
خیر پنختونخوا کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں خواتین کو عملی سیاست کا حصہ بنایا جارہا ہے۔
صوبے خیبر پختونخوا سے مختلف سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ پر جنرل نشستوں پر 39 خواتین انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں
جنرل نشستوں پر کھڑی ہونے والی خواتین امیدوار ووٹ کے ذریعے جیت کر عملی سیاست کا حصہ بننے کے لیے پرعزم ہیں ۔ کے پی سے اس بار پاکستان پیپلز پارٹی نے مانسہرہ سے ساجدہ تبسم ،صوابی سے غزالہ خان، مردان سے انیلا شہزاد ، ہری پور سے شائستہ رضا، بونیر سے ڈاکٹر سویرا پرکاش سمیت قومی اسمبلی کے لیے 4 اور صوبائی اسمبلی کے لیے 6 خواتین کو نامزد کیا ہے۔
ان میں ڈاکٹرسویرا پرکاش جو ہندو برادری سے تعلق رکھتی ہیں انتخابی مہم میں عوامی اور سیاسی حلقوں کی توجہ سمیٹے ہوئے ہیں۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس علاقے کی تاریخ کو دیکھا جائے تو مذہبی جماعتیں ہیانتخابات میں کامیاب ہوتی رہی ہیں۔ تاہم مسلمان برادری اور ان کے حلقے کے علاؤہ جماعت اسلامی کی جانب سے بھی بونیر ،پی کے 25 بطورامیدوار برائے جنرل نشست ان کا خیر مقدم کیا گیا ہے ۔ خواتین کے لیے مختص نشستوں اور جنرل سیٹس پر انتخابات کے حوالے سے خواتین سیاستدانوں کی رائے کی اگر بات کی جائے تو پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیئر رکن نگہت اورکزئی کا کہنا ہے، ’’خواتین کو صرف صنف کی بنیاد پر ہی پیچھے نہیں دھکیلا جاتا بلکہ ان کو مخصوص نشست پر آنے کے طعنے دے کر آگے نہیں بڑھنے دیا جاتا لیکن اس کی ذمہ داری بھی خواتین پر عائد ہوتی ہے ۔ وہ اپنے حق کے لیے بات نہیں کریں گی تو کسی اور کے حق کے لیے کیا بات کریں گی۔ یہ بھی سچ ہے کہ بہت سی خواتین ایسی ہیں جو اقربا پروری کی بنیاد پر آئی ہیں اور سیاست سے نابلد ہوتی ہیں۔ وہ سیاسی امور میں دلچسپی بھی نہیں لیتی ہیں۔ ایسی خواتین کی وجہ سے سنجیدہ سیاستدان خواتین کا نام بھی خراب ہوتا ہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ الیکشن میں براہ راست حصہ لینے سے ہی سیاست میں خواتین کے خلاف منفی پروپیگنڈے کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