کالم

نفرت اور عقیدت کی سیاست

سیاست نظریہ کو اپنانے پھیلانے اور شعور کا نام ہے لیکن ہم نفرت اور عقیدت کے جذبات میں اس قدرمبتلا ہوچکے ہیں کہ سیاست بند گلی میں محسوس ہوتی ہے۔مریم نواز شریف کی اوکاڑہ آمد اور جلسہ انتخابی سیاست کا حصہ ہی سمجھا جانا چاہیے تھا لیکن اس انتخابی سرگرمی میں سیاست میں موجود تقسیم اور نفرت واضح دیکھی گئی۔ مریم نوازشریف نے سیاسی جماعت پی ٹی آئی کو دہشت گرد جماعت قرار دیا ایسے الزام کو سیاسی بیان قرار نہیں دیا جاسکتا۔یہ قابل افسوس رویہ ہے جونفرت کو فروغ دیتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ ن کے قائدین اور ٹکٹ ہولڈر چوہدری ریاض الحق جج کی تصاویر والی فلیکسز اور بینرز چوری اور پھاڑنے پر پاکستان مسلم لیگ ن کے کارکن عابد محمود کی جانب سے تھانہ اے ڈویژن میں مقدمہ درج کروایا گیا۔مقدمہ کے مطابق ملزم عمار عرف حذیفہ نے 6 سے نامعلوم 7 افرادکے ساتھ مل کر فلیکسز اور بینرز چوری کیے اور پھاڑے۔بینرز اور فلیکسز جن کی مالیت 77450 ہے رکشے میں ڈال کر لے گئے۔ملزم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر مسلم لیگ ن کے جھنڈے کو پھاڑ کر بے حرمتی کی اور ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کی۔ملزم نے مسلم لیگ ن کے قائدین کو برا بھلا کہا اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔جلسہ کے دوران مخالف نعرہ بازی بھی کی گئی۔یہ بہت افسوسناک واقعہ ہے، مریم نوازشریف اوکاڑہ کی مہمان تھیں اور مہمان کی عزت ہماری روایت ہے۔سیاسی مخالفت اپنی جگہ لیکن کسی پروگرام کو خراب کرنے کی کوشش قابل شرم ہے۔حمایت یا مخالفت کا بہترین طریقہ اپنے پلیٹ فارم سے اظہار رائے اورووٹ کی طاقت سے کسی کو مسترد یا منتخب کرنا ہے۔کسی سیاسی تقریب میں رخنہ ڈالنے کی کوشش سیاست نہیں۔اوکاڑہ شہر تو بہترین سیاسی روایات کا امین ہے۔ راقم الحروف کو یاد ہے مسلم لیگ (ن) کے موجودہ امیدوار اور ضلعی صدر میاں محمد منیر جب بلدیہ کے چیرمین تھے اور محترمہ بے نظیر بھٹو اوکاڑہ تشریف لائیں توپی پی کی مقامی قیادت کو اپنے اختیارات کے تحت مکمل تعاون فراہم کیا۔یہاں انتخابات میں رنجش یا رقابت مستقل نہیں چلتی تھی۔انتخابات کے بعد بھی سیاسی سرگرمیوں میں رخنہ اندازی نہیں ہوتی تھی۔ آج ملکی سطح پر نفرت اور تقسیم نے سب کچھ ہی بدل دیا۔سیاسی مخالفت کو دشمنی سمجھا جانے لگا ہے۔اسے معاشرہ کا زوال ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس زوال کی تمام تر ذمہ داری سیاسی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔مقامی سیاسی قیادت اس قابل شرم حرکت کے پیچھے نہیں یہ قومی سطح پر تقسیم کا شاخسانہ ہے۔
میدان سیاست کبھی سٹڈی سرکل ہوا کرتے تھے آج سوشل میڈیا پر گالی گلوچ کا ماحول ہے۔حالیہ کشیدہ سیاسی ماحول میں انتشار اور تقسیم بہت واضح ہے۔ آپ اپنے خاندان کے ساتھ بیٹھے ہوں یا دوستوں کی محفل میں، ساتھ کام کرنے کی جگہ ہو یاشادی بیاہ کی تقریب، درسگاہ ہو یا تفریحی مقام ہر جگہ ہر محفل میں سیاسی گفتگو سنائی دے رہی ہے۔ہر شخص اپنی سیاسی جماعت اور لیڈر کے حق میں زبان بکف میدان سیاست میں نظر آتا ہے۔اکثر و بیشتر اپنی سیاسی پسند ناپسند دوسروں پر تھونپے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔سوشل میڈیا ہو یا واٹس اپ پرائیوٹ گروپس بحث کا ناتھمنے والا سلسلہ جاری ہے۔ طوفان بدتمیزی اور اذہان کو آلودہ کرنے والا سلسلہ جاری ہے۔ہم بہت سے گروپس کا حصہ ہیں، ایک عرصہ سے خاموش ممبر کی حیثیت سے گروپس میں موجود ہیں۔کبھی کبھی برداشت جواب دے دیتی ہے توComments کردیتے ہیں۔اپنی رائے کے اظہار کے لیے کالم لکھنے کو بہتر سمجھتے ہیں۔اختلاف نہیں اختلاف رائے کو اہمیت دیتے ہیں۔