کالم

فلسطین اسرائیل کشیدگی کا پس منظرو پیش منظر

یہ ستمبر کی بات ہے جب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان بڑے پر امید اندازمیں گورے صحافی کو سعودی ویژن 2030 کا تعارف کرارہے تھے۔صحافی نے اسرائیل کیساتھ تعلقات کی نوعیت کے بارے پوچھا تو ابن سلمان نے کہا ہم اسراٰئیل کیساتھ تعلقات میں دن بدن قریب جارہے ہیں۔اور پھر سات اکتوبر کا دن آگیا کہ جب حماس کے درجنوں فائٹرزپیراگلیڈنگ کرتے ہوئیاسرائیل پر لینڈہوگئے۔بلاشبہ اس اچانک حملے نے اسرائیل کو حواس باختہ کردیا۔موساد (اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسی) جس کا کہ شمار دنیا کی بہترین انٹیلیجنس اداروں میں ہوتا ہے کو اس حملے کی کانوں کان خبر تک نا ہوئ۔اس حملے کے بعد باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوگیا۔اسرائیل نے ہمیشہ کی طرح بدترین بربریت کا مظاہرہ کیا اور ہسپتالوں تک پر بمباری کی جس سے سینکڑوں بچے شہید ہوگئے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حماس نے اسی وقت کا کیوں انتخاب کیا؟ دراصل پچھلے کچھ سالوں سے لگ بھگ سب عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے کے کی راہ پر تھے۔خود پاکستان کے مقتدر حلقے بھی اسرائیل کے باریاب پہلے سے ذرا کچھ مختلف رائے رکھتے ہوئے نظر آتے تھے۔حماس کو یہ سب کچھ اپنی جدوجہد اور قربانیوں پر پانی پھرنیکے مترادف نظر آتا تھا۔حماس نے پھر وہی کیا جو ہمیشہ ایک ہاری ہوء پارٹی کرتی ہے کہ اس نے نتائج سے بیپرواہ ہوکر اپنی پوری طاقت سے اسرائیل پر حملہ کردیا۔اس حملے کے باریاب امت مسلمہ دو طبقوںمیں بٹی ہوء نظر آتی ہے۔ایک طبقہ اس حملے کو خالص جہاد سے تعبیر کررہا ہے۔ہمیشہ کی طرح اخوانی الفکراس بیانیہ کیپشتی بان ہیں۔امت مسلمہ کی مجموعی عوام بھی اس بیانیے کو ذیادہ قبول کرتے نظر آتے تھے۔پاکستان میں فلسطین سے متعلقہ جلسے جلوسوںمیں لاکھوں کا مجمع خود اس بات کی شہادت ہے۔ انکے مطابق غاصب صرف بندوق کی زبان سمجھتا ہے۔اقوام متحدہ کی درجنوں مذمتی قراردادیں اسرائیل کو اپنے مذموم عزائم سے ذرا برابر بھی پیچھے نا ہٹا سکی۔اور چونکہ اسرائیل نے بھی لڑ کر اور طاقت کے زور پر ان علاقوں پر قبضہ کیا ہے تو یہ علاقے واپس بھی اسی راہ سے ہی آئے گئیں ۔افغانستان میں دنیا کی درجنوں افواج کا یک بارگی حملہ آور ہوجانا اور سادہ لوح افغان مجاہدین کے ہاتھوں بری طرح شکست کھاکے واپس گھر جانا ثابت کرتا ہے کہ "کہ کتنی ہی بار چھوٹے گروہ اپنے سے بڑے لشکرپر اللہ کے اذن سے غالب آگئے۔”(القرآن)
دوسری طرف ایک پڑھا لکھا طبقہ مگر اقلیت میں اس حملے کو خودکشی سے تعبیر کرتا ہے۔ خود مسئلہ فلسطین کی تاریخ بھی ان کے مؤقف کی تائید کرتی ہے۔انکے کہنے کے مطابق جنگ سے ہمیشہ بالآخر فلسطینیوں کا نقصان ذیادہ اور صہیونیوں کا فائدہ ہوا ہے۔آپ تاریخ اٹھا کردیکھ لیں جب بھی اسرائیل فلسطین جنگ ہوء ہے اسرائیل کے رقبے میں اضافہ ہوا ہے۔اب تک کا فلسطینیوں کا جانی و مالی نقصان بھی اس بات کی گواہی ہے۔جب لڑای سے بلآخر ہمارا نقصان ہی ذیادہ ہوتا ہے تو ہم ماضی سے سبق کیوں نہیں سیکھتے۔انکے مطابق اب اپروچ بدلنے کا وقت ہے۔”