نہیں کرسکتے ہیں۔ پاکستان کے عوام نے ہمیشہ کشمیریوں کی دل کھول کر مدد کی ہے اور آج تک کشمیریوں کیساتھ ان کا رشتہ لازوال ہے، اس سارے عمل میں پاکستان کے سیاستدان کشمیریوں کی مدد کیلئے ایک لفظ تک ادا نہیں کررہے ہیں ۔ پاکستان میں عام انتخابات سر پر ہیں لیکن کسی بھی بڑے سیاستدان نے کشمیر کی آزادی کیلئے ایک لفظ تک ادا نہیں کیا ہے، سیاسی پارٹیوں کی طرف سے مسئلہ کشمیر کو اپنے منشور میں کہیں پر سر فہرست نہیں رکھا گیا ہے۔ پاکستان کے نامور سیاستدان ایک دوسرے کو چور چور کے القابات سے پکا ررہے ہیں لیکن کبھی سزا و جزا کے عمل سے گزرے نہیں ہیں، حالات سازگار ہوتے ہی ان کی سزائیں معاف ہو جاتی ہیں اور یہ پھر سیاست سیاست کھیلنا شروع کردیتے ہیں۔ کشمیر کے لوگوں نے تحریک آزادی کشمیر میں خون دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ بزدل نہیں ہیں مگر وقت اور حالات کو دیکھ کر انقلابی صورتحال سے تھوڑے باہر ضرور ہوئے ہیں۔ نوے کی دہائی سے اب تک کئی بار انقلابی صورتحال پیدا ہو ئی ہے ، ایسی ہی انقلابی صورتحال سے انشاء اللہ کشمیر آزاد ہوگا ،فتح ہر حال میں کشمیری قوم کی ہوگی۔ وہ لوگ جنہوں نے ماں باپ بہن بھائیوں ، عزیز و اقارب، دوست احبا ب ، جائیداددیں سب کچھ قربان کیا ہے ، ان کو ضرور ان کا نعم البدل ملے گا۔ تحریک آزادی کشمیر کی تکمیل کیساتھ ساتھ پاکستا ن کی معاشی مضبوطی، ترقی اور استحکام کیلئے بھی دعا گو ہیں ، چونکہ پاکستان ہی وہ ملک ہے جو کشمیریوں کو آزادی دلوانے میں اپنا ٹھوس کردار ادا کرسکتا ہے
، پاکستان نے ہمیشہ مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام کی اخلاقی حمایت جاری رکھی ہے اور آزادکشمیر میں بسنے والے مہاجرین کیلئے گزارہ الائونس تک جاری رکھا ہے، بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر اس میں بھی اضافے کی ضرورت ہے۔ تجویز دینا چاہوں گا کہ آج کل ان مہاجرین کی مستقل بنیادوں پر آبادکاری کیلئے بھی پراسیس چل رہا ہے، 5مرلے زمین، 6 اقساط میں مکان کیلئے 38لاکھ اور پھر 10لاکھ یکمشت ادائیگی یہ کوئی مستقل ایڈجسٹمنٹ نہیں ہے، اس وقت ان مہاجرین کو حکومتی توجہ کی انتہائی ضرورت ہے۔ جنہوںنے جدوجہد آزادی کے اس سفر میں پاکستان کیلئے ہی اپنا سب کچھ قربان کیا ہے ان مہاجرین کے نزدیک اگر بھارت مقبوضہ جموں وکشمیر میں کی سڑکوں پر تارکول کی جگہ سونا بچھا دے تب بھی بھارت کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ لہذا حکومت پاکستان سارے عمل کا دوبارہ جائزہ لے کر ان کی باعزت آبادکاری کے معاملے کو حل کیا جائے تاکہ ان مہاجرین کیلئے باعزت رہائش کا مسئلہ بھی حل ہو اور لائن آف کنٹرول کے دوسری طرف بھی ایک مثبت پیغام جاسکے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button