قارئین حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں اور کبھی کبھار ستائش بھی حصہ میں آتی ہے۔اپنا موقف اسی سوچ کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ بہت سے اتفاق نہیں کریں گے یہ انکا حق ہے اور اپنا موقف بیان کرنا ہمارا حق ہے۔ تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جو غلط بھی نہیں لیکن بلاجواز تنقید بھی برداشت کرنی پڑتی ہے۔ زیر اثر ہونے، کسی کی ٹیم کا حصہ قرار دینے یا مالی فوائد کے الزامات تو سب سے پہلے لگائے جاتے ہیں۔سب کچھ غلط بھی نہیں بہت سے سنجیدہ اور اہل رائے اختلاف کے باوجود بہت عزت اور محبت سے نوازتے ہیں۔بہت ہی قابل احترام ہیں ایسے احباب جو تنقید برداشت کرتے ہیں۔سابق ایم این اے چوہدری ریاض الحق، سابق ایم پی اے میاں منیر، سابق ایم پی اے منیب الحق، چوہدری فیاض ظفر، جماعت اسلامی سے چوہدری رضوان ایسی شخصیات ہیں جن سے اختلاف کیا لیکن ہمشیہ محبت اور عزت ہی حصہ میں آئی۔ ان سے عزت و احترام کا رشتہ آج بھی قائم اور مظبوط ہے لیکن ان سے وابستہ سیاسی کارکن ہدف تنقیدبنانے سے گریز نہیں کرتے۔سب چلتا ہے بس معاملہ بہت سادہ ہے سب اپنی تربیت کا پتہ دے رہے ہوتے ہیں۔تحریر کو مٹایا یا چھپایا نہیں جاسکتا لیکن اپنی کہی بات سے انکار آسان ہے۔ہم تحریروں کے ذریعے زندہ رہیں گے اس پر ہی ہمیں فخر ہے۔نعرے لگانے والے نہیں اپنی بات واضح اور تحریری صورت میں پیش کرتے ہیں۔
قارئین کرام!آج سب سے مقبول سوشل میڈیا ہے اور سب کی دسترس میں ہے۔لیکن سوشل میڈیا پر اناکی جنگ جاری رہتی ہے۔اس انا کی جنگ میں ہم اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور ساتھیوں سے بھی الجھ بیٹھتے ہیں۔ موجودہ سیاسی بحران میں یقیناً اکثریت نے اس صورت حال کا سامنا کیا ہوگا کہ ہمارے فون سیاسی ٹائپ پیغامات سے بھرے ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے جاننے والے اپنی سیاسی پسند ناپسندکودوسروں پر تھوپنے کی پوری کوشش کرتے ہیں کیونکہ آج سیاست میں ہم صرف نفرت اور عقیدت کے جذبات سے واقف ہیں۔ عزت اور رواداری کے معنی بھی بھول چکے ہیں۔عام طور پر کہا جاتا ہے سیاست میں اختلاف لازم ہے لیکن یہ اختلاف صرف جز ہے سیاست کا کل نہیں۔ حقیقی سیاست یہ ہے کہ راستہ بنایا جائے کسی کا راستہ روکنا سیاست نہیں۔ ایک دوسرے سے اختلاف رکھنے کی صورت میں دوسرے کی رائے کو احترام دینا تہذیب یافتہ اور باشعور قوموں کا شیوہ رہا ہے۔ اختلاف رائے کو برداشت کرنا سیکھنا ضروری ہے۔سسٹم کو تبدیل کرنا بے شک ہمارے اختیار میں نہیں لیکن ہم خود کو بدل لینے کا اختیار تو رکھتے ہیں۔گڈ ٹو سی یو کہنے کی عادت بنائی جائے ناں کہ اس فقرہ کو اپنے سیاسی استعمال کے لیے بھی گالی بنانے کی کوشش کریں جیسا کہ مسلم لیگ ن کی طرف سے کیا گیا۔سوچ بدلیں،رویہ بدلیں حالات خود بخود بدل جائیں گے۔سیاست میں نفرت کا بول بالا ہے۔ ہر گلی، ہر گاوں، ہرموڑ پر نفرت کا عفریت کھڑا قہقہہ لگارہا ہے اور اس کے سامنے محبت، برداشت اور بھائی چارہ کی سیاست وتہذیب لا چار نظر آرہی ہے۔ آج ہم اپنی سیاسی تاریخ کے بدترین دورسے گزررہے ہیں۔یہ دور جلد ماضی بن جائے گا کیونکہ تاریخ کا ہر طالب علم جانتاہے کہ رات کتنی بھی کالی کیوں نہ ہو، لمبی کیوں نہ ہو رات پھر رات ہے۔ اندھیرے کی کوکھ سے ہی سورج جنم لیتا ہے اور تاریکی کا نام ونشاں مٹادیتاہے۔عام آدمی اور سیاسی کارکن اتنا سمجھ لیں کہ سیاسی قیادت وسیع تر ملکی مفاد اور ساتھ ساتھ اپنے ذاتی مفاد کے لئے ایک حکومت میں شامل ہوجاتے ہیں تو ہم خود کو کیوں نفرت کی آگ میں جھونک رہے ہیں۔ جس دن ہم یہ جان لیں گے بس اسی دن پاکستان ایک صحیح راستہ پر ہوگا اور ہم نفرت کی سیاست کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button