کالم

میرا کشمیر میرے پاس رہنے دو۔۔۔

قارئین محترم!مسئلہ کشمیر دنیا کے دیرینہ تنازعات میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے بر صغیر کے ڈیڑھ ارب لوگ اذیت میں مبتلا ہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان دشمنی کی وجہ سے ہتھیاروں کی دوڑ لگی ہوئی ہے،تجارتی تعلقات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ہیومن ڈیولپمنٹ انڈکس پر دونوں ملک بہت نیچے ہیں۔قوم اور مذہب کو بنیاد بنا کر دشمنی کے جذبات بھڑکا کر عوام کا استحصال کیا جاتا ہے۔مسئلے کے بنیادی فریق ریاستی عوام بنیادی حقوق سے محروم،منقسم اور جبر کا شکار ہیں۔اس پورے خطے میں امن کی بحالی اور ترقی کے لئے اس مسئلے کا حل نا گزیر ہے۔برصغیر کے باشعور لوگوں کا فرض ہے کہ نہ صرف ریاستی عوام کے لئے بلکہ اپنی تعلیم ،صحت،روزگار،معاشی میدان میں ترقی اور جمہوری حقوق کے لئے مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیں۔دہشت گردی اور مقروض معشیت کے پیچھے بنیادی وجہ ہندوستان اور پاکستان کے خراب تعلقات ہیں،جن کی جڑ مسئلہ کشمیر ہے۔بہتر سال سے اس مسئلے میں پیش رفت نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان ریاست جموں و کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے،اقوام متحدہ کی قرار دادیں بھی محض کاغذ کا ٹکڑا ثابت ہوئی ہیں۔کیونکہ وہاں عالمی طاقتیں حاوی ہیں اوروہ اپنے مفادات کے مطابق ہی اقوام متحدہ کو استعمال کرتی ہیں۔اس مسئلے کو بھارت کی نظر سے دیکھنے سے یہ کبھی بھی حل نہیں ہو گا،مسئلہ کشمیر تب ہی حل ہو سکتا ہے جب ریاستی عوام کو بنیادی فریق تسلیم کر کہ ان کی امنگوں کے مطابق اس کا حل تلاش کیا جائے۔پاکستان اور بھارت اس پوذیشن میں نہیں کہ وہ جنگ لڑ کہ پوری ریاست پر قبضہ کر سکیں،اور اگر یہ نا ممکن کام ہو بھی جائے تو اس طرح صورتحال مزید مخدوش ہو جائے گی۔بھارتی مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں نے لاکھوں جانیں قربان کر کہ یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کسی صورت بھارت کے ساتھ رہنے کے لئے تیار نہیں۔اسی طرح آزاد کشمیر اور گلگت ،بلتستان بھی کبھی بھارت کے ساتھ شامل نہیں ہوں گے۔البتہ جموں اور لداخ کے لوگوں کا انتخاب مختلف ہو سکتا ہے۔دوسری طرف کوئی ایسی طاقت نہیں جو بھارت کو ریاست پر اپنا قبضہ ختم کرنے پر مجبور کرے۔جس طرح 1947میں بنگال اور پنجاب تقسیم ہو کر ہی پاکستان کا حصہ بنے تھے،وہی عمل ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ دہرانا ہو گا۔لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ آج ہم 2024ء میں کھڑے ہیں،زمینی حقائق تبدیل ہو چکے ہیں،اور 1947کی عینک سے آج کا معروضی سچ نہیں دیکھا جا سکتا۔بنگال کی مثال سے صورتحال کی وضاحت کی جا سکتی ہے۔مسلم لیگ 1947میں خود مختار بنگال کے حق میں تھی ،اور کانگریس کی ضد پر اسے تقسیم کیا گیا تھا۔اور یوں مشرقی بنگال کا مشرقی پاکستان بنا تھا،اکثریت کے خوف کے نجات کے بعد مگر قومی تضادات سامنے آگئے،پنجابی جاگیر داروں اور فوج نے پاکستان پر قبضہ کر لیا،ون یونٹ قائم کی اور صوبائی خود مختاری ختم کی۔استحصال نے مزاحمت کو جنم دیا اور جنرل شیر علی کا ایجاد کردہ نظریہ پاکستان،پاکستان کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔بنگلہ دیش بن گیا،سیاسی قیادت کی بد عنوانیاں زبان زد عام ہیں۔تعلیم،صحت اور کاروبار کی بہترین سہولتیں اشرافیہ کو حاصل ہیں اور عوام بد ترین استحصال کا شکار ہیں۔