مومن اپنے زمانے کا صاحب بصیرت شخص ہوتا ہے”(الحدیث) ایسا حملہ جس سے آپکو نقصان کا خطرہ ذیادہ اور فائدہ کی امید کم ہو کرنا کہاں کی سمجھداری ہے۔؟دونوں طبقوں کے احساسات کا میں نے ایک اجمالی سا خاکہ کھیچنے کی کوشش کی ہے۔ہردوگروہ اپنے اپنے دلائل رکھتے ہیں۔میرے خیال میں درمیانہ راستہ ہی صحیح راستہ ہوتا ہے۔افغانستان کا محل و وقوع فلسطین سے مختلف ہے ۔اس کے بغل میں پاکستان جیسا ہمسایہ نہیں ہے۔یہاں تک کہ حماس رہنما اسماعیل ہنیا کو کہنا پڑا اگر پاکستان اسرائیل کو دھمکی دے تو جنگ بندی ممکن ہے۔موجودہ افغان حکومت کے وزرائ چاہے پاکستان کو کتنا ہی بڑا بھلے کہیں اس مسئلے میں کوء دو رائے نہیں کہ پاکستان کے بغیر افغان طالبان آج فتح کے اس موڑ پر نا پہنچ پاتایجہاں آج کھڑیہیں۔ ۔ غزہ کے تین طرف اسرائیل اور چوتھی طرف اسلام پسندوں پر ہمیشہ سیخ پا مصر ہے ۔دوسرا غزہ میں تورا بورا کی پہاڑیوں کی مانند کوء محفوظ ٹھکانے بھی نہیں ہے۔افغانستان سنگلاخ پہاڑوں میں گھرا ہواجبکہ غزہ میں ذیادہ سے ذیادہ سرنگیں ہی بن سکتی ہیں۔صحیح اسباب کو بروئے کار لاتے ہوئے ہی توکل علی اللہ مومن کے شایان شان ہے۔باقی دوسرے گروہ سے ہمیں یہ اختلاف ہے کہ ہروقت اسباب کے ہی در پر رہنا اسلامی جہاد سے ناواقفیت ہے۔مسلمان کبھی بھی اسباب کیبھروسے جنگ نہیں کرتے۔بدر میں تین سو تیرا تھے اور فتح مقدر بنی اور حنین میں ذیادہ تھے اور مغلوب ہوئے۔ لڑاء کرنے سے ہی انسان کے مسلز بنتے ہیں۔جب کوء لڑے گاہی نہیں تو اسے اپنی زور کا کیسا اندازہ ہوگا۔ ہم بحثیت پاکستانی مسئلہ فلسطین سے غیرمتعلق نہیں رہ سکتے۔یہ مسئلہ فلسطین ہی تھا جس نے القاعدہ جیسی تنظیموں کو جنم دیا جو ہمارے پڑوسی ملک میں پھلی پھولی اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا حادثہ ہوا۔جس کے بعد فاٹا سے وہ دہشتگردی اٹھی جو ابھی تک ہماری جان نہیں چھوڑرہی
۔2001 میں افغان جنگ میں بظاہر امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ امریکہ کے افغانستان سے واپس چلے جانیکے بعد بھی آپ چاہے جرم چھوڑ دو لیکن جرم آپکو نہیں چھوڑتا کی مثل ابھی تک ہم پر اپنے نتائج قائم کیے ہیں۔ باقی اس پورے واقعہ میں سعودی عرب سب سے ذیادہ لوزر بن کے سامنے آیا۔ مسلم عوام کے غم و غصہ کو دیکھتے ہوئے سعودیہ کیلئے کرنے اب تو اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اگلے پانچ سال کوء سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اگر تو ابن سلمان اپنے وڑن میں فلسطینوں کے حالات کی بہتری کا کوء منصوبہ رکھتے ہے ۔تو ہم انکے لیے دعاگو ہیں (یہ بات انھوں نے اپنے انٹرویو میں کء بار کہی کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے میں صرف مانع فلسطینی ہے۔یعنی کہ وہ انکی حقوق کے بارے اسرائیل کو کسی معاہدے پر لانا چاہتے ہیں) باقی اگر بات اس سے علاوہ ہے تو پھر انکا اللہ حافظ۔باقی اس کالم میں میرا سعودی عرب اور خصوصا ابن سلمان توجہ کا مرکز ااسی لیے ہیں کیوں کہ پالیسی جو ریاض میں بنتی ہے اسلا م آباد پر اثر رکھتی ہے۔ ( صاحب مضمون نے حال ہی میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں بیچلرز کیا ہے)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button