کالم

جمہوریت ایسے ہی مرتی ہے

دنیا بھرمیں الیکشن کے انعقاد سے جمہوریت مستحکم ہوتی ہے، ملکی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے، ملک کا دفاع مضبوط ہوتا ہے ،ملک کی نیک نامی میں اضافہ ہوتا ہے، مگر یہاں پر انتخابات سے قبل ہی ان کو متنازع اور جانبدارانہ قرار دیا جا رہا ہے، اس پر مستزاد یہ ہے کہ جمہوریت کی دعوے دار اور جمہوری اقدار کو پروان چڑھانے کی دعوے دار بڑی سیاسی جماعتیں ہی ایک سیاسی جماعت سے انتخابی نشان چھن جانے پر خوشیاں منانے رہی ہیں، حالانکہ جمہوریت کا تقاضا ہے کہ یہ ساری ہی سیاسی جماعتیں انصاف کے لیے آواز بلند کرتیں ،لیکن یہ اپنے مخالف کی نہ صرف آواز دبانے میں لگی ہیں ، بلکہ سیاسی میدان سے ہی باہر نکال رہی ہیں۔اگر دیکھاجائے تو گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں اس سال عوام کی اکثریت ایک ہی پارٹی کے ساتھ ہے ، لیکن اس پارٹی کو ہی نہ صرف انتقامی سیاست کا نشانہ بنایا جارہا ہے ،بلکہ انتخابی عمل سے ہی باہر کیا جارہا ہے، پی ٹی آئی کے تمام اُمیدوار ہی آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں، پی ٹی آئی کا نام کسی اُمیدوارکے ساتھ نہیں ہوگا ،اس سے انتخابات صاف وشفاف ہوں گے نہ ہی ن کی کوئی ساکھ ہو گی،ایک طرف صاف و شفاف انتخابات کرانے کی باتیں کی جارہی ہیں تو دوسری جانب عملی طور پرشفاف انتخابات ہوتے دکھائی نہیں دیے رہے ہیں ، یہ کو نسی جمہوریت ہے اور یہ کیسی جمہوریت ہے ،جو کہ اس ا نتخابی عمل سے عوام میں مقبول پارٹی کو باہر کرکے بنائی جارہی ہے۔
اس ملک میں نام ہی کی جمہوریت رہی ہے ، یہاں کسی سیاسی جماعت میں جمہوریت ہے نہ ہی جمہوریت کے دعوئیداروں کے روئیوں میں جمہوریت دکھائی دیتی ہے ، یہاں پر جمہوریت کے علمبر دار ہی جمہوریت کے نام پر جمہور کوبے وقوف بنائے جارہے ہیں ،یہ ایک طرف عوام کو آزادانہ حق رائے دہی نہیں دینا چاہتے ہیں تو دوسری جانب ایک مقبول پارٹی کو انتخابی عمل سے باہر کرکے غیر ممقبول پارٹی اقتدار میں لانا چاہتے ہیں ،اس غیر منصفانہ انتخابی عمل کا کون حصہ بنے گا اور اس کی کو نسی ساکھ ہو گی ، اس لیے پہلی بار انتخابات سے پہلے ہی انتخابات متنازع ہو چکے ہیں۔
اس انتخابات کے متنازع ہو نے کی گونج کے باعث ہی عوام انتخابی عمل سے گریزاں دکھائی دینے لگے ہیں ، اس انتخابات میں عوام کی عدم دلچسپی کے باعث ایسا لگ رہا ہے کہ ٹرن آئوٹ انتہائی کم رہے گا ،انتخابات میں ٹرن آئوٹ کا نتائج کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے’ ووٹنگ کی شرح کم یا زیادہ ہونے سے نتائج مختلف ہو سکتے ہیں،پی ٹی آئی پچھلے انتخابات میں نوجوان اور خواتین ووٹرز کی اچھی خاصی تعداد باہر نکالنے میں کامیاب ہوئی تھی ،لیکن اس بار پی ٹی آئی بلے کے نشان سے محروم ہے تو ٹرن آئوٹ بھی کم ہونے کے امکانات ہیں، اس کا نقصان پی ٹی آئی کو ہی زیادہ ہو گا، جبکہ اس کا فائدہ دیگر سیاسی جماعتوں کو ہو گا ،کیونکہ ان کا ووٹر باہر نکلے گا توس کی بنیاد پر دوسری سیاسی جماعتیں اکثریت حاصل کرسکتی ہیں۔
یہ بات عوام جان چکے ہیں کہ وہ باہر نکلیں نہ نکلیں، ان کی رائے کا احترام کیا جائے گا نہ ہی ان کے فیصلے کو مانا جائے گا ،بلکہ ان کے فیصلے کو بدلا جائے گا ،اس لیے انتخابی عمل محض دکھاوئے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ، اس انتخابات کے انعقاد سے پہلے ہی نتائج کا اعلان ہو چکا ہے اور مسلم لیگ( ن )قیادت اعلانیہ کہہ ر ہے ہیںکہ میاں نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے جارہے ہیں ، جبکہ بلاول بھٹو زرداری ان کا راستہ روکنے کے دعوئے کررہے ہیں ، یہ دونوں ہی وزارت عظمیٰ کے اُمید وار ہیں اور دونوں ہی عوام کے بجائے طاقتور حلقوں کی خشنودی کی دوڑمیں بازی جتنے کی کوشش کررہے ہیں، اس دوڑ میں میاں نواز شریف آگے اور بلاول بھٹو زرداری پیچھے ہیں ، لیکن بلاول بھٹو زرداری سمجھتے ہیں کہ آخر مرحلے پر آصف علی زرداری کی سیاسی چال کے باعث میاں نواز شریف کو مات دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
اس سیاست کے کھیل میں کون کسے مات دیتا ہے ،یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ،لیکن ایک بات طے ہے کہ ہمیشہ کی طرح عوام کی ہی ہار ہوگی ، کیو نکہ یہ عوام کے نام نہاد نمائندگی کے دعوئیدار کبھی عوام کو جیتا دیکھنا چاہتے ہیں نہ ہی عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی لانے کے خواہشمند ہیں ،اس انتخابات سے بہت سے لوگوں نے سیاسی و معاشی استحکام کی توقع لگا رکھی ہے ،لیکن اس متنازع انتخابات سے کوئی استحکام آنے والا ہے نہ ہی عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی دکھائی دیتی ہے ، بلکہ ملک میں مزید انتشارہی بڑھتا دکھائی دیے رہا ہے۔
اس وقت ملک میں سیاسی و معاشی استحکام وقت کی اہم ضرورت ہے ،اس کیلئے ایک ایسی سیاسی حکومت کا قیام اولین ترجیح ہونا چاہئے کہ جس کی پشت پر عوامی حمایت ہو اور جسے اپنی بقا کا کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہئے،لیکن غیر سیاسی اور غیر جمہوری عمل کی کاشت سے سیاسی استحکام کا ثمر کسی طرح بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے ،موجودہ حالات میں ریاست مزیدکسی سیاسی عدم استحکام کی متحمل بھی نہیں ہوسکتی ہے،آئے کاش کہ ملک کے تمام ہی اسٹیک ہولڈر ز اس بات کو سمجھ سکیں، مگر یہاں کوئی سمجھنا چاہتا ہے نہ ہی کوئی غور و خوض کررہا ہے، یہاں ہر کوئی ہوس اقتدار میں ایک دوسرے کو ہی روندے چلا جارہاہے تو پھر اس کا خمیازہ آمریت کی ہی شکل میں بھگتنا پڑے گا،جمہوریت ایسے ہی مرتی ہے!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button