پاکستان کے عوام کو اپنے اشرافیہ کے جبر سے آزادی حاصل کرنے کے لئے عین اسی طرح کوشش کرنی چاہئے جیسے کشمیری کر رہے ہیں۔عالمی اقوام کو بھی الحاق کی بنیاد پر موجودہ بہتر سالہ تنازعے پر کوئی دل چسپی نہیں ہو سکتی۔کشمیری عوام،پاکستان اور بھارت سب کے لئے اس مسئلے کا حل ہو جانا ضروری ہے،اور اس کا واحد اور منصفانہ حل کشمیریوں کا حق خود ارادیت ہے۔تقسیم سے بچائو کا واحد راستہ یہی ہے۔کشمیریوں کی بیرون ملک مقیم ایک بہت بڑی آبادی آزادیء کشمیر کے لئے کوشش کر رہی ہے۔حق خود ارادیت کو اقوام متحدہ حق تسلیم کر چکی ہے۔اور موجودہ وقت میں کئی چھوٹے چھوٹے ملکوں نے اس حق کو اپنی آزادی کے لئے استعمال کیا ہے۔اور کامیاب خود مختار ریاستیں بنی ہیں۔کشمیر کی آزادی کے لئے چلائی جانے والی تھریک کو فرقہ واریت کی بنیاس پر تقسیم کرنا ممکن نہیں ہو گا۔اور نہ اسے پراکسی وار بنا کر ہندوستان کو کامیابی مل سکتی ہے۔ریاست جموں و کشمیر جنوبی ایشیاء کا مرکز بن سکتی ہے۔پاکستان کے چھوٹے صوبوں میںسرگرم سیاسی کارکن اور دانشور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے حامی ہیں۔البتہ حکمران طبقات اصولی موقف کے نام پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کا راگ الاپنے میں کمفرٹیبل محسوس کرتے ہیں۔کیوں کہ حالات کا جوں کا توں رہنا ان کی حکمرانی کو استحکام بخشتا ہے۔بھارت میں بھی انسانی حقوق کے علمبردار دانشور اس حل کو تقویت بخشیں گے۔تقسیم بر صغیر کے وقت مسلم لیگ نے ریاستوں کے آزاد رہنیکے حق کی بھرپور وکالت کی تھی۔جب کہ کانگریس کا موقف یہ تھا کہ ریاستوں کو بہر صورت پاکستان یا بھارت کا حصہ بننا چاہئے۔مہاراجہ ریاست وزیر اعطم کا اور مسلم کانفرنس ریاست کی خود مختاری کے حامی تھے،کانگریس کی پر زور مخالفت اور برطانیہ کی اس کی حمایت کی وجہ سے اس وقت کوئی بھی ریاست خود مختار نہ رہ سکی۔قبائلیوں کے حملے کے بعد مہاراجہ نے الحاق ہندوستان کا فیصلہ کر لیا،الحاق کے حامی شیخ عبداللہ نے طویل جیل کاٹی۔الحاق نواز سیاستدانوں نے گزشتہ بہتر سالوں میں چھوٹ چھوٹی مراعاتوں کے عوض تما اختیارات سے دستبرداری قبول کر لی،اور مفادات کی سیاست میں الجھے رہے،جب کہ کشمیر کی حامی جماعتوں نے مقبول بٹ شہید کو علامت بنا کر کشمیری عوام کے ایک بڑے حصے کو متحرک کر دیا ہے۔نا اہل سیاستدانوں کی وجہ سے کشمیر مسائلستان بن چکا ہے۔یہ بات ہندوستان کے عوام تک پہنچانے کی ضرورت ہے کہ کشمیری عوام نہ ان کے دشمن ہیں نہ ان کے مخالف،بلکہ وہ خود غاصبانہ قبضے کا شکار ہیں۔اور مظلوم عوام کے استحصال کے خلاف ان کی جدو جہد کے ساتھ یکجہتی رکھتے ہیں۔ہندوستان کے کروڑوں غریبوں کی دشمن ان کے ملک کی استحصالی اشرافیہ ہے۔اور مسئلہ کشمیر کو محض اس استحصال کو طوالت دینے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ہندوستان کے عوام کی نجات میں ہی دراصل ہماری آزادی کی کنجی پنہاں ہے۔بین الاقوامی رائے عامہ پر بھی بنیادی انسانی حقوق کی بازیابی کے لئے تحریک مثبت اثر ڈال سکتی ہے۔فرقہ واریت،دہشت گردی اور پراکسی وار کا توڑ بھی یہی ہے۔ریاست جموں و کشمیر کی تمام اکائیاں مساوی حیثیت میں اس ریاست کا حصہ ہوں۔صوبے خود مختار ہوں اور وفاق کے پاس چند ضروری شعبے ہوں۔ایک مخصوص وقت کے بعد صوبوں کو حق علیحٰدگی بھی حاصل ہونا چاہئے۔اگر ریاست جموں و کشمیر کو آزاد ہونا ہے تو اس کا واحد ممکنہ اور منصفانہ حل یہی ہے۔ ورنہ لاکھوں جانوں کی قربانی ضائع ہو جائے گی
۔ریاستی شہریوں کے استحصال کا سلسلہ چلتا رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button